ہندوستان جو امریکہ کو چلا رہا ہے!
ترکی الدخیل ۔ الشرق الاوسط
چین اگر ایسی گتھی بن چکا ہے جسے دنیا بھر کے لوگ دیکھ اور سن رہے ہیں ،سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کس کا نمبر ہے۔ کیا مشرق کا معجزاتی کردار ہمیشہ کیلئے لد چکا ہے جس نے پوری دنیا کو روشنی دی اور سمندر پار آباد اقوام و ممالک کو اپنے سحرمیں مبتلا کیا۔
بچپن میں ہمارا واسطہ ہندوستانیوں کی دکانوں سے پڑتا رہا۔ وہاں دکان پر خامو ش پرسکون انسان بیٹھا ہوتا۔ اعدادوشمار کی زبان میں ماہر ہوتا۔ برسہا برس گزر جاتے مگر اس کی عربی پہلے جیسی تھی ویسی ہی رہتی۔ صارفین اس کی مہارتوں میں ہونے والے اضافے کو کبھی محسوس نہ کرتا البتہ یہ دکاندار یہ بات اچھی طرح سے جانتا تھا کہ تھوک کے تاجروں سے کس طرح اور کیا بات چیت کرے۔ اپنی دکان میں معمولی چیزو ںکو کس طرح آراستہ کرکے رکھے۔ سالانہ چھٹی کا وقت آتا تو ہندوستانی دکاندار اپنے کسی دوست کو اپنی جگہ پر بٹھا جاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ دکاندار واپس ہی نہ آتا۔ محلے کی دکان چلتی رہتی۔
مجھے اور میرے ہمعصر سعودیوں کو ہندوستان کی افسانوی فلمیں بھی اچھی طرح یاد ہیں۔ ہم ہندوستانی ڈرامے بیحد شوق سے دیکھتے تھے۔
ہندوستانی کابینہ نے ستمبر 2018ءکے شروع میں مغربی ممالک کیساتھ ایک معاہدے کی توثیق کی۔ اسکا تعلق ہندوستانی کارکن فراہم کرنے سے نہیں بلکہ فضائی نقل و حمل میں قربت پیدا کرنے اور سیاحت سے تھا۔ دراصل مغربی دنیا چینی سیاحوں کو جو دنیا بھر کے سیاحوں کا ایک چوتھائی ہیں، ویزے سے استثنیٰ دے چکے ہے۔ اب مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے مالدار بھی مغربی ممالک کا رخ کریںجن کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
تھامس فریڈمین کو یقین ہے کہ ہندوستانیوں نے امریکہ کی اعلیٰ ترین ملازمتیں 4اسباب کی بنیاد پر حاصل کی ہیں۔ صحیح وقت کا انتخاب ،محنت، مشقت، خداداد صلاحیت اور خوش قسمتی میں فریڈمین کے اس نظریہ سے اتفاق نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان نے اچانک ترقی نہیں کی۔ 4 عشروںسے ہندوستانی محنت مشقت کررہے ہیں اور اپنے یہاں تعلیم کا معیار بلند کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ محنت تو چینی بھی کرتے ہیں لیکن ہندوستانی عملے پیہم کے قائل ہیں۔ خداداد صلاحیت بغیر تعلیم و رہنمائی کے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جہاں تک قسمت کا تعلق ہے تو یہ بھی فریڈ مین کا ایک مفروضہ ہے۔ ہندوستانی پروگرامر جنہیں فریڈمین نے 2004ءمیں ثانوی ٹھیکیداروں کا نام دیا تھا، اب وہ امریکی کمپیوٹر پروگرامروں کے کام مکمل کرنے والے ماہر مانے جارہے ہیں جس کے کام کا آغاز امریکی وادی سلیکون میں کرتے ہیں، ای میل کے ذریعے ہندوستان بھیج دیتے ہیں۔ صبح اٹھتے ہیں تو امریکیوں کو اپنا ناقص کا م مکمل شکل میں مل جاتا ہے۔ لاگت بھی کم ہوتی ہے، پیداوار بھی عمدہ ہوتی ہے اور بروقت کام بھی ہوجاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭