Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’خواب ہوتے ہیں دیکھنے کیلئے ‘‘

بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایسی نہج پر گامزن ہوچکے ہیں جو کسی طور بھی ہمارے اسلاف کی روایات سے میل نہیں کھاتی

تسنیم امجد ۔ ریاض

سنا ہے کہ حقوق کی جنگ میں خواتین فتح یاب ہیں اور اب روشن خیالی ان کی زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہے ۔ میڈیا نے اس جنگ کی جیت میں ان کا بھرپور ساتھ دیا، اتنا کہ مغربی ثقافت عشق پیچا کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ رضوانہ پاؤں پٹختی بیچاری ملازمہ پر برس رہی تھی، مجھے آج یہ کپڑے نہیں پہننے تھے ،لیکن میڈم آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ یہ کپڑے استری کردینا، ملازمہ روہانسی ہورہی تھی۔ خیر دوسرا جوڑا نکالا گیا ،وہ اسے پہن کر آفس چلی گئی۔ خالہ بہت پریشان تھیں، بولیں اس لڑکی کا یہی روزانہ کاحال ہے ، رات بھر فون کان سے لگاہوتا ہے، نیند پوری نہیں ہوگی تو مزاج کا یہی حال ہی ہوگا۔ جب سے نکاح ہوا ہے، دونوں کا یہ حال ہے ، ہم تو یہ چاہتے ہی نہیں تھے کہ نکاح کے بعد بھی بیٹی کوگھر رکھا جائے،فوری رخصتی ہوجاتی تو اچھا ہوتا لیکن لڑکے والوں کا اصرار تھا کہ ابھی کچھ دیر چاہئے ۔ اسمارٹ فونز نے آزادی دے رکھی ہے ،’’فری سروس‘‘ سے مستفید ہونے کی لت نے تو اچھے اچھوںکو متاثر کر کے رکھ دیا ہے ۔کسی کوکوئی احساس ہی نہیں ہوتا۔یوں لگتا ہے کہ موبائل فون ہی وہ واحد ترقی اور خوشحالی ہے جو دلی سکون مہیا کرتی ہے ۔ان فونز کابے جا اور بے وقت استعمال کیاجاتا ہے ، ماں یا باپ، کوئی بھی ا نہیں روک نہیں سکتا ۔ سیلفیوںپر سیلفیاں بنائی جاتی ہیں اور بھیج دی جاتی ہیں۔ والدہ کی روک ٹوک رضوانہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی ۔ وہ اکثر چیزیں پٹختی نظر آتی اوریوں بڑبڑاتی کہ نکاح ہونے کے بعد بھی اماں کی پابندیاں ختم نہیں ہوئیں۔ کاش یہ فون ہی نہ ہوتا۔میں اماں کے سامنے کچھ بول کر خواہ مخواہ میں گنہگار ہوتی ہوں، ان کے چہرے پر لکھی شکایتیں مجھے اندر سے بھسم کردیتی ہیں۔ گزشتہ دنوں کوئی دوماہ کے وقفے کے بعد اچانک دونوں ماں بیٹیاں بازار میں مل گئیں۔ خالہ سامان سے لدی پھندی تھیں اور رضوانہ اجڑا سا چہرہ لئے اپنے حصے کے لفافے اٹھارہی تھی۔ ہم خوش ہوئے کہ اب شادی کا کارڈ آنے والا ہے لیکن خالہ نے جلدہی واضح کردیا کہ ابھی جنید بیٹے کی شادی ہے ، رضوانہ کو تو رخصتی سے پہلے ہی طلاق ہوگئی،ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا تب خالہ بولیں بیڑا غرق ہو اس فون کا،اسی نے طلاق کروائی ، کیا ضرورت تھی اتنی باتوں کی۔ میری تو کوئی سنتا نہیں تھا۔خود سری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ، ہم سے رضوانہ کا چہرہ دیکھا نہ گیا اور پھر ملنے کا وعدہ لے کر رخصت ہوگئے ۔ آج کی تحریر کا مقصد اس دکھتی رگ کے لئے کچھ لمحات وقف کرنا ہے جس نے کئی گھروں کی خوشیاں اجاڑدی ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایسی نہج پر گامزن ہوچکے ہیں جو کسی طور بھی ہمارے اسلاف کی روایات سے میل نہیں کھاتی۔ بدقسمتی سے عورت اپنے حقوق اور آزادی کو ایک ہی درجہ دیتی ہے ، یہ بحث طویل ہے، کاش اپنی اقدار کو مدنظر رکھاجائے:

* * * *

وہ بھی کیالوگ تھے آسان تھیں راہیں جنکی

بند آنکھیں کئے اک سمت چلے جاتے تھے

عقل و دل ، خواب و حقیقت کی نہ الجھن، نہ خلش

مختلف جلوے نگاہوں کو نہ بہلاتے تھے

* * *

وطن میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ سروے حال ہی میں نظروں سے گزرا۔ اکثر مردوں اور کبھی عورتوں کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ شادی بیاہ ایک معاہدہ ہے اس معاہدے پر بطریق احسن عملدرآمد اسی صصورت ہو سکتا ہے جب فریقین موبائل فون پر نہیں بلکہ حقیقتاً روبرو ہوں۔میاں بیوی کے مابین روابط کو مضبوط تر بنانے کی شرائط بہت ہی آسان ہیں۔ دونوں فریق کچھ مان کر اور کچھ منواکر سفر حیات کے لئے راستہ ہمواررکھ سکتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی سے بے دریغ مستفید ہونے کا غلط انداز گھر بسنے کی بجائے اجاڑ دیتا ہے۔ موبائل ٹیکنالوجی نے روایتی زندگی تباہ کرکے رکھ دی ہے۔ آج کی نسل اس بمباری تلے اپنی پہچان کے درپے ہے ، اس بیگانگی کے ذمہ دار ہم ہی ہیں۔ بچپن سے ہی پابندیاں اورایک حصار ہوناضروری ہے۔کوئی بھی بگاڑ بچپن سے ہی جنم لیتا ہے ۔ ہماری معاشرتی و اخلاقی اقدار مغرب سے قطعی مختلف ہیں۔ مغرب کے لئے جو تفریح ہے وہ ہمارے لئے اخلاقی دیوالیہ پن قرار پاتی ہے ۔ ہمیں ایسی تفریح کی اجازت بالکل نہیں جو روایات سے غافل کردے۔ انٹرنیٹ کی سہولت کا بے دھڑک استعمال اتنا دلچسپ بن جاتا ہے کہ نتائج بھی مدنظر نہیں رکھے جاتے ، کاش یہ سمجھ لیا جائے کہ :

* * * *

خواب ہوتے ہیں دیکھنے کیلئے

ان میں جاکر مگر رہا نہ کرو

* * * *

ازدواجی زندگی بھی کچھ زاویوں پر سنبھل کر چلنے سے کامیاب رہتی ہے۔رخصتی سے قبل موبائل فون پر گھنٹوں گفتگو کے فیشن نے نکاح جیسے مضبوط بندھن کیلئے بھی خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔ دولہا میاں کسی بھی بات پر سیخ پا ہوکر منکوحہ کو مطلقہ بنا دینے میں ذرا پس و پیش نہیں کرتے ۔ بچے کوماں کی گودہی مشرقی آداب سے آشناکرتی ہے۔ وہ اسی ماں جیسی مشرقی اقدار کی پابند شریک سفر دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ شرم و حیاء عورت کا زیور ہے۔ لڑکیوں کو خود پر حدود و قیودعائد کرنی ہوتی ہیں ورنہ نتیجہ طلاق اور جھگڑوں کی صورت میں نکلتا ہے شکایت کا وہ حق نہیں رکھتیں۔ عزت و عظمت، صنفِ نازک کے وجود کا حصہ ہے ۔ یہ معاشرہ مرد کا ہی سہی لیکن کیا کبھی کسی نے کہا ہے کہ مرد کے معاشرے کی تشکیل میں عورت کا تعاون نہیں رہا؟ مرد بلاشبہ عورت کی عظمت کا معترف ہے کیونکہ یہ آہنی ارادوں اور انقلابی عزم کا پیکر ہوتے ہوئے بھی شفقت و درگزر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔

شیئر: