Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج سبسڈی پر نظرثانی

عازمین حج کو جہاں حج کوٹہ بحال کئے جانے کے اعلان سے خوشی ہوئی تھی وہیں اچانک حج سبسڈی ختم کئے جانے کیلئے تشکیل دی گئی کمیٹی سے کچھ تشویش ضرور ہوئی ہے

 

معصوم مرادآبادی

اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے جنہیں حال ہی میں وزارت حج کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہیں ،حج سبسڈی ختم کرنے کے لئے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔یہ کمیٹی حج سبسڈی ختم کرنے کے نشیب وفراز حکومت کو تجویز کرے گی۔

حج سبسڈی سے متعلق یہ اعلان ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب سعودی حکومت نے ہندوستانی عازمین حج کا کوٹہ بحال کئے جانے کی نوید سنائی ہے ۔عازمین حج کو جہاں حج کوٹہ بحال کئے جانے کے اعلان سے خوشی ہوئی تھی وہیں اچانک حج سبسڈی ختم کئے جانے کیلئے تشکیل دی گئی کمیٹی سے کچھ تشویش ضرور ہوئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اقلیتی امور کے مرکزی وزیر حج کوٹے کی بحالی کا کریڈٹ بھی عرب ملکوں میں وزیراعظم نریندر مودی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے نام لکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔حج امور کی ذمہ داریاں اب تک وزارت خارجہ پوری کرتی رہی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ وزارت خارجہ کو ان ذمہ داریوں سے فارغ کرکے حج امور کا پورا بوجھ اقلیتی امور کی وزارت کے ناتواں کاندھوں پر رکھ دیا گیا ۔ نہیں معلوم کہ پہلی مرتبہ وزارت اقلیتی امور کی نگرانی میں آنے والے حج کے امور کس طرح پایہ تکمیل کو پہنچیںگے کیونکہ اقلیتی امور کی وزارت پر اپنی ذمہ داریوںسے خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ برآنہ ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔فی الحال اقلیتی امور کے وزیر ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے سے زیادہ سیاسی قیادت کی خوشنودی میں مگن نظر آتے ہیں۔ سعودی حکومت نے حال ہی میں ہندوستانی عازمین حج کے کوٹے میں 25فیصد کا اضافہ کیا ہے اس طرح ایک لاکھ 36ہزار سے بڑھ کر عازمین حج کی تعداد ایک لاکھ 70ہزار سے زائد ہوجائے گی۔ یہ تعداد اس لئے بڑھائی گئی ہے کیونکہ گزشتہ عرصے میں حرمین شریفین کی توسیع اور تعمیرات سے ہند سمیت تمام ممالک کے عازمین حج کی تعداد کم کی گئی تھی جو توسیع کا کام مکمل ہونے کے بعد بحال کردی گئی لیکن اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختارعباس نقوی نے اس کا کریڈٹ لیتے ہوئے یہ کہاہے کہ پوری دنیا میں وزیراعظم نریندرمودی کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہندوستانی عازمین حج کے کوٹے میں اضافہ عرب ملکوں سے ہند کے بڑھتے ہوئے رشتوں کا ثبوت ہے۔ حج سبسڈی پر نظر ثانی کے لئے افضل امان اللہ کی قیادت میں تشکیل دی جانے والی 6 رکنی کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی کہ وہ مرحلہ وار حج سبسڈی کو ختم کرنے کا طریقہ کار تجویز کرے۔

واضح رہے کہ حکومت ہند ہرسال سفر حج پر 650کروڑ روپے بطور سبسڈی دیتی ہے جو کہ ان ہوائی کمپنیوں کو ادا کی جاتی ہے جو عازمین حج کی آمدورفت کا بندوبست کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں عازمین حج سے ہوائی سفر کے نام ایک مخصوص رقم لی جاتی ہے لیکن اس سبسڈی کا تاریک پہلو یہ ہے کہ جب سے یہ شروع ہوئی ہے اس وقت سے ہندوستانی مسلمانوں کو فرقہ پرست اور مسلم دشمن طاقتوں کے طعنوں کا سامنا ہے کہ مسلمان سرکاری رعایت پر عبادت انجام دینے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں فرقہ پرست طاقتیں حکومت پر بھی یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ وہ سیاسی مقاصد کے تحت مسلمانوںکے لئے حج کے سفر پر سبسڈی فراہم کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ہند اندرون ملک ہونے والی دیگر مذاہب کی تقریبات پر بھی کروڑوں اور اربوں روپے سرکاری خزانے سے خرچ کرتی ہے لیکن وہ کبھی بحث کا موضوع نہیں بنتے۔ مثال کے طورپر الٰہ آباد کے کنبھ میلے پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن اس پر کوئی اعتراض درج نہیںہوتا حالانکہ آج تک یہ معمہ حل نہیں ہوپایا کہ حکومت حج سبسڈی مسلمانوں کی طرف داری کے نام پر جاری کرتی ہے یا پھر یہ سبسڈی قومی ہوائی کمپنی ایئر انڈیا کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے دی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض مسلم قائدین اس معاملے میں حکومت سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اگر اسے مسلمانوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو وہ ان کی تعلیمی ، سماجی اور معاشی زبوں حالی دور کرنے کے لئے سرکاری خزانے کا منہ کیوں نہیں کھولتی لیکن حکومت ان سوالوں کا جواب دینے کی بجائے حج سبسڈی کو بحث کے محور میں رکھنا چاہتی ہے۔ حج سبسڈی کے خاتمے کی پہل اب سے 5برس قبل سپریم کورٹ نے کی تھی۔

2012ء میں سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا تھا کہ حکومت حج سبسڈی کو مرحلہ وار کم کرکے سال 2022ء تک پوری طرح ختم کردے لیکن ابھی تک حکومت نے اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ 5 سال بعد بھی حج سبسڈی کو ختم کرنے کے لئے محض ایک کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس کے ساتھ کسی ردعمل سے بچنے کے لئے فوری طورپر یہ بھی کہہ دیا ہے کہ حج 2017ء کے دوران حج سبسڈی ختم نہیں کی جائے گی۔ اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کا کہنا ہے کہ حج سبسڈی کے سلسلے میں تمام طرح کے سوالات اٹھتے رہے ہیں جن کا جائزہ لینے کے لئے حکومت نے 6 رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ کمیٹی اس بات کا جائزہ لے گی کہ کیا حج سبسڈی ختم کئے جانے کے باوجود لوگ اپنے ہی پیسوں سے سفر حج پر جاسکتے ہیں نیز یہ کہ حج سبسڈی ختم کر دیئے جانے کے بعد عازمین پر فی کس کتنا مالی بوجھ پڑے گا۔ مختار نقوی نے یہ بھی کہاکہ اس کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ہی حج سبسڈی ختم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ کیاجائے گالیکن اتناطے ہے کہ رواں سال کے دوران حج سبسڈی میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ حج سبسڈی ختم کرنے کے بارے میں جس سیاسی قوت ارادی کی ضرورت ہے ، فی الحال حکومت اس سے محروم نظر آتی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ5 سال پہلے دی گئی عدالتی ہدایت کے باوجود حکومت اس معاملے میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کرسکی ۔ حکومت کو اندیشہ ہے کہ حج سبسڈی ختم کرنے کا مسلمانوں پر کوئی منفی ردعمل ہوسکتا ہے اور یہ مسئلہ سیاسی رخ اختیار کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حج سبسڈی کو مسلمان اپنے اوپر ایک بوجھ ہی سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلم قائدین طویل عرصے سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ حکومت حج سبسڈی کو واپس لے لے کیونکہ اسلام میں حج ان ہی لوگوں پر فرض کیاگیا ہے جولوگ اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔ کسی قسم کی رعایت یا تعاون لے کر حج پر جانا یوں بھی مذہبی طورپر درست نہیں ۔ اگر حکومت واقعی مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کے تحت ان کی بہتر تعلیم اور تربیت کا ماحول فراہم کرنے کے لئے سرکاری خزانے سے رقم خرچ کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ ’’حج سبسڈی کو ختم کرکے اس کی رقم مسلم لڑکیوں کی تعلیم پر صرف کی جانی چاہئے۔ حج سبسڈی کا اتنا فائدہ مسلمانوں کو نہیں ہوتاجتناکہ ہوائی کمپنیوں کو ہوتا ہے۔ ‘‘

شیئر: