Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیریوں سے بات کرنا پڑے گی

 
ابوالکلام آزاد کا انتباہ صحیح ثابت ہوا۔ تقریباً 18 فیصد مسلمانوں کا اس ملک کے انتظامات میں عملاً کوئی دخل نہیں۔ ان کی حالت زار دلتوں سے بھی ابتر ہے
 
کلدیپ نیر
 
اس پر یقین کرنا مشکل ہے کہ حکومت کی سرپرستی والے کھادی بورڈ نے وزیراعظم کے دفتر کی اجازت کے بغیر چرخے کے پیچھے بیٹھے سوت کاتتے ہوئے گاندھی جی کے مانوس انداز میں وزیراعظم نریندر مودی کی تصویر چھاپی ہوگی۔ شاید نچلی سطح کے کسی شخص نے بورڈ کو آگے بڑھنے کی اجازت دی ہوگی۔ اس پر عوام میں اس قدر اشتعال تھا کہ اس کی تردید ناگزیر ہوگئی۔
اس کے باوجود دفتر وزیراعظم کا ردعمل اتنا شدید نہیں تھا جتنا ہونا چاہئے۔ درحقیقت سخت انتباہ اسی وقت جاری کیا جانا چاہئے تھا تاکہ اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کا ارتکاب کرنے والے لو گ سزا پائے بغیر نہ رہیں۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل ہوگی جو کسی نہ کسی بہانے اس سے یکسر بے خبر ہیں کہ وہ خود اپنی توہین اور جمہوریت کا وقار مجروح کررہے ہیں۔
ابھی چند روز پہلے قومی ترانہ بجائے جانے پر کھڑے رہنے کو لازمی قرا ردیاگیا ہے پھر بھی لوگ اس حکم کا احترام نہیں کرتے اور سینما ہال کے دروازے کھول دیتے ہیںحالانکہ وہ اندر سے بند ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ تو سرکاری حکم ہے جس کی تعمیل ان کیلئے ضروری نہیں۔
شاید انہیں احساس نہ ہو کہ قومی ترانہ اور جمہوریہ کا پرچم اس بناءپر قابل احترام ہیں کہ وہ ملک کی عزت و خودمختاری کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عوام کو خود یہ محسوس کرنا ہوگا کہ کوئی بھی حکم یا قانون وطن پرستی کا جذبہ پیدا نہیں کرسکتا۔ جب بھی ملک او رفرد کیلئے مفید باتوں میں انتخاب کا مرحلہ پیش آئے تو دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ خود اس کا احساس اور ضمیر کرے گا۔
گاندھی جی خود لوگوں کے احساسات کا شعور رکھتے تھے جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں اعتراض کرنے پر انہوں نے اپنی پرارتھنا سبھا روک دی تھی تاہم گاندھی جی کولکتہ میں زیادہ کامیاب تھے جہاں اس وقت وزیر اعلیٰ حسین شہید سہروردی نے کانگریس کی ستیہ گرہ کے جواب میں مسلم لیگ کے ایکشن پلان کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایکشن پلان فرقہ وارانہ قتل عام میں بدل گیا اور پھر انتقامی کارروائی میں ہزاروں زندگیاں تلف ہوئیں۔ گاندھی جی نے کولکتہ جاکر لوگوں سے اپنے ہتھیار ان کے سپرد کردینے کو کہا۔ سب سے زیادہ متاثر افراد نے بھی 24 گھنٹے کے اندر اپنا اسلحہ ان کے حوالے کردیا۔ اس وقت گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ ایک اکیلے آدمی نے جو کر دکھایا وہ مسلح افواج بھی نہیں کرسکیں۔
اس وقت سے اب تک ہندوستان نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کھینچی جارہی سرحد نے سیکولرازم کو کمزور کر دیاہے۔ سیکولر اقدار کی نمائندگی کرنے والی کانگریس خود ہی اپنے اصولوں سے ہٹ گئی تھی۔ قد آور مسلم رہنما ابوالکلام آزاد نے مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ غیر منقسم ہندوستان میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے جہاں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود آزادی کے بعد کے ہندوستان کی نعمتوں میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ 
ابوالکلام آزاد کا انتباہ صحیح ثابت ہوا۔ تقریباً 18 فیصد مسلمانوں کا اس ملک کے انتظامات میں عملاً کوئی دخل نہیں۔ ان کی حالت زار دلتوں سے بھی ابتر ہے جیسا کہ ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق سچر کمیٹی کی رپورٹ بتاتی ہے۔ سیاسی اعتبار سے ان کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی۔ وہ اپنی اہمیت پر اصرار کرتے ہیں کہ کہیں ہندو تعصب پسندی زیادہ سفاک شکل نہ اختیار کرلے۔ 
تاہم مسلمان خود ہی اپنے موقف کو سخت کررہے ہیں۔ کشمیریوں کا رویہ پہلے ہی سے ایسا ہے کہ گویا آزاد خود مختار ہیں۔ ہندوستان سے الحاق کے وقت عوامی رہنما شیخ عبداللہ نے مہاراجہ کی حمایت اسلئے کی تھی کہ وہ بشمول باضابطہ فوجوں کے قبائلیوں کیخلاف لڑ رہے تھے۔ یہ ایک الگ کہانی ہے جب نئی دہلی نے 3 امور کے علاوہ دیگر معاملات میںبھی تصرف کرنا چاہا تو انہوں نے نئی دہلی کی مخالف کی۔
کشمیریوں نے وزیراعظم مودی سے جو ان کی نظر میں ہندو لیڈر ہیں، محبوبہ مفتی کی ملاقات پر محبوبہ پر تنقید کی ہے۔ ایسے معاملات میں اکثر اس حقیقت کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ نریندر مودی ہندوستان کے وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کے خیالات سے اتفاق ہو یا نہ ہو ا ن کا یہ رویہ بامعنی نہیں ہے کیونکہ وہ 545 نشستوں والی لوک سبھا کی 282 نشستوں پر کامیاب ہوکر اقتدار میں آئے ہیں۔ کشمیر کی زائرہ وسیم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
اس نے ایک فلم میں قابل تعریف اداکاری کی وار اس کے ہدایت کار عامر خان نے ایک پیغام میں اس کے فن کو مثالی قرا ردیا لیکن وادی میں علیحدگی پسندوں کا دباواتنا زیادہ تھاکہ ایک ٹی وی انٹرویو میں زائر کو کہنا پڑا کہ اپنی اداکاری پر اسے شرمندگی ہے اور وہ فلم میں اپنے کردار سے دستبردار ہوتی ہے۔ اس میں یہ تیکھا پیغام چھپا ہے کہ لڑکیوں کو اس کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہئے گویا کہ وہ لڑکیوں کو بتا رہی ہے کہ ایسا کرکے وہ کن صعوبتوں سے گزری ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وادی میں علیحدہ خود مختار اسلامی جمہوریہ قائم کرنے کے خواہاں افراد کسی طور بھی مطمئن نہیں ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی حریف ہندوستانی فوج تھی لیکن وہ کشمیر کے مطالبہ آزادی کا اندراج کرانے کیلئے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سرنگری جاکر میںنے دیکھا کہ وہ اپنے موقف پر اٹل ہیں۔ ایسی صورت میں نئی دہلی کو علیحدگی پسندوں سے جامع اور موثر گفتگو کرنی پڑے گی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ ہندوستان کے اندر حقیقی خو د مختاری قبول کرسکتے ہیں اور یہ کہ ہندوستان اپنے اختیارات کا دائرہ 3 امور یعنی خارجہ، دفاع اور مواصلات سے آگے نہیں بڑھائے گا؟
******

شیئر: