Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”دھڑام“

 
جب خواب دکھانے والے کا الو سیدھا ہوجاتا ہے تو وہ اپنی راہ لے لیتا ہے،ایسے خواب عام طور پر سیاسی رہنما عام انتخابات سے ذرا پہلے عوام کو دکھاتے ہیں تاکہ ان سے ووٹ بٹور سکیں
 
شہزاداعظم
 
تنہائی میں خموش بیٹھ کر سوچنے سے فہم و فراست، کذب و صداقت، نقل و اصل ،دانش و عقل، آگہی و ادراک، جرا¿ت و باک کے ان گنت دریچے وا ہوتے ہیںاورنظر ِ ا نسانی دنیا کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ہمیں چونکہ تنہائی بافراط میسر ہے اس لئے ہمارے ذہن میں مذکورہ دریچے ہر روز کھلتے ہیں اور ہم ا نہیں بند کرنے کی جدوجہد میں جُتے رہتے ہیں۔گزشتہ شب بھی فہم و فراست کے دریچے وا ہوئے اور خواب کے بارے میں ایسے دقائق ہمارے سامنے آئے کہ ہم انگشت بدنداں رہ گئے ۔ ان کی ”مختصر تفصیل“ آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ خواب سے متعلق یہ تحریر معمار انِ استقبال اپنی کتابِ آگہی میں سنہری الفاظ سے رقم کریں گے۔ذرا غور فرمائیے: 
”خواب ایسی دنیا ہے جس کو دیکھنے کے لئے آنکھیں بند کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات لوگ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگتے ہیں تو انہیں ذہنی عارضے کا شکار قرار دے کر دماغی ِ اصلاح کے مرکز میں جمع کرادیا جاتا ہے جہاں نفسیاتی ماہرین ان کے ”ہوش ٹھکانے“ لگانے کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔خوابوں کی ایک قسم ”سنہری“ ہوتی ہے ۔ ایسے خواب انسان عموماً خود نہیں دیکھتا بلکہ اسے دکھائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کو ”سنہرے خواب“ اس وقت دکھاتا ہے جب کسی بھی وجہ سے اُس کا ”اُلو ٹیڑھا“ ہو گیا ہو اور وہ اسے فوری سیدھا کرنا چاہتا ہو۔ اس مقصد کے لئے وہ اپنے اردگر موجود ہم نفس کو پہلے باتوں میں لگاتا ہے اور پھر اسے ”سنہرے خواب“دکھاتا ہے۔جب خواب دکھانے والے کا اُلو سیدھا ہوجاتا ہے تو وہ اپنی راہ لے لیتا ہے۔ایسے خواب عام طور پر سیاسی رہنما عام انتخابات سے ذرا پہلے عوام کو دکھاتے ہیں تاکہ ان سے ووٹ بٹور سکیں۔ہمارے وطن عزیز میں چونکہ عام انتخابات ہونے والے ہیں اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ پاکستانیوں کے لئے ”سنہرے خواب دیکھنے کا موسم“ آنے والا ہے جس میں پاکستان کے تمام شہروں، قصبوں اور دیہات میں ”سنہرے خواب “ دکھانے والوں کی ٹولیاں نمودار ہوں گی،گلی گلی ”خواب بینوں“ کے مجمعے اکٹھے کئے جائیں گے جنہیںخواب دکھانے والے اپنائیت کا یقین دلائیں گے، یہ معصوم ایک بار پھر ان کی باتوں میں آجائیں گے، انہیں ووٹ دے بیٹھیں گے اورپھر ایک ا ور مدت کے لئے چہار اطراف سے برسائے جانے والے جمہوریت کے ڈونگروں سے خود کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہو جائیں گے۔ وقت گزرتا جائے گا اور پھر ”سنہرے خواب دیکھنے کا موسم“ آپہنچے گا۔
ہمارے ہا ںکے بعض نوجوان بھی صنف مخالف کو اپنی شریک حیات بنانے کے لئے سنہرے خواب دکھاتے ہیں۔ چشم ِ نسواں اسے فوراً قبول کر لیتی ہے کیونکہ ”سونا “ ہو یا ”سنہرا پن“، یہ تو زنانہ جبلت کی کمزوری شمارہوتے ہیں۔بعض خواب ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش یہ حقیقت بن جائےں اور کبھی ختم نہ ہوں انہیں عرفِ عام میں ”بڑے خواب“ کہتے ہیں جبکہ بعض خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان سہم جاتا ہے، اس کے ہاتھوں کے تمام توتے شوتے اُڑ جاتے ہیں، اس کی سٹی گُم ہو جاتی ہے ، بولتی بند ہو جاتی ہے اور وہ خواہش کرتا ہے کہ کاش یہ حقیقت نہ ہو بلکہ خواب ہی ہواور فوراً ہی ختم ہوجائے ۔ عموماً ایسے خواب دیکھنے والا چیخیں مارنا شروع کر دیتا ہے اورپھر جب اچانک اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ خود کو بستر پر موجود پا کر سکون کا سانس لیتا ہے ۔
ہم نے گزری رات جو خواب دیکھا ،اس کے بارے میں ہمارے دل اور جان کی یعنی ” دلی اور جانی“ خواہش ہے کہ کاش یہ حقیقت بن جائے۔ ہم نے دیکھا جیسے 2033ءکا زمانہ ہے ۔ ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیںچنانچہ ہم سنہرے خواب دیکھنے کے لئے گلی محلوں میں مٹرگشت کر رہے ہیں ۔کتنے ہی دن گزر گئے۔ ہر روز ہم ”سنہرے خواب “ دکھانے والے سیاسی رہنماو ں کی تلاش میں صبح کو گھر سے نکلتے ہیںاور تھک ہار کر شام کو ناکام گھر لوٹتے ہیں۔مجال ہے جو کوئی ”سنہرے خواب“ دکھانے والا مل جائے ۔ کیا سیاسی رہنماوں کا قحط پڑ گیا ہے ؟اسی جز بُز میں ہم نے گھر میں چلانا شروع کر دیا۔ ہماری بیگم صاحبہ باورچی خانے سے دوڑتی ہوئی آئیں اور پوچھا کہ کیاہوا کیوں شور مچا رکھا ہے ۔ ہم نے کہا کہ ہماراوہ نالائق سکڑپوتا کہاں ہے جو ہمیشہ اسکول سے بھاگتا رہا۔ جواب ملا کہ وہ خوانچہ فروشی کا لائسنس حاصل کرنے کیلئے ”انٹری ٹیسٹ“ دینے گیا ہے ۔ ہم نے کہا کہ وہ پڑ پوتی کہاں ہے جو ہمیشہ ہی امتحانات میں اول آتی رہی؟ جواب ملا کہ وہ ٹیکنالوجی کمپنی میں ملازمت کے لئے انٹری ٹیسٹ دینے گئی ہے ۔ہم نے کہا کہ بہو بھی نظر نہیں آ رہی، اُسے بلا دیں۔ جواب ملا کہ وہ چونکہ اپنے بیٹے کیلئے بہو لانے کی خواہشمند ہے چنانچہ ساس بننے کا انٹری ٹیسٹ دینے گئی ہے۔یہ صورتِ حالات دیکھ کر ہماری کیفیت اُس شخص کی سی ہو گئی جس کا کمہار پر کوئی بس نہیں چل پا رہا تھا چنانچہ گدھی کے کان اینٹھنے شروع کر دیئے ۔ ہم نے اپنی ”پوت بہو“ کو بلا یا کہ آخر یہ سب کیا ماجرا ہے ؟اس نے اپنے صاحبزادے سے کہا کہ بیٹا! جاو ذرادیکھو آپ کے کھپٹ سکڑ ابا کیا کہہ رہے ہیں۔ اس نے ہماری بات سن کر ہمیں سمجھایا کہ ”سکڑ ابا! پریشان نہ ہوں، کیا کریں آج کل ”انٹری ٹیسٹ“ کا دور دورہ ہے ۔ لڑکا شادی کرنے لگے تو دولہا پن کا ا نٹری ٹیسٹ ،لڑکی شادی کرنے لگے تو دلہنیت کا انٹری ٹیسٹ، طلاق دینی ہو تو انٹری ٹیسٹ، خلع لینا ہو تو انٹری ٹیسٹ، بیوٹی پارلر کھولنا ہو تو انٹری ٹیسٹ حد یہ کہ سنگھار کرانا ہو تو بھی انٹری ٹیسٹ۔ انتہا تو یہ ہے کہ اگر آپ نے ڈاکہ مارنا ہو، چوری کرنی ہو، گاڑی، طلائی زیور، ٹیبلٹ یا موبائل چھیننا ہو، اس کے لئے بھی انٹری ٹیسٹ، کسی سے جھگڑنا ہو تو بھی انٹری ٹیسٹ۔
ہم نے سکڑ بیٹے سے کہا کہ ملک میں عام انتخابات کب ہوں گے؟ اس نے کہا کہ سکڑ ابو!ویسے تو انتخابات 5مئی کو طے تھے چنانچہ تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں، رہنماوں اور انتخابات کے اُمید واروںسے ”انتخابات 2033ءکیلئے انٹری ٹیسٹ“ دینے کےلئے کہا گیا۔ سب نے انٹری ٹیسٹ میں شرکت کی مگر افسوس صدہزار افسوس کہ کوئی شخصیت بھی انٹری ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔اب سنا ہے کہ خصوصی آرڈیننس جاری کیاجانے والا ہے جس میںکہا جائے گا کہ انٹری ٹیسٹ کے لئے آئین کے آرٹیکل 62اور63 پر پورا اترنے سے قاصر رہنے والے اُمیدواران بھی انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکیں گے۔یہ سن کر ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا ۔ ہمارے دل سے دعا نکلی کہ کاش وہ آرڈیننس کبھی نہ آئے اور ہم جو کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں وہ خواب نہ ہو اور اگر یہ خواب ہی ہے تو کبھی ختم نہ ہو۔ اتنے میں ہماری سکڑ پوتی چلائی کہ سکڑ ابو! آرڈیننس جاری ہوگیا۔ یہ سنتے ہی ہم حواس باختہ ہوگئے اور منہ سے”عالمگیر چیخ“کے انداز میں”نہیں، نہیں، نہیں“ کے الفاظ برآمد ہوئے، کانوں نے ”دھڑام“ کی آواز سنی،سارا خواب چکناچور ہو گیا، آنکھ کھل گئی۔ ہمارا ہمسایہ بھاگا ہوا آیا، اس نے ہمیں فرش سے واپس پلنگ پر لیٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا”بڑے صاب!ہمیں تو پتا نہیں ہم کب ٹھیک ہوں گے آپ ہی بتا دیجئے کہ آپ کی زندگی میں ابھی کتنے ”دھڑام “ اور ہیں؟
٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: