Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی طاقت سے وفا کی آس و امید

پاکستان کا محل وقوع امریکہ کو ہم سے دور اور لاتعلق بھی رہنے نہیں دیتا، کسی نہ کسی طرح ہم سے جڑا رہنا اسکی مجبوری ہے
ڈاکٹر منصور نورانی

اِسے ہماری مجبوری کہئے یاہماری سادگی اور معصومیت کہ ہم 70سالوں سے صرف ایک ایسی عالمی طاقت سے وفا کی آس و اُمید لگائے بیٹھے ہیںجس نے ہمیشہ ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ اپنا مطلب نکل جانے کے بعد جس نے ہم سے یکسر آنکھیں پھیر لیں۔خان لیاقت علی خان کے دور سے لیکر آج تک ہمارا ہر حکمراں صرف اُسی سے بہتر تعلقات کے حصول میں سرگرداں رہا ہے اوراِسی کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتا آیا ہے۔جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اُس کے اور ہمارے بیچ تعلقات میں بہتری اور کشیدگی کا انحصار صرف اورصرف اُسکی مرضی اورمنشاء سے وابستہ ہے۔اُس سے تعلقات بہتر بنانے اور بگاڑنے میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔اُس کی جب مرضی ہوتی ہے وہ اپنے مفادات کے تحت ہم پر محبتیں اور نوازشیں نچھاور کرنا شروع کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کرکے ہمیں آنکھیں دکھانا شروع کردیتا ہے۔اول تو اُسے ہمارا بحیثیت ایک مسلم قوم اور ایک نیوکلیئر پاور ہونا ہی ایک آنکھ نہیں بھاتامگر جغرافیائی اعتبار سے اِس اہم خطہ میں ہمارا محل وقوع اُسے ہم سے دور اور لاتعلق بھی رہنے نہیں دیتا۔اُس کی مجبوری ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ہم سے جڑا رہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہم سے انتہائی نفرت اور ناپسندیدگی کے باوجود کچھ نہ کچھ تعلق جوڑے رکھنا چاہتا ہے اور اِسی تعلق کو استعمال کرکے وہ ہم سے اپنے بہت سے کام بھی نکلواتا رہتا ہے اور ادھر ہم ہیں کہ اُس کی تمام چالوں اور سازشوں کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہر بار اُس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 11 سال تک مسلسل وہ اُسکی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ سوویت یونین کے خلاف اُس کی جنگ میں استعمال ہوتے رہے لیکن بالآخرمطلب نکل جانے کے بعد اُس نے اُن کے ساتھ کیاسلوک کیا یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔یہی حال جنرل پرویز مشرف کا تھا ۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں انہوں نے اپنا سب کچھ امریکہ کے حوالے کردیا۔اسٹریٹجک پارٹنر کی حیثیت میں اِس جنگ کا ہراول دستہ بنکر اُنہوں نے امریکہ کی تابعداری میں اپنا گھر اور اپنا ملک تباہ کرڈالااور بدلے میں کچھ نہ پایا۔
جمہوری حکمرانوں نے بھی امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہمیشہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششیں کیںمگر دیکھا یہ گیا کہ خود امریکہ نے غیر جمہوری حکمرانوں سے معاملات طے کرنے میں ہمیشہ ریلیف اور آسانی محسوس کی۔سول حکمرانوں کی کچھ آئینی اور دستوری مجبوریاں ہوا کرتی ہیں۔وہ پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتے ہیں جبکہ غیر جمہوری حکمرانوں کی یہ مشکل درپیش نہیں ہواکرتی۔وہ اپنے فیصلے کرنے میں اکیلے ہی مکمل بااختیار اور آزاد ہواکرتے ہیں۔ انہیں فیصلے کرنے کیلئے کسی سے اجازت بھی درکار نہیں ہوتی۔ وہ بڑے سے بڑا فیصلہ بھی منٹوں میں بیک جنبش قلم کرجاتے ہیں۔اُن سے سوال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔جنرل پرویز مشرف کو اِس سلسلے میں سب پر فوقیت حاصل ہے۔اُنہوں نے امریکی حکمرانوں کی حکم برداری میں لمحہ بھر کی دیر نہ کی۔رچرڈ آرمٹیج اور کولن پاول کے تمام مطالبوں پر فوراً حامی بھرلی۔جنرل پرویز مشرف نے اپنے 9 سالہ دور اقتدار میں امریکہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔وہ اپنے لوگوں کو امریکہ کے ہاتھ فروخت بھی کرتے رہے اوراُس پر فخر بھی کرتے رہے۔اور اپنے اِن کارناموں کا تذکرہ بھی بڑے فخریہ انداز میں اپنی سوانح حیات ’’اِن دی لائن آف فائر‘‘میں بھی کرتے رہے۔لال مسجد کے واقعے میں بھی اُنہوں نے صرف امریکہ کو خوش کرنے اور خود کو اُس کا خیر خواہ ظاہر کرنے کیلئے اتنا بڑا خونی معرکہ کھیلا۔ وہ چاہتے تو اِس ظلم وستم سے خود کو بچاسکتے تھے۔اِس واقعے سے جڑے ذمہ داران کہتے ہیں کہ غازی عبدالرشید اور اُن کے تمام ساتھی آپریشن سے چند گھنٹے پہلے خود کو حکومت کے حوالے کرنے پر رضامند ہوچکے تھے اور اِس ضمن میں ایک سمجھوتہ بھی طے پاچکا تھالیکن صرف اور صرف ایک طاقت کو خوش کرنے کیلئے یہ ظلم و ستم کیاگیااور سینکڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا۔آج ہماری موجودہ سویلین حکومت بھی اِسی ڈگر پر چل رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ یہ اعتراف کرنے میں کوئی پس وپیش سے کام نہیں لے رہا کہ گذشتہ 18برسوں میں یہ پہلا موقعہ ہے ہمارے اور پاکستان کے بیچ تعلقات انتہائی دوستانہ اورمفاہمانہ ہیں۔ محمد نواز شریف سے امریکہ کی ناراضی کی اصل وجہ وہ ایٹمی دھماکے اور تجربات تھے جو انہوں نے ملکی اور قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی حکمرانوں کی دھمکیوں کے باوجود کرڈالے تھے۔پھر اپنے تیسرے دور میں ملک کو معاشی اور اقتصادی استحکام بخشنے کیلئے  ’’سی پیک‘‘ جیسے عظیم منصوبے پر تیزی سے کام شروع کردیاتھا۔یہی وہ منصوبہ ہے جو عالمی طاقتوں کو پہلے دن ہی سے کھٹک رہا ہے۔ خان صاحب کی حکومت کے آتے ہی ہمارا ملک جوآئی ایم ایف کے آہنی شکنجے سے باہر نکل آچکاتھااب ایک بار پھر اُس کی ہشت پالی گرفت میں جکڑاجانے لگا ہے۔ روپے کی یکمشت 30%گراوٹ نے ہماری معاشی اور اقتصادی حالت اور بھی ابتر کردی ہے۔ہم جومایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اندھیروں سے نکل کر خوش آئند مستقبل کی جانب بڑھنے لگے تھے یکدم ایک بار پھر بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ہماراتاجر اور بزنس مین اِس وقت انتہائی گومکوں کی حالت میں گرفتار ہے۔حکومت کے پاس قرضے لینے کے علاوہ کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔اُس کی تما م سوجھ بوجھ اور صلاحیت صرف اور صرف نئے قرضوں کے حصول پر خرچ ہورہی ہے۔خود خان صاحب بھی قرضوں کے حصول کو اپنی بہت بڑی کامیابی گردانتے رہے ہیں۔دیکھا جائے تو یہی کچھ امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان کبھی بھی معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم اور خود مختار نہ ہو۔امریکہ سے دوستانہ اورمفاہمانہ تعلق پیداکرنے پرسرشار اورشادماں ہونے والے شاید یہ بھول چکے ہیں کہ امریکہ کبھی بھی ہمارا دوست اور خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔

مزید پڑھیں:- - - -  -عام انتخابات کی ہلچل

شیئر: