Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحابہ کرام ؓ، جن سے اللّٰہ تعالٰی راضی ، وہ اللّٰہ تعالٰی سے راضی

اہل اسلام کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام سے محبت، ان کی توقیر وتعظیم اوران کا ادب واحترام دین کا حصہ اور ہر مسلمان پر واجب ہے

مختار احمد محمدی مدنی-الجبیل

 صحابہ سے مراد وہ مقدس اورباعزت ہستیاں ہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے اپنے حبیب وخلیل حضرت محمد کی صحبت ومعیت اوررفاقت کیلئے منتخب فرمایا۔ پوری کائنات میں انبیائے کرام کے بعد انہی خوش قسمت وہ قابل قدر ہستیوں کا مقام ہے۔ بحالت ایمان نبی کریم سے ملاقا ت اتنا بلندرتبہ ہے جسے دنیا کا کوئی عام انسان حاصل نہیں کرسکتا۔ اس فضیلت کے سامنے دنیا کی ساری فضیلتیں ہیچ وکمتر ہیں ۔ جب کسی نے عمر بن عبد العزیزؒ جیسے عادل ومنصف ، متقی وخدا ترس خلیفہ وسلطان کو امیر معاویہ بن ابی سفیانؓ سے افضل کہہ دیا تو انہوں نے صحابہ کرام کا فضل ومقام واضح کرتے ہوئے یہ مبنی برحقیقت او رتاریخی جملہ ارشاد فرمایا : ’’جس گھوڑے پر امیر معاویہؓ نے نبی کریم کے ساتھ مشرکوں سے جنگ لڑی، عمر بن عبد العزیزکی پوری زندگی اس گھوڑے کی ٹاپ کے برابر نہیں ہوسکتی۔‘‘ یہ ہے نبی کریم کے پاکباز صحابہ کا مقام ومرتبہ۔ ایسا کیوں نہ ہو، اس وسیع وعریض کائنات میں آپ سے بڑھ کر تو کوئی نہیں ہوا ، کسی بڑے شخص سے ملاقات کو انسان اپنی زندگی کا سب سے حسین وبہترین لمحہ سمجھتا ہے۔ آپ تو اس کائنات کے امام ورہبر اور سرداروں کے سردار ہیں۔

پوری دنیا آپ کے مقام ومرتبہ کو نہیں پہنچ سکتی۔ رحمت دوعالم کی ہم نشینی کیلئے ان عالی مقام ہستیوں کا انتخاب رب العالمین کی طرف سے ہوا۔ یہ وہ جماعت ہے جن کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ سرور کائنات کے ہاتھوں انجام پایا۔ رضائے الٰہی کیلئے اپنا سب کچھ نبی کریم کے قدموں پر نچھاور کردیا۔ یہ راتوں کی تاریکی میں تہجد گزار تو دن کے اجالوں میں شہ سوار تھے۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے قرآن کریم کا نزول ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اللہ رب العالمین نے عرش سے ان کی تعدیل وتوثیق فرمائی، ان کا تزکیہ کیا ۔ اگران کے طرز عمل میں کہیں کمی نظر آئی تو اس کی اصلاح فرمائی، انہیں جنت کی نوید سنائی، ان کیلئے اجر عظیم کا وعدہ کیا، ان کیلئے بہترین انجام کا مژدہ ٔجانفزا سنایا، ان کے ایمان کو معیار حق وہدایت قرار دیا، ان کے راستے کو معیاری راستہ قرار دیا او ران کے سچے مومن ہونے کی سند عطا فرمائی۔ ان کے راستے کی مخالفت پر جہنم کی وعید سنائی، ان کے اخلاص وللہیت اور ان سے راضی ہونے کی شہادت دی، وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ ان سے راضی ہوا۔ اس جملہ کو اتنی کثرت سے دہرایاگیا کہ ہر صحابی کے نام آنے پر رضی اللہ عنہ کہنا ہر مسلمان کا دستور بن گیا ۔

کسی صحابی کا نام مسلمان کی زبان پر اس کے بغیر جاری ہی نہیں ہوسکتا۔ اللہ کے نبی نے ان سے محبت کرنے کو دینِ ایمان کا جز،ان سے محبت کو اپنی محبت او ران سے بغض وعداوت کو نفاق قرار دیا۔ یہ وہ پاکباز ہستیاںہیں جوقرآن کریم کی اولین مخاطب ہیں۔ جہاں بھی یاایہا الذین آمنوا سے ندا دی گئی، جہاں بھی مومنین ومتقین ومحسنین کا لفظ استعمال ہوا، اس سے یہی جماعت حقہ مراد ہے۔ وہ اس دھرتی کے انسان نما فرشتے تھے، وہ بلند اخلاق کے حامل تھے، ان کے دلوں میں صدق، فدائیت واستقامت کے جذبات موجزن تھے۔ پوراقرآن کریم ان کے مقام ومرتبہ اور اخلاص وللہیت پر شاہد عدل ہے۔ صرف چند آیتوں کا ترجمہ پیش خدمت ہے : ’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے انہیں پناہ دی او رمددکی یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘ ( الانفال72)۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا او رجنہوں نے پناہ دی اور مد دپہنچائی یہی لوگ سچے مومن ہیں ،ان کیلئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔‘‘ ( الانفال74)۔ ’’

لیکن خود رسول اللہ اور ان کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائی والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں،انہی کیلئے اللہ نے وہ جنتیں تیار کی ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘ ( التوبہ88،89)۔ ’’

اور جو انصار ومہاجرین سابق او رمقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیروکار ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کیلئے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جنکے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ ( التوبہ100)۔ ’’

یقینا اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کررہے تھے ، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔‘‘ ( الفتح 18)۔

نمونے کے طور پر چند آیتیں پیش کردی گئی ہیں، ایک مؤمن کیلئے تو صرف ایک آیت ہی کافی ہے جہاں خالق کائنات نے اپنے کلام پاک میں ان کی خوب خوب مدح فرمائی، ان کے جنتی ہونے کی شہادت دی وہیں نبی کریم نے ان کے مناقب وفضائل میںسیکڑوںحدیثیں بیان کی ہیںجو ہم تک متواتر طرق سے پہنچی ہیں۔ صرف چند حدیثیں بطور نمونہ پیش کی جارہی ہیں۔ صحیح بخاری میں نبی کریم کا فرمان ہے: ’’ میرے صحابہ کو برا نہ کہو (3مرتبہ آپ نے فرمایا ) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو نہ ان کے مد (یعنی آدھا کلو) اور نہ ہی ان کے نصف کے برابر پہنچ سکتا ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں نبی کریم کا ارشاد ہے :

’’جس نے میرے صحابہ پر سب وشتم کیا ،اس پر اللہ، اس کے فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘ نیز آپ نے فرمایا : ’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،میرے بعد انہیں ہدفِ تنقید نہ بنانا۔ ‘‘( سنن ترمذی )۔

ایک حدیث میں آپ فرماتے ہیں : ’’ تم میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ و الے ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں پھر جو ان کے بعد ہیں ۔‘‘ اس بات پر پورے اہل اسلام کا اجماع ہے اور اجماع رہیگا کہ صحابہ کرام سے محبت، ان کی توقیر وتعظیم اوران کا ادب واحترام کرنا دین کا حصہ اور ہر مسلمان پر واجب اور ضروری ہے۔ وہ اس امت کے سب سے افضل لوگ ہیں، ان کی تنقیص وعیب جوئی، کوتاہی وتوہین حرام ہے ۔ ان نصوص اور شہادتوں کے باوجود اگر کوئی صحابہ کرام میں عیب نکالنے کی کوشش کرے یا انہیں تنقید کا نشانہ بنائے یا ان پر سب وشتم کرے یا ان پر شک کرے یا انہیں دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے یا انہیں فاسق وفاجر کہے تو اس کا یہ طرز عمل قرآن وحدیث کے انکار کے مترادف ہے۔

یہ اللہ رب العالمین کے انتخاب پر کھلا اعتراض ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے علم پر بھی اعتراض ہے۔ گویا اللہ رب العالمین کو ان کی بدنیتی اورسوئے خاتمہ کے بارے میں علم نہیں تھا۔ صحابہ کرامؓ پرلعن طعن در اصل دین اسلام پر لعن وطعن ہے او ردین اسلام کو نہ صر ف مشکوک بنانا بلکہ اسے منہدم کرنا ہے کیونکہ دین صحابہ کرامؓ ہی کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے، وہی دین اسلام کے اولین راوی ہیں۔ اللہ کے فضل کے بعد انہی مقدس حضرات کے تگ ودو سے پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجا۔ در حقیقت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت صحابہ کرام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ جب صحابہ کرام کے کردارکو مجروح کردیں گے تو پھر دین اسلام کی پوری عمارت دھڑام سے نیچے گرجائیگی۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ صحابہ کرامؓ معیار ِحق وہدایت اورایمان ویقین کے بلند درجہ پر فائزہونے کے باوجود بشر تھے، معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ خطا کا صدور ان سے ناممکن نہیں لیکن ان کے بحر حسنات میں ان لغزشوں کی مثال قطرہ سے زیادہ نہیں۔ ساتھ ہی اگر ان سے کوئی کوتاہی ہوبھی جاتی تھی تو فوراً اس سے رجوع کرلیتے۔ توبہ واستغفار کرتے ، اللہ تعالیٰ سے ندامت کا اظہار کرتے اور پھر ہم جیسے گنہگار لوگ اس لائق نہیں کہ صحابہ کرامؓ پر نکتہ چینی کریں۔ہم اس بات کو بھی روا نہیں سمجھتے کہ ہم اسے لغزش کا نام دیں، وہ ان کا اجتہاد تھا اور مجتہد ہر حال میں اجر وثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ اگر حق بجانب رہا تو د ہرااجر اور اگر غلطی ہوگئی تو بھی ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے ۔ یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ فضل وکمال میں ایک جیسے نہیں۔

ان میں سب سے افضل خلفائے راشدین پھر باقی عشرۂ مبشرہ ، اس کے بعد بدری صحابہ پھر بیعت رضواں میں شرکت کرنے والے صحابہ، اس کے بعد جو فتح مکہ سے قبل ایمان لائے، اور عمومی طور پر مہاجرین زیادہ قربانیوں کی وجہ سے انصار سے افضل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں مہاجرین کا ذکر ہمیشہ انصار سے پہلے ہوا ہے لیکن صحبت کے فضل میں سب یکساں وبرابرہیں اور سب جنت کے مستحق ہیں۔ جس طرح قرآن سورۃ ا لفاتحہ سے لیکر سورۃ الناس تک اللہ کا کلام ہے، کلام ہونے کی حیثیت سے ان میں کوئی فرق نہیں لیکن ان میں بعض سورتوں اور آیتوں کو ایک دوسرے پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کی دوسری مثال انبیائے کرام اور رسلِ عظام علیہم السلام سے دیجاسکتی ہے کہ سارے انبیائے کرام ورسل علیہم السلام نبوت ورسالت میں ایک مقام رکھتے ہیں لیکن وہ مراتب میں آپس میں متفاوت ہیں۔ رسولوں میں اولوالعزم سب سے افضل ہیں پھر ان میں ہمارے نبی کریم سب سے افضل اور سب کے سردار ہیں۔ یہی مثال صحابہ کرامؓ کی ہے۔ صحابہ کرام کے بارے میں جس طرح اللہ ان سے راضی ہوا، اللہ کے بندوں کو بھی ان سے راضی ہوجانا چاہئے۔

شیئر: