Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں سے زیادتی: ’کتنے ٹرینڈ چلانا ہوں گے؟‘

سوشل میڈیا صارفین جنسی زیادتی کے مجرموں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو میں سات سالہ بچی مدیحہ کو جنسی زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کرنے پر ایک بار پھر سوشل میڈیا پر مجرموں کی سزا کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے۔
اتوار کو ہنگو کے علاقے سروخیل میں سات سالہ بچی مدیحہ کی تشدد زدہ لاش کھیتوں سے ملی تھی جسے چند روز قبل اغوا کیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا صارفین جنسی زیادتی کے مجرموں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ جنسی زیادتی کے مجرموں کی سزا کا قانون کہاں ہے؟
سوشل میڈیا پر WhereIsRapistLaw#  اس وقت ٹاپ ٹرینڈ ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں قومی اسمبلی نے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے مجرمان کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کیا تھا جس کی کچھ صارفین نے حمایت جبکہ بعض نے مخالفت کی تھی۔
اب ایک بار پھر سوشل میڈیا پر جنسی زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
محمد خالد نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’کہاں ہیں اب وہ جو جنسی زیادتی کے مجرم کی سرعام پھانسی کی قرارداد کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان بھیڑیوں کو سبق سکھانے کے لیے سرعام پھانسی کے علاوہ کوئی اور سزا اتنی موثر نہیں۔‘
ایک اور صارف انجینیئر شمریز نے لکھا کہ ’ایک اور معصوم بچی کے لیے ایک اور ٹرینڈ۔ ہمیں اس گھناؤنے جرم کو روکنے کے لیے کچھ کرنے سے پہلے اور کتنے مزید (ٹرینڈز) دیکھنا ہوں گے۔ اور ابھی تک کچھ لوگ مجرم کی سرعام پھانسی کے خلاف ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر جہاں صارفین جنسی زیادتی کے مجرموں کے لیے موثر قوانین نہ ہونے پر غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں وہیں کچھ صارفین نے ملک میں موجود قوانین پر اطمیان کا اظہار کیا۔
اے بی ایچ کھوکھر نامی صارف نے لکھا کہ ’قانون موجود ہے، سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔ سات سالہ زینب کے قاتل کو پکڑا گیا، عدالت میں مقدمہ چلا اور پھر سزائے موت دی گئی۔‘
ایک اور صارف ثانیہ شاہ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’کبھی زینب تو کبھی مدیحہ، آخر ہم کب تک اس گھناؤنے جرم پر ٹرینڈز چلاتے رہیں گے؟ کیا مجرموں کو عبرت کا نشانہ بنانے کے لیے ہم عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتے؟‘

شیئر: