Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حبیب جالب

جاوید اقبال
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی ادیب، کوئی شاعر اتنا بڑا سوال نہیں چھوڑ گیا جو حبیب جالب کا اکیلا وجود چھوڑ گیا ہے۔ انتہائی سادہ سوال ہے اگر 60 کی دہائی کے وسط میں حبیب جالب ایک گھٹن زدہ معاشرے میں سے اپنی صدا بلند نہ کرتا تو کیا محترمہ فاطمہ جناح اور بعد کے برسوں میں ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تحاریک قوت اور سرعت سے ابھر سکتیں جنہوں نے ایوب خان کے قدم اکھاڑے؟ بلاشبہ جواب نہیں میں ہے۔ 12 مارچ کو اس شاعر انقلاب کی 26 ویں برسی لاہور میں سکوت میں گزری۔ صرف الحمرا میں ایک مختصر اجتماع رکھا گیا جہاں چند ایک تقاریر ہوئیں اور کلام شاعر پڑھا گیا۔ اگلی برسی تک کیلئے چھٹکارا!!
اور اس دن وہ ایام میری نظروں کے سامنے پھرتے رہے جب ایوب خان کے قوم پر نازل کیے گئے جبری سکوت میں جالب کی شکایت گونجی تھی۔
بیس روپے من آنا
اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر، سہگل، آدم جی
بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
ملک کے دشمن کہلاتے ہیں
جب ہم کرتے ہیں فریاد
صدر ایوب زندہ باد
شاہ وقت سے اس مجنون شاعر نے پرخاش مول لے لی تھی چنانچہ اس کی زبان بندی کے احکامات کا اجراء ہوگیا۔ تب اس کی نظم ’’دستور‘‘ ملک میں گونجی اور زبان زد عام ہوگئی۔
دیپ جس کا محلات میں ہی جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
 حبیب جالب ایوب دور میں پولیس فائرنگ سے طالب علم کی ہلاکت پر فاطمہ جناح کے بیان پر بھی بولے کہ
بچوں پر چلی گولی
 ماں دیکھ کے یہ بولی
یہ دل کے مرے ٹکڑے
 یوں روئیں مرے ہوتے
میں دور کھڑی دیکھوں
یہ مجھ سے نہیں ہوگا
یہ چھٹی دہائی کے آخری برسوں کی بات ہے۔ تب ذوالفقار علی بھٹو کا ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ عوام الناس کے دلوں پر ہاتھ ڈال چکا تھا۔ جلسہ گاہوں میں لاکھوں کا ہجوم امڈ آتا۔ جالب کی سریلی آواز اجتماع کی جان ہوتی۔ جب ان کا کلام جلسہ گاہوں میں چنگاریاں بھرنے لگا تو ایوب خان نے پنجاب کے گورنر ملک امیر محمد خان کو اشارہ کیا کہ انہیں گرفتار کیا جائے۔ باقی کا احوال الطاف گوہر اپنی خودنوشت ’’جنوں کی حکایت‘‘ میں یوں بیان کرتے ہیں۔
’’خبر ملی کہ حبیب جالب کو قتل کی سازش میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس وقت خورشید احمد وزیر قانون تھے۔ وہ میرے ہم جماعت رہ چکے تھے اور ہمیشہ بڑی بے تکلفی سے پیش آتے تھے۔ ہم ایوب خان صاحب کے ساتھ جہاز میں اسلام آباد سے لاہور آرہے تھے۔ خورشید احمد نے کہا ’’تمہارا دوست پکڑا گیا ہے۔ صدر صاحب سے بات کرو۔‘‘ میں صدر صاحب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ لاہور کے ادبی حلقوں میں حبیب جالب کی گرفتاری کی وجہ سے بڑی تشویش ہے۔‘‘ انہوں نے مجھے بڑا رسمی اور روکھا سا جواب دیا کہ یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے۔ لاہور پہنچتے ہی میں نواب کالا باغ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے حبیب جالب کا ذکر کیا تو نواب صاحب بولے ’’بڑا بدقماش آدمی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ آپ کا دوست ہے مگر بدزبانی کی بھی حد ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا ’’قبلہ معاملہ حکومت کی ساکھ کا ہے۔ پولیس نے اس کے خلاف ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ حبیب جالب ایک تھیلے میں شراب کی بھری بوتل اور پستول لے کر مال روڈ پر ایک شخص کو قتل کرنے جارہا تھا۔ سارا لاہور ہنس رہا ہے۔ شراب کی بوتل اگر بھری ہوئی تھی تو جالب کہیں بیٹھا ہوتا، اسے لے کر مال روڈ پر نہ پھررہا ہوتا۔‘‘ نواب صاحب بھانپ گئے کہ پولیس سے چوک ہوگئی ہے اور یوں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ حبیب جالب کے خوابوں کی حکومت پاکستان میں کبھی قائم نہ ہوسکی۔ ایوب خان کے خلاف لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور مثالی ہوگا لیکن بہت جلد اسلامی مساوات کا نعرہ لگانے والے راہنما سے بھی اس کا دل بھر گیا۔
جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں
میں ان کا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں
جنرل ضیاء الحق کے بارے میں بھی حبیب جالب کے قلم کی کاٹ بڑی گہری تھی۔
ظلمت کو ضیاع صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کر گس کو ہما کیا لکھنا
ایک حشر بپا ہے گھر میں، دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
ایک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
جالب ہر حکمران کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا لیکن ہر عہد کے عوام کی آنکھوں کا تارا رہا۔ عیش و عشرت کی ساری پیشکشیں ٹھکراتا رہا۔ اکثر جیل میں بسر کی۔ درویشی کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔
 
مزید پڑھیں:- - -  -نان اسٹیٹ ایکٹرز کیخلاف کارروائی

شیئر: