Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آن لائن سے لائبریریوں تک واپسی ناممکن نہیں

کتاب مرقوم علم ہے ، قرطاس پر متر شح دانائی ہے ، الفاظ میں سمٹی آگہی ہے - - - - - - - - - - - - - - - - -

تسنیم امجد۔ ریاض

کتاب اورانسان کا رشتہ بہت قدیم ہے ۔ کتاب آج بھی ہر عمر کے لوگوں کی سہیلی ہے۔ یہ ہمیشہ سے سنجیدہ انسانوں کی شناخت رہی ہے۔ طلباء کے لئے یہ ایک زیورر ہا. پاکستانی قوم علم دوست اور روایات کی امین ہے ۔کتاب کے ساتھ اس کا تعلق بہت گہرا ہے ۔ ہماری کتاب دوستی علمی عظمت اور فکری بصیرت کی آئینہ دار ہے۔ ہماری تاریخ اس کی گواہ ہے۔ کتب میں پوشیدہ ہماری قیمتی معلومات اور ماضی کے خزانے کو مخالفین نے تباہ کرنے کی حتیٰ الامکان کوششیں کیں تاکہ مسلمان فکری، علمی اور ادبی لحاظ سے مفلس ہوکر رہ جائیں ۔ ان کایہ واربڑی حد تک کامیاب ہوگیا کیونکہ ہم الیکٹرانک میڈیا میں کھو گئے۔ اس طرح جذباتی لحاظ سے نسل خود پیچھے رہ گئی لیکن لاشعور میں ہم اپنے ورثے کو کہیں نہ کہیں سنبھالے ہوئے ہیں۔ ماضی میں بچوں کو پاکٹ منی یعنی جیب خرچ ملتا تو وہ اسے بچا بچا کر رکھتے تھے کیونکہ گھر کے بچوں میں ہی مسابقت ہوتی تھی کہ کون کتنی کتابیں خریدے گا۔ اس سلسلے میں گھر کے کسی بزرگ کی رہنمائی لی جاتی، تب بزرگوں کو یقین ہوتا تھا کہ بچوں کی شخصیت کی نشوونما میں نصابی کتب کے ساتھ ساتھ معلومات کے اضافے کے لئے اخلاقی، تاریخی اور متفرق کہانیوں کا ہونا بھی اعزاز شمار ہوتا تھا، گھروں میں بک شیلف کا ہونا بھی ضروری تھا۔ ایک انگریزی کہاوت کا ترجمہ یوں ہے کہ کتابوں کے بغیر کوئی بھی گھر ایسا ہے جیسے کمرہ کھڑکیوں کے بغیر ۔‘‘ کتاب کا نام سنتے ہی صفحات کی ایک مجلد شکل تصور میں ابھرتی ہے لیکن ایک زمانے میں پتھر پر لکھی کتب دستیاب تھیں۔ 

ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا گو کہ مشکل تھا لیکن پھر بھی یہ نسل در نسل منتقل کی گئیں۔ انسان کی ابتدائی تحریر تصویروں اور نقش و نگار پر منحصر تھی۔ پتھروں سے یہ لکڑی پر منتقل ہوئیں ۔ اس کے بعد مٹی کی بنی تختیاں استعمال میں آئیں لیکن مدت حیات میں پتھر کا مقابلہ نہیں کرسکیں۔ اگرچہ ایک تکونے ہتھیار سے خوبصورت تحریریں وجود میں آئیں، 612ق ، م کی بنی ہوئی 22ہزار تختیاں’’ نینوا‘‘ سے ملیں۔ یہ اپنے وقت کا سب سے بڑا شہر تھا اور عراق کی قدیم تہذیب سمجھا جاتا تھا ۔ قدیم مصر کی تہذیب، تدوین کتب میں ترقی یافتہ تھی۔ پرندوں کے پروں سے قلم کا کام اسی دور میں لیا جاتا تھا۔ روشنائی ایک خاص قسم کے درخت ’’نرسل‘‘ کی شاخوں سے تیار کی جاتی تھی۔ درخت کے پتے بھی کام میں لائے جاتے۔ ان کتابوں کی لمبائی کئی میٹروں پر محیط ہوتی۔ کھال اور ہڈیوں پر لکھنے کا کام چین کی تہذیب سے ہوا ، سب سے پہلے کاغذ کی ایجاد پہلی صدی عیسوی میں چین میںہوئی۔ برش سے لکھنے کا کام لیا جاتاتھا۔ امت مسلمہ کی تاسیسِ نو سے کتب نویسی کی رفتار تیز ہوگئی، مسلمانوں نے کتاب کی عظیم الشان تاریخی تہذیب کو جنم دیا اور ایک ہزار سال تک اس کی پرورش کی خاصکر اندلس کے کتب خانے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ اردونیوز میں دئیے گئے موضوع حقیقتاً نسل نو کو یہ باور کرانے کے لئے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا جمود پیدا کرتا ہے۔ انسانی ذہن مشق چاہتا ہے جو غلاظت کو استحکام دیتی ہے۔

الیکٹرانک اشیاء امیوزمنٹ ہیں جو نان تھنکنگ ایکٹیویٹریز ہیں ، تحقیق کا عمل کتابوں سے ہی منسلک ہے ، انسان کتابوں میں اس طرح کھوجاتا ہے کہ اپنی کلفتیں بھول جاتا ہے، اخبار کا مطالعہ ، مطالعے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اس کے لئے صحت مندطرز عمل کی ضرورت ہے ۔اخبار کسی سے مانگ کر محض سرخیاں پڑھ لینا کافی نہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آج کوئی ادبی رسالہ 500یا 1000سے زیادہ شائع نہیں ہوتا جبکہ ماضی قریب میں بعض جرائد کی ماہانہ اشاعت 75ہزار سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ اس وقت شاعر، ادیب بھی نہایت مقبول تھے۔ آج وقت عمرگم گشتہ میں لوٹنے کا متقاضی ہے جب کتاب کو ایک قیمتی تحفے کا مقام حاصل تھا۔ معاشرے کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ مطالعہ انسان کے مشاہدات ، تجربات و خیالات میں اضافے کا باعث بنتاہے۔ انسان کی شخصیت میں واضح تبدیلی کا موجب ہوتا ہے ۔ انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’کتابیں زندگی میں آپ کی بننے والی ایسی دوست ہیں جو انتہائی وفادار اور قابل بھروسہ ہوتی ہیں ۔‘‘

مطالعہ، خود آگہی اور ماحول شناسی کا ذریعہ ہے ۔اس لئے اہل اقتدار کو عوام کو زیادہ سے زیادہ یہ سہولت دینی چاہئے ۔ کتاب و قلم سے وابستہ لوگ کبھی گمراہ نہیں ہوتے ۔کتب کی ترویج سے منفی رجحانات کا قلع قمع ممکن ہے ۔ اس ذمہ داری کی ابتداء آئیے پھر سے ماضی میں لوٹ کر دادا ، دادی، نانا ، نانی اور دوسرے بزرگوں کی کہانیوں سے کریں۔ پرائمری سے لیکر یونیورسٹی تک اس اہمیت کو اجاگر کرنا اساتذہ کا کام ہے ۔ آن لائن مطالعے سے نسل نو کی لائبریریوں تک واپسی کچھ مشکل نہیں ،بس رول ماڈل بننے کی ضرورت ہے۔ کاش، نسل نو کو پھر کتب خانوں کی عظمت کا ادراک ہوجائے ۔ تاریخ انہی قوموں کا احترام کرتی ہے جو اپنے علمی سرمائے کی حفاظت کرنا جانتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ : ’’کتاب مرقوم علم ہے ، قرطاس پر متر شح دانائی ہے ، الفاظ میں سمٹی آگہی ہے ، حقائق کا مرقع ہے ، روشنی بکھیرتی روشنائی ہے ‘‘

شیئر: