Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاض، نئی دہلی اور مضبوط اسٹراٹیجک تعاون

امیل امین ۔ الشرق الاوسط
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ ہند نے ریاض اور نئی دہلی کے درمیان 8عشرے پرانے مضبوط تعلقات کی تاجپوشی کردی۔ ماضی میں ایک سے زیادہ سطح پر دونوں ملک ایک دوسرے کے شریک رہے۔ مستقبل قریب میں موثر تعاون کے نئے افق کھلنے لگے۔
ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے ایشیائی سفر کی دوسری منزل کے طور پر ہندوستان کا انتخاب کیا۔ یہ ملک تغیر پذیر بین الاقوامی جیو پولیٹیکل کی سطح پر نہایت اہم ہے۔ ہندوستان اب دنیا کی عروج پذیر اہم اقتصادی طاقت بن چکا ہے۔ یہ ترقی یافتہ بین الاقوامی توازن کا ا ہم حصہ بنا ہوا ہے۔ 
سعودی عرب اور ہندوستان کے تعلقات پر گہری نظررکھنے والے جانتے ہیں کہ برصغیر اور خلیجی ممالک کے درمیان مشترکہ گہرا تعاون پایا جاتا ہے۔ مملکت خلیجی ممالک کا حصہ ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی کارکنو ںنے خلیج کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اہم اور موثر کردارادا کیا۔ ہندوستان نے اپنے شہریوں کی جانب سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ سے خوب فائدہ اٹھایا۔ 
ہندوستان چونکہ اہم اقتصادی طاقت ہے،آبادی کے لحاظ سے بھی بڑا ملک ہے اسی وجہ سے اس کی امنگوں کے افق علاقائی دائرے سے نکل کر سمندر پار کے خطوں کی طرف بھی پھیل رہے ہیں۔90 فیصد سے زیادہ ہندوستانی سمجھتے ہیں کہ انکے ملک کو بحر الہند میں سب سے طاقتور بحری بیڑا تیار کرنا ہوگا۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ ہندوستان خطے کے ممالک کے ساتھ تعاون کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے کافی کچھ کرسکتا ہے۔
سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان مفید تعاون کے بہت سارے شعبے ہیں۔ ہندوستان کے فیصلہ ساز فی الوقت خلیج عرب کے علاقے میں توانائی کے سرچشموں میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ خطہ عدم استحکام سے دوچار ہے۔ یہاں کسی بھی وقت عسکری تصادم اور لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوسکتے ہیں۔ بعض علاقائی طاقتیں خطے کے استحکام کو خطرات پیدا کررہی ہیں لہذا ہندوستان کی نظر ہمسایوں کے منظرنامے پر بھی رکھی جانی ضروری ہے۔
سعودی ولی عہد کا دورہ ہند سیاسی اور اسٹراٹیجک حوالے سے بیحد اہم ہے۔ ہندوستان متعدد غیر عرب ممالک سے تعلقات ہموار کئے ہوئے ہے۔ ان میں سے بعض فریق ایسے ہیں جو کم از کم عربوں کے حوالے سے نیک نیت نہیں۔ نسلی اور جغرافیائی تناظر میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات گہرے بنانے سے عربوں کے اسٹراٹیجک امو رپر خوشگوار اثرات پڑ سکتے ہیں۔
ہندوستان کو اس بات کا ا دراک ہے کہ نئی دنیا کثیر قطبی ہے۔ اس کی صبح مشرق وسطیٰ او رخلیج عرب سے پھوٹ رہی ہے۔ طویل زمانے تک اس علاقے میں امریکہ کا کنٹرول سمٹنے لگا ہے۔یہاں کی جغرافیائی اور سیاسی فضا بڑی حد تک ہندوستان نواز بنی ہوئی ہے۔
ہندوستان کو بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ اور خلیج عرب میں قدم رکھنے کیلئے کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے اسلامی دنیا میں سعودی عرب کے اثر و نفوذ کا بھی علم ہے۔ دریں اثناءروس اور چین تیل کے سرچشموں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
ہندوستان اور مملکت کے درمیان تعاون کے شعبے بے شمار ہیں۔ ہندوستان اپنی 20فیصد تیل ضروریات مملکت سے حاصل کررہا ہے۔ سعودی آرامکو اور اماراتی کمپنی ادنوک کے درمیان تعاون بھی موجود ہے ۔ رتنا گیری آئل ریفائنری 44ارب ڈالر لاگت کا مشترکہ منصوبہ اسکی روشن مثال ہے۔ خام تیل اور ابتدائی شکل میں اس کے استعمال سے مختلف صنعتیں جنم لیں گی۔ 
ہندوستان اور سعودی عرب 2اور شعبوں میں مفید تعاون کرسکتے ہیں۔ ایک تو کمپیوٹر اور پروگرامنگ کی دنیا میں ہندوستانی اپنی دھاک جمائے ہوئے ہیں۔ دوم اسلحہ سازی میں بھی ہندوستان کافی آگے بڑھ چکا ہے۔ 
ہندوستان سعودی ولی عہد کے اصلاحاتی مشن کی پرزو رحمایت کررہا ہے۔ اسی طرح پورے خطے میں مذہبی اور سیاسی اعتدال کے فروغ سے متعلق بھی ان کی مہم کا ساتھ دے رہا ہے۔
ہر حال میں سعودی عرب پاکستان میں بھی اپنا تاریخی اثر و نفوذ رکھتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے سعودی عرب شفاف ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ برصغیر میں امن و امان کو یقینی بنانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دور کراسکتا ہے۔ اس کے مثبت اثرات خود خلیج عرب پر بھی پڑیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
 

شیئر: