Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خوشامد:بے لوث پن سے شروع ،مطلب برآری پر ختم

آج کل دنیا بھر کے ترقی یافتہ، ترقی پذیر، پسماندہ اورترقی سے ناآشنا، سبھی ممالک کی اکثر سیاسی شخصیات نے سیاسی دنگل جیسے فن میں مزید رنگ بھرنے کا کام شروع کر رکھا ہے

 

صبیحہ خان۔ ٹورانٹو

آج کے خودغرض اور مادیت پسند دور میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی۔کچھ اگر مفت ملتا ہے تو بن مانگے کے مشورے اور ٹوٹکے ضرور مل سکتے ہیں ۔ آپ کسی کے سامنے ذرا اپنی پریشانی ، الجھن یا مسئلہ بیان کرکے دیکھیں ، جواباً آپ کوایسے ایسے قیامت کے مشورے سننے کو ملیں گے کہ آپ کو اپنی عقل پرسر پیٹنے کو دل چاہنے لگے گا۔آپ خود ہی یہ کہنے پر مجبور کر دیئے جائیں گے کہ لوجی جسے مسئلہ سمجھا جارہا تھا اس کی حقیقت تو ذرا سی نکلی ۔ مشورہ دینا بہت سے لوگوں کا دل پسند مشغلہ بھی ہوتا ہے۔ چاہے ان کے مشورے فائدے کے بجائے دوسرے کو نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اس بات کے منتظر بھی رہتے ہیں کہ آپکا کوئی کام بگڑ جائے تاکہ وہ یہ طعنہ دے سکیں کہ ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنے کو ملتامگر آپ تو خود کو ہی عقلَ کل سمجھتے ہیں، اب تنہا ہی بھگتو۔ کچھ مشورے اور ٹوٹکے ایسے ہیں جو ہمارے دل میں بھی کلبلاتے ہیں جو ہم بہت سے لوگوں کو دینا چاہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ یہ بہت سے لوگوں کیلئے اکسیر بھی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ جو پہلے سے ہی ہمارے ان مشوروں پر عمل پیرا ہیں وہ تو خیر سے دھڑا دھڑ کامیابی و کامرانی کے زینے طے کرتے جارہے ہیں۔ چاپلوسی اور سفارش ایسا ہتھیار ہے کہ اس کے ذریعے آپ ایک ہی جست میں کامیابی کے تمام زینے چڑھ سکتے ہیں ۔دنیاوی اعتبار سے ا یک کامیاب زندگی گزارنے کے لئے جہاں دیگر لوازمات ضروری ہیں وہیں خوشامد اور چاپلوسی بھی ازحد ضروری ہے۔ اگر آپ خوشامد اور چاپلوسی میں ڈگری یافتہ ہیں تو پھر آپ کو کسی اور ڈگری کی کم ہی ضرورت پڑے گی۔ اس کی بدولت آپ کی زندگی کے تمام راستے خاصے روشن رہیں گے۔ ہمارے ہاں سیاست میں خوشامدی لوگوں کی بہت بھرمار ہے۔

سیاستدانوں کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کی ساری زندگی انکی خوشامد اور خوشنودی حاصل کرنے میں گزرجاتی ہے، تب کہیں جاکر ان کے پورے خاندان کو اس کا صلہ وزارتوں کی شکل میں ملتا ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی کا کوئی موسم ہوتا ہے نہ کوئی رنگ و بو اور نہ ہی کوئی کلیہ قاعدہ، یہ بے اختیار چیز ہے اور بے لگام ، جو بے لوث پن سے شروع ہوتی ہے اور مطلب برآری پر ختم ہوتی ہے۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ اس پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ۔ بہت سی ضرب المثل بھی خوشامد کی افادیت کو ظاہر کرتی ہیں مثلاً جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا۔’’ یس باس، یس سر ،جی جناب! جو آپ کہیں گے وہی ہوگا‘‘جیسے الفاظ کانوں میں رس گھولتے ہیں ۔ افسران کو قابو کرنے کیلئے پہلے ان کی تعریف و توصیف کی آہستہ آہستہ ،مدھر، میٹھی میٹھی بین بجائیے ۔ جب یہ صاحبان چاپلوسی کے پھندے میں گرفتار ہونے لگیںتو سمجھ لیجئے کہ یہی وقت ہے بڑے بڑے کام نکلوانے کا۔ اس موقع پرہاں میں ہاں ملانا بھی انتہائی کارگر ثابت ہوتا ہے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ رشوت، سفارش ، کرپشن ، خوشامد،چاپلوسی، جھوٹ اوربددیانتی سے کوئی شعبہ محفوظ نہیں ۔ یہاں تک کہ ادبی دنیا بھی اس سے متاثر ہے جہاں اب صلاحیتوں اور ہنر سے زیادہ پسند، ناپسند اور خوشامد و چاپلوسی کا ہنر زیادہ اپنا یا جاتا ہے اور اس کی بدولت راتوں رات ادیب ، شاعر نمودار ہونے لگتے ہیں ۔آج کل نام و شہرت کے بخارمیں سبھی مبتلا ہیں۔ طلبِ شہرت بھوت بنکر سب پر سوار ہے۔

اگر عورتوں کے علاوہ کسی مرد کو بھی بہت زیادہ بولنے کی بیماری ہو اورلوگ یا اہل خانہ یا اہل محلہ اس کی بک بک سے تنگ آچکے ہوں تو اس کے لئے آسان سا مشورہ یہ ہے کہ اس کی شادی کرادیجئے۔ شادی کے بعد اچھے اچھوں کی بولتی بند ہوجاتی ہے ۔ اگر یہ ڈھیٹ شخص شادی کے بعد بھی زیادہ بولنا نہ چھوڑے تو پھر اس کی دوسری شادی کرادیجئے یقین جانئے جو کام آپ نہیں کرسکے ،وہ دوبیویاں باہمی اتحاد سے کرڈالیں گ ی اور میاں جی کو چپ کرادیں گی۔ گاہے یہ چُپ ’’دائمی‘‘ بھی ہو جاتی ہے ۔ ہمارے ایک کزن نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ آپی اگر میری شادی میری پسندیدہ جگہ نہ ہوئی تو میں جان سے گزر جاؤں گا۔ ہم نے ان کی انتہا پسندی دیکھ یہی مشورہ دیا کہ بھائی دیر مت کرو،جلد از جلد جان سے گزرجاؤ کیونکہ شادی کے بعد روز روز مرنے سے تو بہتر ہے کہ انسان کا کام ہی تمام ہوجائے اور غمِ دوراں سے نجات مل جائے ۔ آخر ہمارے کزن نے ہمارے مشورے پر عمل کر ہی ڈالااورشادی کرلی۔ اب وہ ہر روز روتے دھوتے، سرپیٹتے اور جھینکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے سادہ اور معصوم عوام ’’سیاسی دنگل ‘‘کو محض سیاستدانوں کا پسندیدہ فن سمجھتے ہیں ۔

آج کل دنیا بھر کے ترقی یافتہ، ترقی پذیر، پسماندہ اورترقی سے ناآشنا، سبھی ممالک کی اکثر سیاسی شخصیات نے سیاسی دنگل جیسے فن میں مزید رنگ بھرنے کا کام شروع کر رکھا ہے ۔ یقین جانئے اگر مذکورہ سیاستدان زبانی دنگل کے علاوہ باکسنگ ، ریسلنگ اور جوڈوکراٹے کی تربیت بھی حاصل کرلیں تو یقینا ان ممالک کے عوام کویہ سیاسی دنگل خاصی تفریح فراہم کرے گا اور لوگ عامر کی دنگل اور سلمان کی سلطان بھول جائیں گے ۔

ہمارے وطن عزیز میں سیاست کرنا آسان نہیں ۔پی ٹی آئی کے سربراہ کوانکے مخالفین کہتے ہیں کہ ان کو سیاست کرنا نہیں آتی اور وہ وزارت کے خواب دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خانصاب کو سیاست میں قدم رنجہ فرمائے ہوئے کافی عرصہ ہوچکاہے لیکن ابھی تک وہ سیاست کے اسرو روموزسے ناآشنا ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سیاست کو اتنا نہیں جانتے جتنا وہ کرکٹ جانتے تھے ۔ معتدل سیاسی ذہن رکھنے والے کہتے ہیں کہ جن کو مصلحت پسندی ، خوشامد ، چاپلوسی ، جھوٹ کو سچ بنانے کا فارمولہ،سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنانے کے گُن نہیں آتے، وہ سیاست میںکیا خاک نام کمائیں گے؟

شیئر: