Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منٹو

 
ابتدائی ایام میں منٹو مترجم تھا چنانچہ اردو زبان پر اس کی گرفت قابل رشک تھی۔ سلیس زبان میں اس نے اپنا ماضی الضمیر انتہائی کامیابی سے بیان کیا
 
جاوید اقبال
 
تو پھر وہ آدمی بولا " اشوک بھائی! بلوہ ہے آگلی والی گلی بند ہے۔ تم پاچھل والی گلی سے نکل جاو "۔ تو اشوک کمار نے گاڑی موڑلی اور میںپاچھل والی گلی سے پاکستان آگیا۔ سعادت حسن منٹو نے ممبئی چھوڑ کر پاکستان آنے کی وجہ بیان کرتے وقت یہ واقعہ سنایا تھا۔ تقسیم ہند کے فسادات شروع ہوچکے تھے۔ اداکار اشوک کمار اپنی گاڑی میں منٹو کو اس کے گھر چھوڑنے جارہا تھا کہ راستے میں چند لوگوں نے انہیں روک کر اگلی گلیوں میں بلوائیوں کی موجودگی کی خبر دی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پیچھے والی گلی سے واپس چلے جائیں۔ شنید یہ بھی ہے کہ منٹو نے ہندوستان نہ چھوڑنے کا فیصلہ کررکھا تھا لیکن ایک دن ایک محفل میں اس کے ایک عزیز ہندو دوست نے کہا کہ اگر منٹو اس کا دوست نہ ہوتا تو اسے قتل کردیتا چنانچہ پاچھل والی گلی سے سعادت حسن منٹو پاکستان آگیا۔ راہ میںابن آدم کی وحشت و بربریت کے شواہد دیکھے تو ایسی داستانیں کہیں کہ وہ جنوبی ایشیائی ادب کا تاجدار بن گیا۔ اگر منٹو صرف" ٹوبہ ٹیک سنگھ" ہی لکھ کر اپنا ٹائپ رائٹر الماری میں مقفل کردیتا اور پھر نسیان کا شکار ہوجاتا تو بھی ارد و ادب میں امر رہتا لیکن وہ خاموش نہ رہ سکا۔ "کھول دو " اور " موزیل" جیسے افسانوں نے آدمی کی حیوانی جبلتوں کا ایسا بھیانک رخ پیش کیا ہے کہ آنکھ نمناک ہوجاتی ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مرکزی کردار بشن سنگھ کا دیوانگی اور حالت خود فراموشی میں ڈوبا ذہن اپنے دیہہ کی مٹی اور کھیتوں میں سے بلند ہوتی بالیوں کی مہک سے دور ہونا پسند نہیں کرتا اور عین سرحد پر بشن سنگھ کا بدن اس وقت بے جان ہوکر گرتا ہے جب اسے ہندوستانی سرحد ی پہریداروں کے حوالے کیا جارہا ہوتا ہے۔ یوں تو برصغیر کی تقسیم پر 2 دوسرے افسانے احمد ندیم قاسمی کا " پرمیشر سنگھ" اور اشفاق احمد کا "گڈریا" او رقدرت اللہ شہاب کا ناولٹ "یا خدا" اردو داستان گوئی کو حیات دوام بخشتے رہیں گے لیکن مہینوں مسلسل کھڑا رہنے والا متورم پیروں والا ٹوبہ ٹیک سنگھ اول الذکر تینوں تحریروں سے بہت ، بہت اوپر ہے۔ اسی طرح منٹو کی موزیل، کھول دو اور ٹھنڈا گوشت، اس بربریت کا احوال ہے جس کا شکار تقسیم ہند کے دوران عورت ہوئی۔ 
جب بھی انسان پر کوئی سانحہ گزرا ہے عظیم ادب کی تخلیق ہوئی ہے۔ انگریزی کا چارلس ڈکنز نہ ہوتا اگر طاعون زدہ لندن کی گلیوں میں گرسنگی کا شکار معصوم بچے جرم اور جیب تراشی پر مجبور نہ کئے جاتے۔ اگر بھوک ، دستور زباں بندی اور زار کے ستم سے عاجز آئے عوام تنوروں پر رزق کے لئے طویل صفیں نہ باندھتے تو کوئی چیخوف، کوئی گورکی روسی ادب کو نصیب نہ ہوتا۔ والٹیر اور روسو کا بھی وجود نہ ہوتا۔ اگر فرانس میں راحت و کثرت کی بارش برستی۔ اگر دوسری عالمی جنگ میں انسانوں کو توپوں کا چارہ نہ بنایا جاتا تو عالمی ادب آج بھی کسی ہیمنگولے کا منتظر ہوتا۔ اور اگر افریقہ کا سیاہ فام پابہ زنجیر نیم برہنہ حالت میں کوسوں دور سجی انسانی منڈیوں میں نیلام نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی وولے سونیا کا، کوئی چینوا، اچیبے اپنے ہم نفسوں کی باوقار شناخت کے لئے بلک نہ پڑتا۔
منٹو بھی ایسا ہی ہے۔ افسانوں کے 22 مجموعوں، ایک ناول ریڈیائی تمثیل کی 5 کتب، مضامین کے 3 اور شخصی خاکوں کے 2 مجموعوں کے خالق نے علیگڑھ یونیورسٹی سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ طالب علمی کے دوران میں ہی اس نے وکٹر ہیوگو، آسکر وائیلڈ، چیخوف اور گورکی کے تراجم کئے اور یوں عالمی ادب سے تسلی بخش حد تک واقفیت حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنی تحریروں کا سر پیر سنوارا۔ شروع میں کمیونسٹ مصنف علی سردار جعفری سے متاثر رہا لیکن پھر اپنی الگ راہ نکال لی۔ ترقی پسند مصنفین صرف انسان کی محرومیوں کی بات کرتے تھے وہ صرف شکم کی ضرورت کا ذکر کرتے تھے۔ منٹو نے معاشرے کے ہاتھوں انسانی روح کو پہنچنے والے زخموں پر لکھا۔ وہ اقدار کے زوال سے انسان کے اندر پیدا ہونے والی تاریکیوں پررویا، شدت اشتہاءکیسے ضمیر اور اخلاقی اقدار کی موت لاتی ہے اور پھر کیسے انسان میں وحشی پن بیدار ہوتا ہے ، منٹو کے موضوعات تھے۔ اس کی تحریروں میںان تاریکیوں کے خلاف جدوجہد میں انسانی روح کی بے بسی کا اظہار ملتا ہے۔ اس کا طنز تاریک مزاج ہے۔ 
ابتدائی ایام میں منٹو مترجم تھا چنانچہ اردو زبان پر اس کی گرفت قابل رشک تھی۔ سلیس زبان میں اس نے اپنا ماضی الضمیر انتہائی کامیابی سے بیان کیا۔ تمثیل نگاری میں اس نے مروج اور قابل فہم اردو لکھی اور مقبولیت حاصل کی۔ منٹو نے ابتدائی 6 ، 7 برس آل انڈیا ریڈیو دہلی میں کام کیا۔ ان دنوں ن م راشد وہاں ڈائریکٹر تھے۔ دونوں میں ہلکی چپقلش رہتی تھی۔ منٹو پر اس کی اپنی زبان کاحکم چلتا تھا۔ چنانچہ اکثر لوگ اس سے نالاں تھے۔ جب ن م راشد سے تعلقات مزید بگڑے تو منٹو دہلی چھوڑ کر بمبئی چلا گیا۔ جہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی سے منٹو کی گاڑھی چھنتی تھی اور منٹو کی خواہش تھی کہ قاسمی اس کے پاس بمبئی آکر فلموں کیلئے کہانیاں لکھیں۔ آگے کی داستان احمد ندیم قاسمی اپنی کتاب میرے ہمسفر میں یوں بیان کرتے ہیں کہ میں بمبئی پہنچ گیا اور منٹو اور کرشن چندر کا مہمان بنا جو دونوں اکٹھے ایک فلیٹ میں قیام پذیر تھے۔ اگلے دن ہم تینوں ایک نودولیتے مارواڑی سیٹھ کے ہاں پہنچے جو فلم بنانے کا ارادہ رکھتاتھا۔ منٹو نے اپنی لکھی کہانی پڑھنی شروع کی۔ ایک جگہ الفاظ، دلی آرزو ، آئے تو سیٹھ فوراً بولا اے ومٹو یہ دلی آر جو کیا ہوتا ہے؟ فلم انڈسٹری کے اکثر لوگ منٹو کو ومٹو کہتے تھے۔ منٹو نے وضاحت کی۔سیٹھ بولا یہ دلی آر جو مار جو نہیں چلے گا، اس کی جگہ من کی آشا، لکھو۔ منٹو نے بحث کرنا شروع کردی کہ دلی آرزو ہی مناسب الفاظ ہیں لیکن سیٹھ ضد پر آگیا ۔ تب کرشن چندر نے منٹو کو کہنی ماری اور متنارعہ الفاظ تبدیل کردیئے گئے۔ سیٹھ سے پیشگی رقم کا چیک لے کر ہم نکلے۔ منٹو نے فوراً بینک جاکر رقم حاصل کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس کے خیال کے مطابق مارواڑی ناقابل بھروسہ لوگ تھے۔ چیک بھنا یا گیا۔ میری شیروانی سے دونوں تنگ تھے چنانچہ درزی کے پاس جاکر میرے لئے ایک انگریزی سوٹ کا ناپ دیا گیااور اسے پیشگی ادائیگی کردی گئی پھر ہم ایک بڑھیا ہوٹل گئے اور پیٹ بھر کر اعلیٰ کھانا کھایا۔ واپس فلیٹ پر پہنچے تو دروازے پر سیٹھ کا ڈرائیور منتظر تھا۔ 
بولاکہ جنگ شروع ہوچکی ہے۔ اس لئے سیٹھ نے فلم بنانے کا ارادہ منسوخ کردیا ہے۔ اس نے چیک واپس مانگا ہے۔ ہم تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرائے پھر منٹو ڈرائیور سے بولا "جاواپنے سیٹھ سے کہہ دو کہ اب فلم ضرور بنائے۔ اس کے چیک سے ہم نے اپنے من کی آشا پوری کرلی ہے"۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: