Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چینلز سے پکوان سیکھ کر ہر کوئی شیف بن گیا، ڈاکٹر ثناء

ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ملک میں رہیں یا بیرون ملک، تعلیمی مدارج خوش اسلوبی سے طے کرتے چلے جانا چاہئے

 

زینت شکیل ۔ جدہ

اس ہفتے ہماری ملاقات ہو اکے دوش پر ڈاکٹر سلمان طور اور محترمہ ڈاکٹر ثناء سلمان سے ہوئی۔ سویڈن کے یونیورسٹی کیمپس میں مقیم اس جوڑے نے پاکستان کا نام روشن کیا۔ اپنی محنت اور مالکِ حقیقی کی مدد پر یقین رکھا اور امید کے ساتھ آگے کا سفر جاری رکھا۔

٭ ڈاکٹر صاحبہ سے پہلا سوال ہم نے یہی کیا کہ آپکا ایڈمیشن کیسے ہوا ؟ انہوں نے کہا کہ

٭٭ میں نے جب روالپنڈی میڈیکل کالج سے میڈیسن کا کورس مکمل کیا تو بیرون ملک جا کر اسپیشلائزیشن کا ارادہ کیا۔ میں نے ایک ریسرچ سینٹر میں جاب شروع کردی ۔ پاکستان میں ہماری پڑھائی بہت بہترین ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے جہاں جاب کی، وہاں مجھے بہت پذیرائی ملی اور جب ایک خاص بیماری کے علاج کے لئے ہماری ٹیم نے ایک بہترین طریقۂ علاج دریافت کیا تو اس کے بعد ریسرچ سینٹر والوں نے خود مجھے یہ آفر کی کہ آپ ہمارے خرچے پر آگے پڑھیں۔ اس طرح میرا ایڈمیشن پوسٹ گریجویشن میں خود بخود ہوگیا۔

٭اب آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟

٭٭ محترمہ ثناء نے بتایا کہ ہم چونکہ کئی سال سے یہاں مقیم ہیں تو یہاں کے مقامی اسکول میں ہی ہمارے دونوں بچوں کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ میں ریسرچ سینٹر میں جاب کرتی ہوں مگر بہت مختصر دورانیہ کیلئے ۔ ادارے کی طرف سے مختلف جگہوں پر سیمینارز میں لیکچرز دیتی ہوں۔ نئی ریسرچ پر مقالہ پڑھتی ہوں۔ پڑھائی کے ساتھ ریسرچ ورک میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور دنیا بھر میں ڈاکٹرز کیلئے ہر نئی بیماری اور اس کے علاج کی معلومات رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح نئی نئی بیماریوں کا سد باب ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لئے کافی مصروفیت میں وقت گزرتا ہے۔

٭نئے طلباء و طالبات کیلئے کیا کہیں گی؟

٭٭ہمارے ملک کی پڑھائی بھی اچھی ہے تاہم بیرون ملک سے بھی ڈگری حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ملک میں رہیں یا بیرون ملک، تعلیمی مدارج خوش اسلوبی سے طے کرتے چلے جانا چاہئے۔ہم نے دیکھا ہے کہ جن طالب علموں نے تعلیمی سلسلہ موقوف کردیایا ادھورا چھوڑ دیا، انہیں بہت دشواری ہوئی ۔ اچھی جاب اور بہترین پوزیشن کیلئے تعلیم بہت اہمیت رکھتی ہے۔

٭آپ کیا کیا پکانا جانتی ہیں ؟

٭٭ ڈاکٹر ثناء نے ہنستے ہوئے کہا اب تو چینلوں سے سیکھ کر ہر کوئی بہترین شیف بن چکا ہے۔ ویسے تو پکانے کا وقت نہیں ہوتا، ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھ کر روٹین بنتی ہے ۔ کسی دن وقت ملا تو خوب پراٹھے، آلو قیمہ اور سوجی کے حلوے کا ناشتہ بن جاتا ہے اور کبھی کئی دنوں تک پاسٹاوغیرہ سے بات آگے نہیں بڑھتی۔ باہر کا کھانا بہت سوچ بچار کے بعد آرڈر کیا جاتا ہے لیکن اب کئی ریسٹورنٹ ایسے کھل گئے ہیں جہاں حلال کھانے ملتے ہیں۔ مسلمان طلباء و طالبات کیلئے آسانی ہوگئی ہے۔

٭کیا سویڈن میں یونیورسٹی ٹیوشن فیس نہیں لیتی؟

٭٭ اس سلسلے میں معلومات کرلی جائے تو بہتر ہے لیکن اگر فیس نہ بھی ہوتو رہائش و خوراک کا خرچہ اپنے ملک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

٭آپ نے میڈیسن کا شعبہ کیسے چنا، کوئی آئیڈل وغیرہ تھی کہ مجھے ان کی طرح ڈاکٹر بننا ہے؟

٭٭امی جان اور ابو جان دونوں ہی سائنس کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی شعبے میں جاب بھی کررہے ہیں تو ہمیں بھی موقع ملا کہ ہم سائنس کے ہی مضامین لیںلیکن چھوٹی بہنوں نے برنس ایڈمنسٹریشن میں بھی ڈگری حاصل کی۔

٭پسندیدہ ادیب اور شعراء کون ہیں؟

٭٭ڈاکٹر ثناء نے پہلے طارق عزیز کے پروگرام کا ذکر کیا جو ’’نیلام گھر‘‘ کے نام سے مسلسل نشر ہونے والا پاکستان ٹیلی وژن کا سب سے طویل پروگرام تھا۔ اس کی بندش نے بہت سارے لوگوں کو ایک مفید ذہنی مسابقت سے دور کردیا۔ اس طرح کے دوسرے پروگرام شروع کئے گئے لیکن ان میں کوئی پروگرام نیلام گھر جیسا پر وقار نہیں ہوسکا۔ سرسید احمد خان کے مضامین بہت پسند رہے اور علامہ اقبال کے اشعار یاد بھی رہتے ہیں اور پسند بھی آتے ہیں ۔ یہ تو سمجھیں ہماری خوش نصیبی ہے کہ علامہ اقبال جیسا مفکر ہمیں ملا ۔میری پسندیدہ نظم ’’دعا‘‘ ہے جو علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ میں بیٹھ کر لکھی ۔وہ 1933ء میں تیسری گول میز کانفرنس کیلئے یورپ گئے تھے اور فیصلہ کرکے گئے تھے کہ وہ ہسپانیہ ضرور جائیںگے ۔ بال ِ جبریل کی متعدد نظمیں اسی سفر کی یاد گارہیں

٭٭ ڈاکٹر ثنا ء کے شوہر ڈاکٹرسلمان طور نے بتایا کہ وہ سویڈن میں ایک طالب علم کی حیثیت سے آئے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے بعد اسی یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے تعینات ہوئے۔ ا نہیں اس کی بے حد خوشی ہے کہ جہاں خود پڑھا اب وہیں اس جگہ اسی ماحول میں اپنے آئندہ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ ہمارے دونوں بچے فارس طور اور انیس طور دونوں چونکہ یہی رہتے ہیں اس لئے فارس زیادہ رشتہ داروں میں گھلتے ملتے نہیں ۔بچوں کو نانو جان کے ہاتھ کے کھانے پسند آتے ہیں جو وہ چھٹیوں میں انکے لئے بناتی ہیں۔ فون پر باتیں کرتے ہیں اور خیرخیریت پوچھتے ہیں۔ سلمان طورنے کہا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہیں چاہئے کہ پڑھیں اور آگے بڑھیں۔ باہر یہ سوچ کر نہ آئیں کہ پڑھنا نہیں ہوگا بلکہ بغیر پڑھے جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے بچنے کا یہی آسان حل ہے کہ دل لگا کر دو سال پڑھ لیا جائے۔ طلباء کو چاہئے کہ وہ اپنے تعلیمی اہداف مقرر کریں اور پھران کو پورا کریں۔ ڈاکٹر سلمان طور نے اہلیہ کے بارے میں کہا کہ ثناء بہت محنتی ہیں ، امید اور کوشش کے سبب آگے بڑھتی رہتی ہیں۔ خوب محنت سے تحقیقی مقالہ تیار کرتی ہیں اور انکے لیکچرز سننے کیلئے اسٹوڈنٹس بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، وہ اپنی تحقیقی ٹیم کے ساتھ جس بیماری کے علاج سے متعلق دوا دریافت کرنے میں منہمک تھیں، اب وہ جلد ہی لانچ کی جائے گی۔

٭ڈاکٹر ثناء کی دوبہنیں بھی ڈاکٹر ہیں۔ وہ کیا ایجاد کرنے کا اردہ رکھتی ہیں؟اس سوال پر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا:

٭٭ اسٹوڈنٹس کو پڑھانا چاہتی ہیں اور خود بھی آگے پڑھنا چاہتی ہیں۔ سب سے چھوٹی بہن کو اکنامکس میں دلچسپی ہے ، اس کا بس چلے تو ڈاکٹر یونس کی طرح بینکنگ سسٹم متعارف کرائے۔

شیئر: