Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ویڈیو سکینڈل: ملزمان کو عمر قید

کوہستان ویڈیو سکینڈل کو سامنے لانے والے افضل کوہستانی کو بھی اس سال کے اوائل میں ایبٹ آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کی ایک مقامی عدالت نے کوہستان ویڈیو سکینڈل میں ملوث تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے جبکہ پانچ دیگر ملزمان کو بری کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سزا پانے والوں میں عمر خان، صابر خان اور سائر خان شامل ہیں۔ عمر خان قتل کی گئی ایک لڑکی کا بھائی ہے جبکہ دوسرے دو مجرمان دو مقتول لڑکیوں کے والد ہیں۔
ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر عطااللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ کوہستان ویڈیو میں موجود تین لڑکیوں کو قتل کیا گیا تھا۔

 افضل کوہستانی ہی نے  پہلی مرتبہ لڑکیوں کے قتل کے معاملے کو میڈیا کے  سامنے لایا تھا۔ فوٹو سوشل میڈیا 

ان کے مطابق سیشن کورٹ نے تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ پانچ دیگر کو بری کر دیا ہے۔
مجرم قرار دیے گئے افراد کے وکیل سرفراز خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے موکل سزا کو ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔
ملزمان پر غیرت کے نام پر لڑکیوں کے قتل کا الزام تھا۔
خیال رہے کہ 2012 میں ان لڑکیوں کی شادی کی تقریب میں لڑکوں کا رقص دیکھتے اور تالیاں بجاتے ہوئے ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد مبینہ طور پر ان کو ایک مقامی جرگے کے فیصلے کے تحت قتل کر دیا گیا۔
ابتدائی طور پر صوبائی پولیس کے حکام لڑکیوں کے قتل کی تردید کرتے رہے تاہم اس واقعہ کے چند سال بعد صوبائی پولیس نے تسلیم کر لیا تھا کہ لڑکیوں کو قتل کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن فرزانہ باری کی درخواست پر سپریم کورٹ نے کوہستان ویڈیو سکینڈل کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج پر سپریم کورٹ نے اس وقت لڑکیوں کے قتل کا ازخود نوٹس لیا تھا اور ایک عدالتی کمیشن قائم کیا گیا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لڑکیوں کو زندہ قرار دیا مگر انسانی حقوق کی کارکن اور کمیشن کی ممبر فرزانہ باری نے اس رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے واقعہ کی مکمل انکوائری کرنے کی درخواست عدالت میں دائر کی تھی۔
اس درخواست بعد سپریم کورٹ نے پہلے خاتون جوڈیشل افسر منیرہ عباسی کی سربراہی میں اور بعد ازاں سنہ 2016 میں اس وقت کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج داسو، کوہستان محمد شعیب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔
محمد شعیب کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لڑکیوں کے زندہ ہونے کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے فرانزک تحقیقات کی تجویز دی تھی جس پر سرپم کورٹ نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ جوڈیشل آفیسر محمد شعیب کی پیش کردہ رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات مکمل کر کے عدالت میں رپورٹ پیش کرے۔
گزشتہ سال سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے مقدمے کی سماعت کے دوران خیبر پختونخوا پولیس نے تسلیم کیا کہ تین لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں اور رپورٹ پیش کی تھی کہ لواحقین نے بیان حلفی دیا ہے کہ دو لڑکیاں زندہ ہیں اور ان کو جلد پیش کر دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ یہ معاملہ منظرِعام پر لانے والے افضل کوہستانی کو بھی رواں برس مارچ میں ایبٹ آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔
 

شیئر: