مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی۔ہند
دنیا میں جو قوانین بنتے ہیں وہ محدود عقل اور محدود علم کی روشنی میں بنائے جاتے ہیں اس لیے کوئی وقت ایسا آتا ہے کہ اس میں تبدیلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب اس میں کمی بیشی کی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا علم لا محدود ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ، و ہ ہرزمانے میں ، ہردور میں، ہر شخص کے لیے قابل عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نظام دیا جاہے اس نظام سے بڑھ کرخوبصورت ، معتدل متوازن کوئی نظام نہیں ۔ دنیامیں کچھ ممالک ایسے ہیں جن کاپرچم چاند پر لہرا رہا ہے،جن کی ترقیات سے دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو چکی ہیں لیکن ان کے پاس جوخاندانی اور معاشرتی نظام ہے،وہ ایسی کمزوری اور ناکامیابی کاشکار ہے ،جس کی کوئی دوسری مثال دیکھنے کو نہیں ملتی ۔لوگ یورپ کی ترقیات اور علوم کی مثالیں دیتے ہیں لیکن وہاں خاندانی نظام تباہ ہو چکاہے، وہا ں کی عورتیں مردوں سے نکاح کرنے کی بجائے کتوں سے شادیاں کر رہی ہیں ، شوہر کتنے دن شوہر رہے گا اس کا کوئی بھروسہ نہیں رہ گیا ، اولاد اپنے باپ کے خلاف مقدمہ دائر کرتی ہے ، باپ اپنی اولاد کو رقم دیتا ہے تو اس پر سود وصول کرتاہے،مادیت کے غلبے نے رشتوں کا احترام ختم کردیاہے۔ایسے درد ناک واقعات رونما ہوتے ہیں جن کو زبان سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام نے عورت کو ایک مقام اور تحفظ دیا ہے۔ ہندوستان اوردیگر ممالک میں دعویٰ کیا جاتاہے کہ ہم مسلمان عورتوں کو پروٹیکشن (تحفظ) دیناچاہتے ہیں۔پارلیمنٹ میں مسلمان عورتوں کی حفاظت اور پروٹیکشن کے نام پر ایک بل پاس کیا گیاہے۔ کوئی ان کو سمجھائے کہ تم کیا عورتوں کو تحفظ اور آزادی دو گے ؟ اسلام نے جو تحفظ اور آزادی عورت کو دی ہے اس کی کوئی دوسری مثال موجودنہیں ۔مسلمان عورتیں غلام نہیں جنہیں تم آزادی دیناچاہتے ہو۔مسلمان عورتیں ذلیل نہیں جنہیں تم عزت دیناچاہتے ہو۔ عزت کی چادر عورتوں کے سر پر کسی نے ڈالی ہے تووہ محمد رسول اللہ ہیں۔
جو شخص باریکی سے اسلامی قانون کو پڑھے گا و ہ ضرور اس بات کا اقرار کرے گا کہ اس سے بڑھ کر کوئی قانون نہیں ہو سکتا۔ہندوستانی پارلیمنٹ میں جن ارکان پارلیمنٹ نے طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت کی ہے ان میں سے کئی لوگوں نے یہ کہا کہ ہم نے طلاق کا اسلامی قانون قرآن کے ذریعے سمجھا ہے۔ ہمارے دل سے یہ آواز آئی کہ ا س سے بہتر طلاق کاکوئی قانون نہیں ہو سکتا۔ بہار کی ایک اہم غیر مسلم ایم پی خاتون نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ میں نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھی ہیں۔ سورۂ بقرہ، سورہ نساء اورسور ہ طلاق کا اس نے حوالہ دیا اورپھر پارلیمنٹ میں یہ بات کہی کہ ’’میں یقین کے ساتھ کہتی ہوں کہ اس سے بڑھ کر بہترین قانون کوئی نہیں ہوسکتا۔ اگر قانون بنانا ہی ہے تو قرآن نے جو طلاق کا قانون بیان کیا ہے اسے قانون بنایئے، اس میں کوئی عیب نہیں ۔آپ جو قانون لائے ہیں اس میں عیب ہے۔‘‘
طلاق ثلاثہ پرحکومت وقت نے جو بل گزشتہ دنوں پاس کیا ہے، ایک سا ل پہلے بھی اسے لایا گیاتھا۔آل انڈیا مسلم پر سنل لابورڈ کی کوششوں سے اسے سرد خانہ میں ڈال دیا گیا تھا۔ اب دوبارہ وہ بل اس لیے لایاگیا ہے کہ حکومت وقت کو ہر محاذ پر شکست ہو رہی ہے۔یہ ہند و مسلم فرقہ وارانہ پالیسی اپنا کر ووٹ حاصل کرناچاہ رہے ہیں۔اپنی تمام نا کامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے حکومت یہ بل لے کر آئی ہے، تا کہ عوام کی نگاہیں اصل مسائل سے ہٹ جائیں۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ ہر شر میں کوئی خیر ہوتا ہے۔ اس شر کا یہ خیر ہے کہ ہمیں ایک بہترین دعوتی موقع ملا ہے جسے استعمال کرکے ہم اپنی بات غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ہم داعی پیغمبر کی داعی امت ہیں ، ہمیں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ بہترین اور متوازن نظام زندگی کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا ہے اور اسلام کو تمام انسانیت کے دکھ کی دوا اور زخم کے مرہم کے طور پر پیش کرنا ہے۔