کبھی کبھی لگتا ہے نا کہ یہ سب ایک ہالی وڈ کی فلم کا سین ہے۔ ایک تھرلر جس کا ایک دم سے ڈراپ سین ہوگا۔ پوری دنیا میں لوگ مر رہے ہیں۔ خیر مرتے تو پہلے بھی تھے لیکن اب کی بار شاید وجہ مشترک ہے۔
اب آپ کو یہ دلیل بھی بودی لگے گی کہ پہلے بھی تو مرنے کی ایک ہی وجوہات ہوتی تھیں۔ یورپ میں مرنے والے کے دل کا دورہ بھی اسی قدر جان لیوا ثابت ہوتا تھا کہ جس قدر پنجاب کے ایک دور افتادہ گاؤں میں رہنے والے کا۔ تب بھی دنیا میں نت نئے بچے آنے کی ایک ہی وجہ ہوتی تھی اور اب بھی وہی ہے۔ کیا بدل گیا؟ شاید سب کچھ بدل گیا۔
لوگ پہلے بھی مرتے تھے لیکن روز صبح یہ دھڑکا نہیں لگا رہتا تھا کہ موبائل کی اسکرین پر جانے کیا خبر پڑھنے کو ملے۔ سالن بھونتے ہوئے بھی چھینک آ جانے پر یوں گماں ہوتا ہے کہ جیسے زندگی کے بس نو دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ نہ جنازہ ملے گا نہ کفن۔ نہ کوئی میت کی چارپائی سے لگ کر روئے گا اور نہ ہی ڈھیروں رشتے دار لحد میں اتارنے کے لیے آگے بڑھیں گے۔ بس ایک تابوت ہو گا جو چپ چاپ زمین بوس کر دیا جائے گا۔ ایک دم سے۔ بس فٹافٹ!
مزید پڑھیں
-
گول روٹی بنانے میں ماہر ڈاکٹر بہوNode ID: 453736
-
پچھتاوے سے بچنا ہے تو کتاب پڑھ لیںNode ID: 459181
-
ہم نے کون سے حفاظتی اقدامات کر لیے؟Node ID: 464786
اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس ظالم کورونا وائرس کا کوئی توڑ نہیں۔ شاید سانپ کے کاٹے کو پانی مل جائے لیکن اس جان لیوا بیماری کا ڈسا ایک ایک سانس کو ترسے گا۔ مرنے سے پہلے ہی جسم سے جان نکلنے لگے گی۔ سانس لینا اس قدر دشوار ہو گا کہ جیسے میلوں اونچا پہاڑ چڑھنا ہو اور وہ بھی بغیر سستائے۔
کہہ رہے ہیں کہ بہت سے لوگ بچ بھی جائیں گے۔ لیکن یہ کون جانے کہ قرعہ کس کے نام نکلے۔ اگر انسان کو یہ معلوم ہو کہ تین سو لوگوں میں سے صرف چھ مریں گے تو اس کو موت کا منظر کیوں نہ دکھائی دے؟ کون جانتا ہے کہ وہ تین لوگ کون ہیں۔
اس ظالم کا کوئی علاج تو ہے نہیں۔ بس یہی حل ہے کہ خود کو تمام دنیا سے تنہا کر لیا جائے۔ لوگوں سے میل جول پر مکمل پابندی ہو۔ گھر سے نکلنے سے اجتناب کیا جائے۔ ہاتھ بار بار دھوئے جائیں۔ ہر کسی سے فاصلہ رکھا جائے۔
ہمیں گھر بیٹھے کوئی بارہواں دن ہونے کو ہے۔ جی گھبراتا تو ہے لیکن کیا کیجئے کہ کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں اپنے جینے مرنے پر تو خاص فرق نہیں پڑتا کہ اب کچھ سیکھنے، دیکھنے کی تمنا نہیں ہے لیکن اس بات سے جی ہول جاتا ہے کہ ہمیں پاکستان سے کوئی بھی خبر سننے کو ملے۔ ماں باپ کی فکر کھائے جاتی ہے۔
ان کو فون کرنا بھی کم کر دیا ہے کہ جب بھی بات ہو تو کچھ ایسا سننے کو ملتا ہے کہ دل ڈول بھی جاتا ہے اور کانپتا بھی ہے۔ جب سننے کو ملتا ہے کہ چچیرے بھائی کا بیاہ اسی تاریخ کو ہو گا جس دن مقرر ہے، ہمسائیوں کے ہاں آیت کریمہ کا ختم ہے جس میں کئی لوگ آئیں گے، انگلینڈ سے کچھ رشتے دار نہ صرف پاکستان آئے ہیں بلکہ ان کے گھر آنے کو بھی پر تول رہے ہیں، لاک ڈاون میں ہی سب مل جل رہے ہیں کہ عام دنوں میں تو یہ موقع نہیں ملتا۔ تو یقین مانیے دل کو ٹھیس سی پہنچتی ہے۔

ہماری وہ عمر ہے کہ اب اپنے ہی والدین اپنی اولاد لگنے لگتے ہیں۔ ان کی ذرا سی تکلیف پر کئی طرح کے خیالات آنے لگتے ہیں۔ کورونا مردود یوں بھی ساٹھ کے پیٹے سے اوپر کے لوگوں کے لیے زیادہ جان لیوا ہے تو ہمارا دل تو ڈولے گا نا۔
جیسے ماؤں کو اپنے بچوں پر غصہ آتا ہے جب وہ سخت سردی میں بھی آئس کریم کھانے سے باز نہیں آتے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ یہ نہیں چاہتی کہ بچے اپنی من پسند چیز نہ کھائیں۔ بلکہ وہ یہ جانتی ہے کہ اس کے ثمرات کیا ہوں گے۔ اس سے کیسی تکلیف جنم لے گی۔ گلا شدت سے دکھے گا۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔
یہ تکلیف ہماری ہی نہیں بلکہ ہمارے کئی ہم عصروں اور ہم سے کم عمر لوگوں کی ہے۔ ان سب کو یہی گلہ ہے کہ ان کے گھر والے کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ اپنا خیال نہیں رکھ رہے۔ انٹرنیٹ پر اندرون لاہور، لیاری، اور ٹینچ بھاٹہ بازار کی تصویریں آتی ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ان سب لوگوں کو یہ احساس کیوں نہیں کہ ہر شخص ایک چلتا پھرتا ٹائم بم ہے۔ یہ گھر کیوں نہیں بیٹھتے؟ اب تو حکومت نے لاک ڈاون بھی کر دیا ہے۔
آج کل بہت تنہائی ہے۔ وقت بھی بے پناہ ہے۔ جب غصہ آتا ہے تو اسی کیفیت پر غور کرنے کے لیے بھی فراغت کے کئی پل ہیں۔
ہم سمندر پار لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے وطن میں بیتا وقت بھول جاتا ہے۔ اپنا آپ عقل کل لگنے لگتا ہے۔ ہر کسی کو ایک ہی آنکھ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہمیں اپنے ہی لوگوں کی نفسیات اور مسائل محض ان کے ذہن کی اختراع لگنے لگتے ہیں۔

جس معاشرے کی بنیاد ہی لوگوں سے تعلقات اور ان کی رائے پر رکھی جائے وہاں قرنطینہ کیسے ممکن ہے؟ جہاں شادی کے کھانے میں نمک کم ہو جانے پر برادری میں ناک کٹ جائے وہاں کوئی اپنے ہی بھتیجے کی شادی میں جانے سے کیسے انکار کر پائے؟ جہاں انسان کی اپنی نظروں میں عزت بھی ارد گرد کے لوگوں کی رائے پر منحصر ہو وہاں یہ کیسے گمان کیا جائے کہ لوگ خود کو سب سے جدا کر کے گھروں میں بیٹھ جائیں گے؟
ہمارے ہاں تو اچھے خاصے کھاتے پیتے گھروں میں بھی بہت سے لوگوں کے پاس یہ سہولت نہیں کہ ہر بچے کا علیحدہ کمرہ ہو کہ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک حد تک بھی ہی مل سکتی ہے۔ ایک گھر میں کئی کئی افراد مقیم ہیں۔ جہاں ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اپنے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے نہ کسی کو جوابدہ ہیں اور نہ ہی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہیں وہیں ہمارے ہاں اگر گھر میں ایک بھی شخص کو کورونا وائرس ہو جائے تو اس مریض کی بھی یہی خواہش ہو گی کہ اس کو دیسی مرغ کی یخنی بنا کر پلائی جائے۔ سب اس کے آگے پیچھے ہوں۔ جس نے اس سے انکار کیا اس کے لیے تمام عمر کی لعنت تیار ہے۔
مانا کہ ہماری معیشت کی صحت بھی کچھ ایسی ہی ہے جیسا کہ ایک عالم نزع میں ہچکیاں لیتے کورونا وائرس کے مریض کی۔ لوگوں کے ہاں کھانے کے لالے پڑے ہیں تو کوئی کب تک گھر بیٹھ کر موت سے بچے۔ جس شخص کا ہر دن موت سے جدوجہد ہو اسے موت کا کیا ڈر ہو۔ وہیں معاشرتی قیود اور بوسیدہ اقدار بھی کورونا سے بچاؤ کی تدبیروں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔
اس لیے یہاں نہ صرف یہ وائرس تیزی سے پھیلے گا بلکہ یوں جانیں چوسے گا کہ جیسے جونک خون چوستی ہے۔ انسان مرتے رہیں گے لیکن اقدار اور افلاس زندہ رہیں گی۔
