Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج برسوں بعد میکے کو اس کی یاد آئی تھی

فرخندہ شاہد۔ ریاض
    آسمان پر کئی دنوں سے بادل چھائے ہوئے تھے کبھی کھل کر برستے، کبھی صرف بونداباندی ہو جاتی ۔اس کے بعد موسم خوشگوار ہوجاتا۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتیں۔ ملائکہ نے موسم کو انجوائے کیا ۔لمحے بھر اپنے گملوں کے پاس رک کر پودوں کو دیکھا جو بارش سے دھل دھلا کر تروتازہ لگ رہے تھے ۔اچانک اسے دن بھر کی مصروفیت یاد آئی۔ وہ جلدی سے کمرے کی طرف دوڑی ۔الماری سے بیگ نکالا، اپنا اور تینوں بچوں کا سامان رکھا ۔آج اسے اپنی بڑی نندفرزانہ باجی کے گھر جانا تھا۔ بچے اسکول سے نہیں آئے تھے ۔ملائکہ الماری کی طرف بڑھی اس نے درازسے اپناپرس نکالااور اس میں رکھے کچھ پیسے گننے شروع کئے ۔ پورے 7500 روپے جمع ہوئے تھے ۔اس نے احتیاط سے پیسے واپس پرس کی چھوٹی سی جیب میں رکھ کر زپ بند کی اور ایک پرسکون سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر چھا گئی۔ پھروہ دوبارہ اپنے کاموں میں مصروف ہوگئی۔
     کچھ دیر بعد بچے بھی اسکول سے واپس آگئے ۔اس نے کہا کہ بیٹا! واش روم میں آپ کا گلابی کاٹن کا سوٹ ہینگ کر دیا ہے۔ آپ تیار ہو جاو¿ جلدی سے اور اپنے دونوں بھائیوں کو بھی کپڑے بدلوادو۔ آپ کے بابا کے آتے ہی ہم آپکی پھوپھوکے گھر جانے کے لئے نکل جائیں گے۔ ملائکہ جو کچن میں کھڑی تھی ،اس نے پکوڑے تلتے ہوئے ، اپنی بیٹی انوشہ کو آواز دی۔انوشہ بڑی سمجھدار بچی تھی۔ اس نے پہلے اپنے دونوں بھائیوں کے منہ ہاتھ دھلا کرانہیں تیار کیا۔ اس کے بعد خود نہا دھو کر کپڑے تبدیل کئے۔ بالوں میں کنگھی کر کے ماں کی مدد کرنے کچن میں چلی آئی۔ ماما یہ آپ کیا بنا رہی ہیں ہمیں تو پھوپھو کی طرف جانا تھا ناں، اس نے دھواں نکلتی پتیلی میں ماں کو چمچ ہلاتے دیکھا تو تجسس سے پوچھا ۔بیٹا جی ہم لوگ آپ کی پھوپھو کے گھر جا رہے ہیں لیکن میں نے سوچا کہ تھوڑی سی کڑھی بنا لوں۔ سب کے ساتھ مل کر وہیں جا کر کھانا کھائیں گے۔ ملائکہ نے بڑے مصروف انداز میں ہاتھ چلاتے ہوئے بیٹی کو تسلی دی۔ کڑھی پتا، سفید زیرہ اور ثابت لال مرچ کا بھگار لگاتے ہی خوشبو پورے کچن میں پھیل گئی۔ اس نے دوسری چولھے پر بگھارے چاول دم پر رکھے ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ پکوڑے بھی تل رہی تھی ۔ماما سب کا کتنا خیال رکھتی ہیں، انوشہ نے پیار سے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ میری ماما کتنی اچھی ہیں اور کتنی پیاری ہیں۔ اسے اپنی ماما دنیا میں سب سے زیادہ پیاری تھی اور یقینا ہر بچے کو اپنی ماں دنیا میں سب سے زیادہ پیاری ہی لگتی ہے ۔
    اچھا سنو بچو !کھانے میں ابھی کافی دیر ہے، اس لئے میں نے آپ لوگوں کے لئے نوڈلز بنا دئیے ہیں۔ تینوں ٹیبل پر بیٹھ کر کھا لو۔ ملائکہ نے بیٹی کو ایک ٹرے تھمائی جس میں تین پیالے رکھے ہوئے تھے۔ انوشہ نے خوشی خوشی ٹرے پکڑی اور بڑھ کر بھائیوں کو آواز دینے لگی۔کچھ دیرکے بعد ملائکہ اور بچے جانے کے لئے تیار ہو چکے تھے ۔ملائکہ کے شوہر سلمان بھی کام سے واپس آتے ہی تیار ہو گئے۔
    ”سنیں !سامان کے ساتھ ساتھ یہ برتن بھی ٹیکسی میں رکھ دیں۔“ ملائکہ نے سلمان کو آواز دی۔ ملائکہ کے شوہر سلمان دراز قد پرکشش شخصیت کے مالک اور نہایت نفیس انسان تھے۔ ملائکہ کے پکارنے پر وہ کچن کی طرف بڑھ گئے ،یہ کیا جھمیلا ہے بھئی، تمہیں بھی ہر وقت مصروف رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ سلمان نے مسکرا کر ملائکہ کی طرف دیکھا ۔اس میں جھمیلے کی کیا بات ہے ؟فرزانہ باجی بیوہ عورت ہیں اور اس پر6 بچوں کا ساتھ۔ یہ تو ان کی محبت ہے کہ محدود وسائل میں بھی ہم سب کو اتنے اصرار سے اپنے گھر بلاتی رہتی ہیں اور بچے بھی وہاں جا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ میں نے اسی لئے دوپہر کا کھانا بنا لیا تاکہ فرزانہ باجی کو کھانے کا فوری انتظام کرنے میں پریشانی نہ ہو اور آج موسم بھی کتنا اچھا ہو رہا ہے تو میں نے موسم کی مناسبت سے ہی کھانا بنا یاہے۔ سب مل کر انجوائے کریں گے ۔وہ جلدی جلدی سامان سمیٹے ہوئے شوہر کو بتانے لگی ۔ہاںبالکل! تمہاری بات صحیح ہے۔ میں تو چاہتا تھا کہ عمر بھائی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد باجی میرے ساتھ یہاں آکر رہیں مگر انہوں نے منع کردیا ۔ایک تو ہمارے اپنے حالات دوسرا ان کا وہاں اپنا مکان ہے جسے چھوڑ کر یہاں آنا انہیں گوارہ نہیں تھا۔ سلمان کی آنکھوں سے اداسی ٹپکنے لگی۔ جاتے ہوئے راستے میں تھوڑا چکن اور پھل وغیرہ بھی خرید لیں گے۔ ملائکہ نے ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے کہا تو سلمان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
    ملائکہ نے ہمیشہ سسرال والوں کا بہت خیال رکھا ہے اور خاص طور پر اس کی بیوہ بہن فرزانہ باجی کا۔ سلمان نے دل میں سوچا۔ سلمان نے ایم بی اے کیا ہوا تھا ۔ابتدائی دنوں میں اسے نوکری کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ کافی عرصے کے بعد کہیں جا کر ایک اچھی کمپنی میں نوکری مل گئی۔ تنخواہ معمولی سی تھی لہٰذا شادی اور دو بچوں کے بعد خرچے بڑھ گئے اور قلیل تنخواہ میں گزارہ کرنا مشکل ہو گیا۔ ملائکہ نے سالوں کی بچت اور تھوڑا قرضہ لے کر ایک سیکنڈ ہینڈ ٹیکسی خرید لی۔ ملائکہ کا سگابھائی ناصر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دبئی میں رہائش پذیر تھا۔ وہ ایک کمپنی میں کام کرتا تھا۔ تنخواہ بھی اچھی خاصی تھی۔ اگر وہ چاہتی تو بھائی سے امداد لے سکتی تھی لیکن اس کی غیرت کو یہ بات گوارہ نہ تھی کہ وہ بھائی کا احسان لے کر اپنے شوہر کی نگاہیں جھکا دے۔ دراصل ملائکہ اور سلمان کی شادی پسند کی تھی اور ملائکہ کے والدین کو تو اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن اس کے بھائی عمر کو سلمان اپنی بہن کے ہم پلہ نہیں لگا۔ اس لئے وہ اس شادی پر خوش نہیں تھا۔ اس نے بہن کو بہت سمجھایا لیکن ملائکہ نے بھائی کی ایک نہ سنی اور اپنے دل کی ما نی ۔ اسی لئے اس نے شادی کے بعد ملائکہ سے نہ ہونے کے برابر تعلقات رکھے۔ ملائکہ اکثر بھائی کو یاد کر کے آنسو بہاتی لیکن بھائی کو پلٹ کر نہیں پکارا۔
    سلمان ایک محنتی انسان تھا ۔اس نے ملائکہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اور کچھ مالی مسائل کو حل کرنے کی خاطر نوکری چھوڑ کر ٹیکسی چلانا شروع کردی اور اس طرح ان کے معاشی حالات بہتر ہونے لگے۔ کبھی کبھار شہر کے حالات بھی خراب ہو جاتے اور ہڑتالوں میں جلاﺅگھیراﺅ کے ڈر سے ٹیکسی گھر میں کھڑی کر دی جاتی تو آمدنی نہ ہوتی لیکن پھر بھی برے بھلے گزارا ہونے لگا ۔اسی صورت حال کے پیش نظر ملائکہ نے اپنی جہیز کی سلائی مشین نکال کر اجرت پر کپڑے سینے شروع کر دئیے ۔اس نے شادی سے قبل گھر کے قریب واقع انڈسٹریل ہوم سے فیشن ڈیزائننگ کا کورس کیا تھا۔ اس کے فنکارانہ ہاتھ میں بڑی صفائی اور مہارت تھی ۔چند ہی مہینوں میں اس کی سلائی کی دھوم پورے محلے میں مچ گئی اور باقی درزیوں کے مقابلے میں ملائکہ آدھی اجرت پر نئے فیشن کے مطابق کپڑے سیتی۔ یوںمحلے کی ہر لڑکی اس کے گھر کا رخ کرنے لگی ۔
    باجی یہ کچھ پیسے رکھ لیں، بقر عید آ رہی ہے۔ بچوں کے لئے کپڑے خرید لیجئے گا۔ ملائکہ نے گھر واپسی سے قبل اپنے پرس میں سے کچھ پیسے نکال کر فرزانہ باجی کی مٹھی میں دبا دئیے۔ ارے بھائی یہ کیا، اتنی مہنگائی ہے تم لوگوں کو بھی تو پیسوں کی ضرورت ہوگی ۔میں نہیں لوں گی۔ فرزانہ باجی نے ہاتھ پیچھے کر لئے ۔باجی پلیز! اگر آپ ہمیں اپنا سمجھتی ہیں تو یہ رکھ لیں۔ آپ کے بچے میرے بھی تو کچھ لگتے ہیں۔ اگر آپ انکار کریں گی تو میں ناراض ہو جاو¿ں گی۔ ملائکہ اچھی طرح جانتی تھی کہ باجی کو ضرورت ہے لیکن وہ تکلف کر رہی ہیں اسی لئے اس نے جذباتی انداز اختیار کیا ۔
    فرزانہ کے حالات کافی خراب چل رہے تھے۔ اس نے مجبورا ًپیسے رکھ لئے اور اپنی بھابی کو محبت سے دیکھا جو ہمیشہ ان لوگوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ اس کی جیت چھوٹی تھی لیکن دل بہت بڑا تھا ۔وہ ہر تہوار اور خاص موقعوں پر ان لوگوں کی کسی نہ کسی انداز میں مدد کرتی رہتی تھی۔ اگلے دن ملائکہ نے جلدی جلدی گھر کے کام کاج ختم کئے کیونکہ عید قرباں سے قبل اسے بہت سارے سلائی کے کام نمٹانے تھے۔ سالن چڑھا کر وہ صحن میں آگئی جہاں تخت پر سلائی مشین رکھی ہوئی تھی۔ اس نے بچوں کے لئے بھی عید کے کپڑے سینے تھے اور عید کی وجہ سے اسے سلائی کا اور بھی بہت کام ملا ہوا تھا۔ وہ بہت دنوں سے ایک اچھا سا قیمتی سوٹ لینے کا ارادہ کر رہی تھی مگر اچانک کوئی نہ کوئی ایسا خرچہ آجاتا کہ اس کی خواہش دل میں ہی رہ جاتی۔ اب بقر عید پر سوچا تھا لیکن سلمان کی ٹیکسی کی بیٹری خراب ہو گئی اور دو دن کے لئے گاڑی کھڑی کرنا پڑی ۔روزانہ کے خرچے پورے کرنا مشکل ہو گئے تو مجبوراً جمع پونجی پر ہی گزارہ کرنا پڑا۔ تب ہی ٹیکسی دوبارہ چلانے کے قابل ہوئی۔ اسی وجہ سے آج کل ملائکہ کا ہاتھ بہت تنگ ہو گیا اور اس نے اپنے کپڑے بنانے کا ارادہ ترک کر دیا ۔ماما آپ نے عید کے لئے ہم سب کے کپڑے خرید لئے ہیں لیکن ابھی تک اپنے لئے سوٹ کیوں نہیں خریدا؟ دیکھے تو عید میں کتنے کم دن رہ گئے ہیں۔
     انوشہ بہت حساس بچی تھی اس نے ماں کو اپنی تشویش بتائی ۔ملائکہ نے کہا ”ارے بیٹا میرے پاس پہلے سے جو نیا سوٹ موجود ہے تو دوسرا خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔ ابھی چھوٹی عید پر تو سوٹ بنایا تھا وہ ایک دو دفعہ ہی پہنا ہے ،وہی پہن لوں گی ۔“اس نے بیٹی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ نہیں ماما اگر آپ نیا سوٹ نہیں بنائیں گئی تو میں بھی نیا سوٹ نہیں پہنوں گی۔ انوشہ نے ماں سے ضد کی اور اس نے بڑی مشکل سے بیٹی کو قائل کیا۔ اگلے روز ملائکہ گھر کے کام کاج نمٹا کر بڑے انہماک سے اپنی سلائی میں مصروف تھی کہ اچانک گھر کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا۔ ارے اس وقت کون آگیا ؟ابھی تو بچوں کے آنے کا وقت بھی نہیں ہوا اور سلمان بھی اس وقت نہیں آتے ۔شاید کوئی محلے والا ہوگا۔ ملائکہ نے یہی سوچتے ہوئے جلدی سے چپل پہنے اور دروازہ کھولنے کیلئے بھاگی۔ ارے بھائی بھابھی آپ۔ دروازہ کھولتے ہی اسے اپنا بڑا بھائی ناصر اور بھابھی دونوں بچوں سمیت کھڑے دکھائی دئیے۔ اندر آیئے ناں، وہ خوشی سے اچھل پڑی۔ کیسی ہو میری پیاری بہن ۔بھائی نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چومی۔ ٹھیک ہوں بھائی۔ خوشی کے مارے ملائکہ روپڑی ۔اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔ بھائی بھابھی اور بچوں کو بٹھایا۔ حال احوال پوچھا۔ بھائی آپ بغیر اطلاع ایسے اچانک آ گئے ،سچ میری تو عید ہو گئی۔ ملائکہ کے پاو¿ں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ بس ملائکہ ہم تو چھوٹی عید پر آنا چاہ رہے تھے لیکن تمہارے بھائی کو چھٹی نہیں ملی۔ اب اچانک ان کے کفیل نے نہ جانے کیسے پورے ایک مہینے کی چھٹی دے دی اور ہم نے فورا ًٹکٹ کٹا ئے اور آگئے۔ آپ کے بھائی صاحب تو یہاں آنے سے تھوڑا جھجک رہے تھے لیکن میں نے سمجھایا کہ وقتی ناراضیوں اور دوریوں سے اپنے پر ائے تو نہیں بن جاتے ۔اسی لئے سب کچھ بھول بھال کر اپنوں کو گلے لگانا چاہئے اورامی ابوا کے انتقال کے بعد سسرال کے نام پر میری ایک ہی چھوٹی نندرہ گئی ہے تو اس سے دور کیوں رہوں؟ لہٰذا اس بار ہم سب عید تمہارے ساتھ گزاریں گے۔ بھابھی نے یہ کہتے ہوئے ملائکہ کو گلے لگا لیا۔ بھابھی میں اتنی مثبت تبدیلی ، تعریف کے قابل تھی۔ ملائکہ کا دل باغ باغ ہو گیا وہ ان سب کی اچانک آمد پر بہت زیادہ خوش تھی ۔اتنے سالوں کے بعد اپنے دونوں بھتیجوں کو خود سے لپٹا کر پیار کیا ۔بچے اسکول سے آئے تو ملائکہ نے ماموں ممانی اور بچوں سے ملوایا۔ بچے جلد ہی آپس میں گھل مل گئے۔ سلمان جب شام کو گھر آئے تو گھر میں خوشگوار گہماگہمی دیکھ کربہت خوش ہوئے ۔
    بھابی ،ناصر بھائی اور سلمان کہاں ہیں ،اگلے دن جب ملائکہ بھابی سے گپ شپ میں مصروف تھی تو اس نے اچانک ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے ہوئے پوچھا؟وہ سب بکرا خریدنے گئے ہیں تم واشروم میں کپڑے دھو رہی تھیں تو مجھے بتا کر چلے گئے۔ بھابھی نے مسکراتے ہوئے کہا ”اوہ اچھا !اتنے سارے لوگ مل کر ایک بکرا خریدنے گئے ہیں ۔آج تو بکرا منڈی والوں کی خیر نہیں کیونکہ بچوں کی فوج ظفر موج بھی غائب تھی ۔وہ خوش دلی سے کہہ کر ہنس دیں۔ ہاں یہ تو ہے۔ بھابھی بھی ہنسنے لگیں۔ اچھا ملائکہ میری ایک بات سنو، میرے ساتھ اندر آو¿۔ بھابھی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر لے آئی اور ایک چھوٹا سا بیگ اسے پکڑاتے ہوئے بولی، اس میں سلمان اور بچوں کے لئے کچھ کپڑے کھلونے اور چاکلیٹس ہیں ۔ یہ ہماری طرف سے تم سب کیلئے ایک چھوٹا سا تحفہ ہے۔ اتنا تکلف کیوں کیا بھابھی، اس کی کیا ضرورت تھی؟ وہ ہاتھ پیچھے کرکے کہنے لگی، ارے نہیں ہم اتنے سالوں بعد آئے ہیں اتنا تو حق بنتا ہے ناں، پلیز یہ رکھ لو ۔بھابھی نے زبردستی اسے بیگ تھما دیا اور یہ لو تمہارا تحفہ یہ تمہارے بھائی نے خاص طور پر تمہارے لئے عید کی شاپنگ کی تھی۔ بھابھی نے سائڈپر رکھا ہوا دوسرا تھیلا اس کے حوالے کیا۔ وہ حیرانی اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں بھابھی کو دیکھ رہی تھی۔ اسے ان چیزوں کی نہیںبلکہ آنے والی عید اور اپنوں کی محبت کے احساس کی خوشی ہو رہی تھی کیونکہ ہر تہوار پر آس پڑوس کی خواتین اپنی میکے سے بھیجی گئی چیزیں ایک دوسرے کو دکھا دکھا کر خوش ہوتی تھیں تو اس وقت اسے بھی بھائی اور بھابھی کی یاد تڑپانے لگتی تھی۔ جب تک ماں باپ زندہ تھے ،مختلف تہواروں پر اپنی استطاعت کے مطابق کچھ تحائف بھیج کر بیٹی سے محبت کا اظہار کرتے تھے لیکن ان کی آنکھیں بند ہونے کے بعد کافی عرصہ گزر گیا تھا، میکے سے کسی نے اسکی خبر گیری بھی نہیں کی تھی ہمیشہ میکے کو یاد کر کے اس کا دل دکھتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اتنی غربت میں بھی وہ ہمیشہ فرزانہ باجی کامان قائم رکھنے کی کوشش میں لگی رہتی تھی ۔بہر حال آج برسوں بعد میکے کو اس کی یادآئی تھی۔
    اس نے جلدی جلدی سارے کام نمٹائے، کمرے کا رخ کیا اوردروازہ بند کرنے کے بعد بڑے اشتیاق سے وہ پیکٹ کھولا تو حیران رہ گئی۔ کئی مہینوں سے جو سوٹ بنانے کی خواہش اس کے دل میں تھی، اس طرح کے چار قیمتی سوٹ، میک اپ کا سامان اور ساتھ ہی ایک خوبصورت ڈبے میں سونے کے بُندے رکھے ہوئے تھے ۔ملائکہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔وہ حیران تھی ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اللہ کتنا کریم ہے ۔وہ بہت زیادہ خوش تھی ۔ اس نے ہمیشہ اپنی خواہشات کو مار کر فرزانہ باجی اور ان کے بچوں کی ضرورتوں کو اولین ترجیح دی اور آج اللہ پاک نے اسے اس کا کتنا بڑا اجر عطا فرمایا، اپنوں کی محبتوں کی صورت میں اور اپنوں کی محبت کے احساس کی صورت میں اسے ساری خوشیاں مل گئیں۔ بے شک جو اللہ کریم کی راہ میں خرچ کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اسے اس سے کئی گنازیادہ نوازتا ہے۔
     سبحان اللہ ، اے میرے مالک!تورحیم اور کریم ہے ۔یہ سوچتے ہوئے بے اختیار اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ شکرانے کے نفل اداکرنے کھڑی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، یہ شکرانے کے آنسو تھے۔

 

شیئر: