آپ کی زندگی بہادر سپاہی کے لیے بھی اْسوۂ حسنہ ہے ، آپ میں ایک فوجی قائد کی شجاعت، تدبر اور شفقت جیسی اعلیٰ صفات موجود تھیں
مولانا ڈاکٹر عبدالرزّاق اسکندر ۔کراچی
گزشتہ سے پیوستہ
10 ھ:
اس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امارت میں ایک دستہ’’ بنی مذحج‘‘ کے مقابلہ میں بھیجا۔ ان کے20آدمی مارے گئے باقی مسلمان ہوئے۔ اسی سال حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کو تعلیم و تبلیغ کے لیے یمن بھیجا۔ اس سال کا اہم ترین واقعہ آپ کا آخری حج ہے جسے حجۃ الوداع، حجۃ البلاغ، حجۃ الکمال، حجۃ التمام، حجۃ الاسلام کہا جاتا ہے۔ آپ نے عرفات اور منیٰ کے خطبوں میں دین کے بنیادی اْصولوں کی تعلیم فرمائی۔
آپ کی زندگی حاکمِ وقت اور قاضی کے لیے نمونہ :
آپ کی زندگی پورے عالم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اْسوۂ حسنہ ہے کیونکہ آپ ایک اِسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپ نے اس مملکت کو نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا۔
آپ کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے کیونکہ آپ ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اور آپ نے قضاء اور عدل و انصاف کے وہ اْصول بیان فرمائے جن سے اِنسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی۔ آپ کا فرمان ہے:
’’بخدا اگر محمد () کی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کا اِرتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘
رسول اللہ کی زندگی پورے عالم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اْسوۂ حسنہ ہے کیونکہ آپ ایک اِسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپ نے اس مملکت کو نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا۔
آپ کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے کیونکہ آپ ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اور آپ نے قضاء اور عدل و انصاف کے وہ اْصول بیان فرمائے جن سے اِنسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی۔ آپ کا فرمان ہے:
’’بخدا اگر محمد () کی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کا اِرتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘
اور آپ ہی کا فرمان ہے:
’’اگر لوگوں کو صرف ان کے دعوے اور مطالبہ پر ان کا مطلوب دیدیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مالوں کا دعویٰ شروع کردیں گے لیکن مدعی کے ذمہ ثبوت ہے اور مدعا علیہ پر قسم ہے۔‘‘
رسول اللہ کی زندگی فوجی جرنیل کے لیے نمونہ:
آپ کی زندگی ایک فوجی جرنیل اور بہادر سپاہی کے لیے بھی اْسوۂ حسنہ ہے کیونکہ آپ میں ایک فوجی قائد کی شجاعت، تدبر اور شفقت جیسی اعلیٰ صفات موجود تھیں۔
رسول اللہ کی بہادری اور شجاعت:
بہادری اور شجاعت ایسی کہ غزوۂ حنین میں جب دشمنوں نے تیروں کی بارش برسادی تو بہتوں کے قدم اْکھڑ گئے لیکن آپاپنے جانثاروں کے ساتھ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ رہے تھے اور فرمارہے تھے:
انَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
انَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلبْ
’’میں سچا نبی ہوں، میں عبد المطلب کا سپوت ہوں۔‘‘
ایک بار اہلِ مدینہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کوئی دْشمن حملہ کرنے والا ہے، گھبرا کر باہر نکلے تاکہ معلومات حاصل کریں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم تن تنہا ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار باہر سے واپس تشریف لارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ گھبراؤ نہیں میں سب دیکھ کر آگیا ہوں، کوئی خطرہ نہیں۔
آپ اپنی امت کے ہر فرد کو ایک مجاہد اور مضبوط اِنسان دیکھنا چاہتے تھے، آپ کا ارشاد ہے:
’’ایک قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ بہتر اور پیارا ہے کمزور مومن کے مقابلے میں اور دونوں میں خیر موجود ہے۔‘‘
سنتِ مشورہ:
آپ غزوات میں تجربہ کار صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے تھے اور اس پر عمل بھی فرماتے جیسا کہ غزوۂ بدر اور غزوۂ خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں۔
رسول اللہ کی رحم دلی اور عدل و اِنصاف:
اس شجاعت کے ساتھ رحم دلی اور عدل و اِنصاف کا یہ عالم ہے کہ جب کسی لشکر اور فوج کو روانہ فرماتے تو انھیں اس بات کی تاکید فرماتے کہ کسی عورت، بچے، بوڑھے اور عبادت میں مشغول اِنسان کو ہرگزقتل نہ کیا جائے۔
رسول کا صبر و تحمل:
صبر و تحمل میں آپ سب کے امام ہیں۔ ایک اَعرابی آتا ہے اور آپ کی چادر کو اتنا زور سے کھینچتا ہے کہ گردنِ مبارک پر نشانات پڑجاتے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اللہ کے مال میں سے دیجیے۔ آپ مسکرا رہے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ اس کو اتنا مال دے دیا جائے۔
نبی اِستقامت کے پہاڑ:
حق پر صبر و اِستقامت کی آپ نے وہ مثال قائم فرمائی جس کی نظیر تاریخِ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے۔آپ کے مخالفین نے آپ کو مال و دولت، خوب صورت عورت اور دنیا کے جاہ و جلال کی لالچ دی تاکہ آپ دعوتِ حق کو ترک کردیں لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی آپ کو ذرہ برابر متاثر نہ کرسکی اور آپ نے ان کو ان تاریخی کلمات سے جواب دیا جو اہلِ حق کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہیں گے، آپ نے فرمایا:
’’قسم بخدا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر رکھ دیں اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دیںتاکہ میں اپنی اس دعوتِ حق کو چھوڑدوں تو میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ اللہ اسے غالب نہ کردے یا اسی میں میری موت آجائے۔‘‘
رسول اللہ کا عفو و کرم:
عفو و کرم میں اگر دیکھا جائے تو آپ کا کوئی ثانی نہیں ملے گا۔ فتحِ مکہ کی مثال جو اوپر گزری، ایسی ہے کہ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی، خود آپ کا ارشاد ہے:
’’جو تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر، جو تجھے نہ دے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کردے اور جو تجھ سے برا سلوک کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔‘‘
رسول کی سخاوت:
جود و سخا میں بھی آپ سب سے آگے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو آپ کی جود و سخا کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔‘‘
رسول اللہ کے اونچے اخلاق:
اخلاق میں آپ اتنے اْونچے مقام پر تھے کہ خود باری تعالیٰ نے آپ کی اس صفت کو خصوصیت سے ذکر کیا:
’’اور یقینا آپ( ) بڑے بلند خلق پر قائم ہیں۔‘‘
رسول اللہ بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست:
اسی طرح آپ ایک بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست بھی تھے۔آپ نے اپنی زندگی کا نمونہ پیش فرماکر اْمت کو بتادیا کہ ایک مسلمان شوہر کیسا ہونا چاہیے؟ ایک باپ کیسا ہو؟ اور ایک دوست کیسا ہو؟
رسول اللہ ایک کامیاب معلم اور مربی:
آپ کی ایک امتیازی صفت معلم اور مربی کی ہے۔ آپ کامل معلم، استاذ اور ایک عظیم مربی تھے؛ اس لیے تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے اور جن حضرات پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے سب کے لیے آپ اْسوۂ حسنہ ہیں۔
11 ھ: رسول کا وِصال:
11ھ میں آپ نے رْومیوں کے مقابلہ میں ’’اْسامۂ کا لشکر‘‘ تیار فرمایامگر لشکر کی روانگی سے قبل ہی آپ کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ یہ آپ کا مرضِ وفات تھا۔ اس دوران آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہے۔نماز کی امامت کے لیے اپنی جگہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔
پیر12ربیع الاوّل کو 63 سال کی عمر میں آپ کا وِصال ہوا جبکہ آپ اللہ کی امانت اللہ کے بندوں کو پہنچاچکے تھے اور دعوت و ہدایت کا کام پورا ہوچکا تھا۔ بدھ کی رات آپ کو غسل دیا گیا، 3 کپڑوں میں کفن دیا گیا اور مسلمانوں نے غم زدہ دلوں کیساتھ فرداً فرداً نمازِ جنازہ پڑھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہی حجرہ آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ واتباعہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا۔
رسول اللہ کی اولاد:
آپ کے 3 صاحب زادے تھے: قاسمؓ، عبد اللہؓ، اِبراہیمؓ سب کا بچپن میں ہی اِنتقال ہوا۔
4 صاحب زادیاں تھیں: سیدہ زینبؓ، سیدہ رْقیۂؓ، سیدہ اْمّ کلثومؓ اور سیدہ فاطمۃ الزہراؓ۔
نبی کی ازواجِ مطہرات:
سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ، سیدہ عائشہ صدیقہؓ، سیدہ حفصہؓ،سیدہ ام سلمہؓ، سیدہ سودہؓ، سیدہ زینب بنت جحشؓ، سیدہ میمونہؓ، سیدہ زینب بنت خزیمہؓ، سیدہ جویریہؓ، سیدہ صفیہؓ، سیدہ اْمّ حبیبہؓ۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اور زینب بنت خزیمہؓ کی وفات آپ کی حیات میں ہوئی۔ باقی 9 آپ کے وِصال کے وقت موجود تھیں رضی اللہ عنہنَّ۔
رسول اللہ کاحسن و جمال:
آپ کے حسن و جمال کے بیان سے تو قلم و قرطاس قاصر ہیںتاہم حضرت حسان بن ثابتؓ کے 2اشعار تشنگیٔ شوق کی تسکین کے لیے حاضر ہیں۔
وَاحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ
وَاجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءٗ
خُلِقْتَ مُبَرَّئً ا مِنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَانَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءٗ
آپ سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے نہیں دیکھا
اور آپ سے زیادہ جمیل کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا
آپ ہر عیب سے فطرتاً پاک و صاف پیدا ہوئے
گویا جیسا آپ چاہتے تھے ویسے ہی پیدا ہوئے