Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ای احمد،ایک ملی رہنما

 
 ای احمد اردو یا ہندی بولنے پر قادر نہیں تھے ، انہوں نے بطور ممبرپارلیمنٹ انتہائی سرگرم زندگی گزاری، وہ مسلسل ملی مسائل پر حکومت کو متوجہ کرتے رہے
 
معصوم مرادآبادی
 
انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر ای احمد کے اچانک انتقال سے مسلمانوں میں شدید رنج وغم کی لہر ہے۔ خاص طورپر جنوبی ہند کی ریاست کیرلہ میں سوگ کا ماحول ہے۔ ان کا تعلق کیرلہ ہی سے تھا، جہاں انہوں نے 1967ءمیں سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ وہ 1967ء سے 1987ءتک لگاتار 20برس کیرلہ اسمبلی کے ممبر رہے اور انہوں نے کیرلہ کابینہ میں وزیر تجارت کے طور پر بھی ذمہ داریاں انجام دیں۔ سرکردہ ممبرپارلیمنٹ کے طورپر وہ گزشتہ 25برس سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے ۔ انہوں نے ملی مسائل کو حل کرنے میں ہمیشہ دلچسپی لی اور ہر مشکل وقت میں ملت کے کاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑے رہے۔ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن سے قبل دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں ان پر دل کا شدید دورہ پڑا۔ انہیں فوری طورپر اسپتال پہنچایاگیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں انتہائی نگہداشت والے شعبے میں منتقل کرکے کسی سے بھی ان کے ملنے پر پابندی لگادی۔ یہاں تک کہ ان کی اکلوتی بیٹی 3 گھنٹے تک ڈاکٹروں کی منت سماجت کرتی رہی لیکن انہیں اپنے والد سے نہیں ملنے دیاگیا۔ خیال کیاجاتا ہے کہ ای احمد کا انتقال دل کا دورہ پڑنے کے کچھ دیر بعد ہی ہوگیا تھا لیکن ڈاکٹروں نے حکومت کی ایما ء پر اس کا اعلان نہ کرنے کا فیصلہ لیا ۔ درحقیقت اگلے روز پارلیمنٹ میں قومی بجٹ پیش ہونا تھا اور حکومت کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر ای احمد کے انتقال کی خبر عام کردی گئی تو بجٹ کی پیشی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے ۔ بعد کو اپوزیشن کے اراکین نے یہ معاملہ لوک سبھا میں بھی اٹھایا۔ کانگریس کے لیڈر ملک ارجن کھڑگے نے الزام عائد کیاکہ ای احمد کی موت اسپتال لے جاتے وقت ہی ہوگئی تھی اور جان بوجھ کر یہ بات چھپائی گئی۔ ای احمد کے سیکریٹری نے بھی الزام لگایا کہ اسپتال کے حکام نے شروع سے ہی کچھ چھپانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ مسٹر احمد کے بیٹے اور بیٹی کو کافی تاخیر کے بعد ملاقات کی اجازت دی گئی۔اس معاملے میں اپوزیشن اراکین نے باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کہ ایک سینئر ممبرپارلیمنٹ کے انتقال پر حکومت نے سردمہری کا رویہ کیوں اختیار کیا اور ان کے انتقال کی خبر چھپاکر کیوں رکھی گئی۔ اس معاملے میں اسپتال پر جانبداری برتنے کے الزام میں پولیس رپورٹ بھی درج ہوچکی ہے۔ 
ای احمد 1991میں پہلی بار کیرلہ سے پارلیمنٹ کے ممبر چنے گئے تھے اور جب سے اب تک لگاتار وہ کامیاب ہوتے چلے آرہے تھے۔ ان کی پارٹی انڈین یونین مسلم لیگ کیرلہ کی ایک طاقتور جماعت ہے جو وہاں کے مسلمانوں کی کامیاب نمائندگی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ کیرلہ اسمبلی میں ہربار مسلم لیگ کے دودرجن سے زائد ممبران منتخب ہوکر آتے ہیں۔ ریاست میں مسلم لیگ کا سیاسی اشتراک کانگریس پارٹی کی قیادت والے متحدہ محاذ سے ہے اور جب بھی کیرلہ میں اس محاذ کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو مسلم لیگ بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔ مسلم لیگ کے کوٹے سے حلف لینے والے وزیروں کو تعلیم اور تجارت جیسے اہم شعبے ملتے ہیں ۔ کانگریس سے اسی اشتراک کی بنیاد پر مرکز میں بھی مسلم لیگ یوپی اے میں شامل رہی ہے اور یوپی اے کے گزشتہ 10سالہ دور اقتدار 2004 تا 2014ءکے دوران ای احمد کو مرکزی وزارت میں جگہ ملی۔ انہوں نے وزارت خارجہ ، وزارت تعلیم اور وزارت ریل جیسے محکموں کی ذمہ داریاں وزیر مملکت کے طور پر انجام دیں۔ 
کیرلہ میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنا مسلم لیگ کی مجبوری رہی ہے اور اس مجبوری نے مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے لئے کچھ مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ 80کی دہائی میں مسلم لیگ کے قومی صدر ابراہیم سلیمان سیٹھ اور جنرل سکریٹری غلام محمود بنات والا ہوا کرتے تھے۔ سیٹھ صاحب کا تعلق کرناٹک اور بنات والا کا مہاراشٹر سے تھا ۔ یہ دونوں ہی قائدین مسلم حلقوں میں خاص مقبولیت رکھتے تھے اور اسی مقبولیت کے سبب مسلم لیگ انہیں کیرلہ کے پونانی اور منجیری حلقوں سے بھاری ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ کامیاب کراکے پارلیمنٹ پہنچاتی تھی۔ دونوں ہی ارکان ملی مسائل کو بڑی شد ومد کے ساتھ پارلیمنٹ میں اٹھاتے تھے لیکن 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلم لیگ کی مرکزی اور صوبائی قیادت میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے کیونکہ اس وقت کیرلہ مسلم لیگ صوبائی حکومت میں کانگریس کے ساتھ اقتدار میں شریک تھی لیکن مرکزی قیادت اور خاص طورپر ابراہیم سلیمان سیٹھ یہ چاہتے تھے کہ وہ کانگریس کی حمایت سے دستبردار ہوجائے کیونکہ کانگریس پارٹی نے بابری مسجد کی شہادت کے لئے راہ ہموار کی تھی ۔ یہ اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ ابراہیم سلیمان سیٹھ کو مسلم لیگ کی صدارت سے ہاتھ دھونا پڑا اور یہ ذمہ داری 1993ءمیں غلام محمود بنات والا کو سونپی گئی۔ 1993ءمیں جب بنات والا کو مسلم لیگ کا صدر چنا گیا تو ای احمد دہلی سے کچھ چنندہ صحافیوں کو کیرلہ لے گئے تھے جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ بنات والاکا بطور صدر کالی کٹ میں شاندار استقبال ہوا اور ان کے اعزاز میں جگہ جگہ جلسے جلوس ہوئے۔ اس وقت کیرلہ میں مسلم لیگ کی عوامی مقبولیت کا ذاتی طورپر مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ 2008ءمیں بنات والا کے انتقال کے بعد مسلم لیگ کی صدارت ای احمد کو سونپی گئی اور تب سے وہ مسلسل یہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ مسلم لیگ کو کیرلہ کی طرح شمالی ہند میں بھی مقبول عام بنایاجائے اور یہاں کے مسلمان بھی کیرلہ کی طرح مسلم لیگ پر اعتماد کریں۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے یوپی اور بہار کے دورے بھی کئے لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ زبان کا مسئلہ تھا کیونکہ ای احمد اردو یا ہندی بولنے پر قادر نہیں تھے اور عوامی جلسوں میں وہ انگریزی میں تقاریر کیاکرتے تھے۔ ای احمد نے بطور ممبرپارلیمنٹ انتہائی سرگرم زندگی گزاری ۔ وہ مسلسل ملی مسائل پر حکومت کو متوجہ کرتے رہے ۔ انہوں نے مرکز میں سب سے زیادہ عرصہ امور خارجہ کے وزیر مملکت کے طورپر گزارااور اس دوران عازمین حج کے مسائل حل کرنے میں خاص دلچسپی لی۔ اس کام میں انہیں سعودی عرب میں مقیم کیرلہ کے ان باشندوں سے بڑی مدد ملی جو سعودی عرب میں عازمین حج کی خدمت کے لئے بے لوث مہم چلاتے ہیں۔ مجموعی طورپر ای احمد نے اپنی پوری زندگی قومی اور ملی خدمت میں صرف کی اور وہ کبھی اپنے مقصد سے غافل نہیں رہے۔ 
******

شیئر: