Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کتاب اور طالب علم ،جیسے روح اورجسم

کتاب ہماری تنہائی کی ساتھی ہے، روشنی کی کرن بن کر ڈھارس بندھاتی ہے،انسان اور کتاب کا رشتہ انتہائی قدیم ہے جتنا انسانی تہذیب و تمدن کا سفر 

 

عنبرین فیض احمد ۔ ریاض

کسی مفکر کا قول ہے کہ اگر دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسرے دن گفتگو میں وہ شیرینی باقی نہیں رہتی یعنی انداز تکلم تبدیل ہوجاتا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ کتابوں کے مطالعے سے ہمیں ٹھوس دلائل دینے اور بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ آج کے دور میںجو بھی ترقی ہورہی ہے وہ مرقوم علم اور کتابوں کی بنیاد پر کی جارہی ہے ۔ کتب بینی نے انسان کی معلومات میں رفتہ رفتہ اس قدر اضافہ کردیاہے کہ آج کے انسان کے لئے کوئی کام ناممکن نہیں رہا۔غرض کتب بینی سے حیات و موت اور دنیا و آخرت ساری چیزوں کا پتہ چلتا ہے اور یہی ہماری کامیابی کا ذریعہ ہے۔

جدید دور میں اگرچہ مطالعے کے لئے نئے نئے ذرائع متعارف کروائے گئے ہیں اور پھر ٹیکنالوجی کے باعث علم کے حصول میں انقلاب برپا ہوچکا ہے مگر یہ کہنا غلط نہیں کہ کتابوں کی دائمی اہمیت و افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہے اور اس میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اور کتاب کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ قدیم ہے۔کتب بینی کا فائدہ تو اپنی جگہ ہے۔ یہ جذبۂ عمل کو ترغیب دیتا ہے۔کتاب انسان کو عملی میدان میں گامزن ہونے کی ترغیب دیتی ہے اور اسی اعتبار سے کتاب ہماری صرف رفیق تنہائی ہی نہیں بلکہ ہمارے حال اور مستقبل کی بھی محسن ہے۔

اچھی کتابوں کا مطالعہ انسان کو مہذب بناتا ہے ، شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتا ہے۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کرواتی ہے ۔ کتب بینی کے شائقین تسکین قلب کے لئے کتب خانوں کارخ کرتے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر محلے میں عوامی کتب خانے قائم کئے جائیںجہاں تمام موضوعات پر کتب موجود ہوں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس نام نہاد جدید دور میں ہماری آنے والی نسلوں پرعلم کے دریچے ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیں گے اور جس معاشرے میں علم کے دریچے بند ہوجائیں وہاں صرف جہالت ، اندھیرا اور پسماندگی چھاجاتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں آج انٹرنیٹ کے دورمیں بھی کتابیں پڑھنے کے رجحان میں غیرمعمولی کمی نہیں ہوئی ۔ وہاں زیادہ تر گھروں میں کتابوں کا کچھ نہ کچھ ذخیرہ دکھائی دیتا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب ان کی ضروریات زندگی میں شامل ہے ۔ کتابیں تو ہماری محسن و غم خوار ہیں ، گوشۂ تنہائی میں ہمارے لئے ایک بہترین انیس ثابت ہوتی ہیں۔ اسی کے مطالعے سے ہم بلند پایہ مصنفوں کے خیالات ، عظیم شعراء کے کلام اور بزرگوں کے حالات ِ زندگی کے بارے میں جان پاتے ہیں جو ہمارے لئے علم کی لازوال دولت محفوظ کرگئے۔ان ہستیوں نے دنیا کو دیکھا ، پرکھا، دنیا کی تلخیوں کے گھونٹ پئے، ملکوں ملکوں کی مسافرت طے کی، قوانین قدرت کا مطالعہ کیا اور پھر برسوں کے غور و فکر کے بعد فطرت کے سر بستہ رازوں کو منکشف کیا اور اپنے مشاہدات و تجربات کا نچوڑ کتابوں کی صورت میں ہمارے سامنے رکھا تاکہ ہم ان مشاہدات و تجربات سے مستفید ہوسکیں ۔ کراچی میں منعقد ہ کتابی میلے کی تصویر میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتابوں کی اہمیت تو اپنی جگہ ہے جب کہ ٹیکنالوجی ہرروز نئی نئی شکلوں میں ظاہر ہو رہی ہے ۔

ان کی فہرست بہت طویل ہے۔یہ حقیقت ہے کہ کتابوں کے مطالعے سے کوئی بھی صاحب ِ عقل انکار نہیں کرسکتا ۔ مغربی مماملک میں آج کے دور میں بھی کتابیں لکھنے اور پڑھنے کا رواج عام ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے انسان بڑھاپے کی طرف جاتا ہے، اس کے دماغ کے خلئے کمزور ہوجاتے ہیں تاہم اگر انسان مطالعہ کرتا ر ہے تو اس کے دماغ کی ورزش ہوتی رہتی ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جب کہ ای باکس، ای ریڈر اور لیپ ٹاپ پر مطالعے سے ہماری صحت متاثر ہوتی ہے، ان آلات کے زیادہ استعمال سے دماغ پر زور پڑتا ہے اور ہم جلد تھک جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں نیند آنی شروع ہوجاتی ہے ۔

ان الات کی شعاعیں انسان کے دماغ کو تھکا دیتی ہے جب کہ کتاب کے مطالعے میں ایسا نہیں ہوتا ہے جب ہم کسی بھی دلچسپ کتاب کا مطالعہ کررہے ہوتے ہیں تو دل یہ چاہتا ہے کہ کتاب کو ختم ہی کرلیا جائے اور ہم صفحہ بہ صفحہ پلٹے جاتے ہیں اور کب کتاب ختم ہوجاتی ہے ہمیں اس بات کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ سچ یہ ہے کہ کتاب کی اہمیت ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔ دنیا کی کوئی بھی ایجاد کتاب کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے نونہالوں کو جو کل کے معمار ہیں، کتب بینی کا عادی بنائیں۔ان کے لئے اپنے قائدین کے حالات زندگی کے بارے میں جاننابہت ضروری ہے اورایسا تب ہی ممکن ہے جب وہ کتابوں کا مطالعہ کریں۔کہتے ہیں کتاب اور طالب علم کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے ایسا جیسے روح اورجسم کا۔ مگر کچھ عرصے سے یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں نوجوان کتابوں سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ انٹرنیٹ ، کیبل، جدید موبائل وغیرہ ہیں ۔ انہوں نے آج کے نوجوانوں کو باکل تنہا کردیا ہے۔

ان کی بجائے اگر ہم انہیں مطالعے کی طرف راغب کریں تو ہماری زندگی یکسرتبدیل ہوسکتی ہے۔ اچھی کتابیں زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ ادب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے ۔ ذہن پر خوشگوار اور صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔مطالعے سے انسان کے اندر مثبت اور مضبوط سوچ پیدا ہوتی ہے ۔ اسی لئے آج کے دور میں ماہرین نفسیات بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل کے تناظر میںبچوں کے لئے کتابوں کا مطالعہ لازمی قرار دے رہے ہیں تاکہ بچے فضول قسم کے مشاغل سے محفوظ رہ سکیں۔ کتاب وہ واحد سہارا ہے جو اس وقت بھی ساتھ رہتی ہے جب سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ کتاب ہماری تنہائی کی ساتھی ہے۔ جب رنج و الم کے گہرے بادل ہماری زندگی کو تاریک کردیتے ہیں تو یہ روشنی کی کرن بن کر ہماری ڈھارس بندھاتی ہے ۔

شیئر: