وسعت اللہ خان
چین پاکستان اکنامک کاریڈور کا مجوزہ نقشہ دیکھا جائے تو 3 روٹس نظر آتے ہیں۔مغربی کاریڈور ، وسطی کاریڈور اور مشرقی کاریڈور۔ان میں سب سے زیادہ زیرِ بحث فی الحال 2 کاریڈورز ہیں۔مغربی کاریڈور جو بلوچستان اور جنوبی خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں سے گزرے گا ۔ مشرقی کاریڈور سندھ اور پنجاب کے نسبتا گنجان زرعی و صنعتی علاقوں سے گزرے گا۔
مگر لگ یہ رہا ہے کہ پہلے مشرقی کاریڈور فعال ہوگا۔ اس کاریڈور سے منسلک صنعتی منصوبے بھی پہلے مکمل ہوں گے کیونکہ جن علاقوں سے یہ کاریڈور گزر رہا ہے وہاں پہلے سے تربیت یافتہ افرادی قوت بھی موجود ہے ۔اس ترجیح میں ووٹ بینک کو خوش رکھنا بھی شامل ہے تاکہ اقتصادی کاریڈور سے جنم لینے والا پولٹیکل کاریڈور پاور کاریڈور تک کا راستہ طویل المعیاد کھلا رکھ سکے۔مغربی کاریڈور کے وکیل اگرچہ اپنے دلائل میں وفاق کے روایتی سوتیلے پن اور بڑے بھائی کے چھوٹے پن کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔مشرقی پاکستان کے حقوق غصب ہونے کے نتائج بھی یاد دلاتے ہیں۔وہ پسماندگی کے تناسبی اعداد و شمار بھی دکھاتے ہیں مگر یہ بھی چاہتے ہیں کہ مغربی کاریڈور اگر کھلے تو اس کے نتیجے میں سرمایہ کاری سے مقامی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے اور نئے منصوبوں کے ساتھ بیرونی علاقوں سے جو آباد کار آتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو تاکہ مقامی آبادی اقلیت میں بدل کر مزید نہ دب جائے۔دنیا میں کوئی بھی بڑا اقتصادی منصوبہ سماج سیوا کے لئے نہیں بنایا جاتا۔ہر منصوبے کے پیچھے منافع اور اسٹرٹیجک ضروریات ہوتی ہیں۔یہ الگ بات کہ جب کوئی منصوبہ شروع ہوتا ہے تو اس کے ذیلی منفی و مثبت اثرات کے سبب لامحالہ سماجی ڈھانچہ بھی بدلتا ہے ۔مثلا انیسویں صدی کے امریکہ میں جب ریل کی پٹریاں بچھنے لگیں تو ان کا مقصد مقامی ریڈ انڈینز کا مستقبل سنوارنا یا ہزاروں کی تعداد میں جہازوں سے اترنے والے یورپی کنگلوں کی فوری فلاح نہیں تھا بلکہ جنوبی ریاستوں میں کالے غلاموں کے زریعے پیدا ہونے والی کپاس اور شمالی ریاستوں کی صنعتی مصنوعات کو اندرونِ و بیرونِ ملک پھیلانا اور کانکنی اور نئی زمینوں کو زیرِ استعمال لانے کیلئے آباد کاروں کی مشرق سے مغرب کی جانب ہجرت کی حوصلہ افزائی تھا۔نتیجتاً زراعت کے بعد ریلوے امریکیوں کے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ۔ٹرانس کانٹی نینٹل ریل روڈ اور جنوبی و شمالی ریلوے نیٹ ورکس کا جال بچھنے سے ویرانوں میں نئے نئے قصبے اور شہر ابھرنے لگے۔یوں جس کاروباری سرگرمی نے بڑے پیمانے پر جنم لیا اس نے عظیم امریکہ کو جنم دیا۔چونکہ وسائل ، رقبہ اور مواقع بے انتہا اور آبادی اس اعتبار سے کم تھی لہٰذا نہ احساسِ محرومی کا رونا تھا نہ فلاں قومیت کے آباد کاروں پر فلاں قومیت کے آباد کاروں کی ترجیح کا واویلا۔اکنامک کاریڈور کا دوسرا ماڈل جو ہمارے مطلب کا ہے اور جس سے ہم آشنا بھی ہیں وہ ہے پنجاب کا کالونائزیشن ماڈل ۔انیسویں صدی کا پنجاب 5دریاں کی سرزمین ہونے کے باوجود نہری نظام نہ ہونے کے سبب زیادہ تر بارانی تھا۔یہی وجہ ہے کہ درہِ خیبر پار کر کے جو بھی آتا وہ راستے میں پڑنے والے پنجاب کو لوٹ لاٹ کر سیدھا دلی کا رخ کرتا ۔جب شمالی ہندوستان کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا اور داخلی و خارجی مہمات کے لئے برطانوی ہند کی فوج میں توسیع ہونے لگی تو بڑھتی آبادی کی روٹی پوری کرنے (تاکہ بھرے پیٹ ایک اور اٹھارہ سو ستاون نہ ہو سکے) اور دیسی سپاہیوں کو ریٹائرمنٹ پر مطمئن کرنے کے لئے انگریزوں نے دریائوں سے نہریں نکال کر مغربی پنجاب کے وسیع بارانی علاقے آباد کرنے کا عظیم الشان منصوبہ شروع کیا۔یہ ایسا سی پیک اریگیشن کاریڈور تھا جس نے نہ صرف انگریزوں کے اسٹرٹیجک مقاصد پورے کئے بلکہ پنجاب کی قسمت بھی بدل دی۔1896سے 1930 کی دہائی تک نہری نظام کا جال بچھنے کے سبب سکھ ، جاٹ اور مسلمان آباد کاروں نے زرعی پیداوار کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔فیصل آباد کا انیسویں صدی کے آخر تک کوئی وجود نہ تھا۔ساندل بار میں کپاس کی پیداوار نے اسے وسطی پنجاب میں ایک خاص مقام عطا کیا اور پھر وہ ٹیکسٹائل کے دور میں داخل ہوگیا۔پاکستان بننے کے بعد یہی ماڈل سندھ میں بیراجی نظام کے ذریعے بھی اپنایا گیا مگر انگریز دور کے الاٹمنٹی انصاف کی پاسداری نہیں کی گئی۔لہٰذا پنجاب میں انگریزی آباد کاری اسکیم کی جو واہ واہ ہوئی وہ سندھ میں الاٹمنٹ کے طریقِ کار کے دوران سنائی نہیں دی۔بہت برس بعد ایک دل جلے نے تو یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان ہاتھ سے نہ نکلتا اگر وہاں الاٹمنٹ کیلئے وافر زمین ہوتی۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی کاریڈور تب تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک مقامی لوگوں کے معاشی مفادات نہ جڑے ہوئے ہوں۔پاکستان میں کئی سی پیک پہلے سے موجود ہیں جن سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔مثلا اگر آر سی ڈی کے تحت کوئٹہ زاہدان ریل نیٹ ورک 60 برس پہلے حسبِ توقع ایرانی اور ترک ریلوے سے یورپ تک جڑ جاتا تو آج جانے مغربی بلوچستان کا ترقیاتی نقشہ کیا ہوتا۔حالت یہ ہے کہ کوئٹہ تافتان ریلوے کاریڈور پر مہینے میں 2 ٹرینیں چلتی ہیں۔کوئٹہ چمن ریلوے لائن کو قندھار اور پھر وسطی ایشیا تک توسیع دی جا سکتی تھی اور اب بھی دی جا سکتی ہے۔اب تو سوویت یونین اور ضیا الحق بھی نہیں مگر یہ ریلوے لائن کہیں نہیں جا رہی۔اسی طرح پشاور لنڈی کوتل لائن براستہ جلال آباد آگے کیوں نہیں جا سکتی ۔یہ وہ کاریڈورز ہیں جو ہمیں مفت کے ورثے میں ملے اور جب ملے اس وقت افغانستان اور ایران سے تعلقات برے نہیں تھے۔مگر کاریڈورز اچھی ہمسائیگی کے بنا کس کام کے ۔