Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گر جناح 20 برس اور رہتے

 
 
ہند وستان کو اندازہ تھا کہ الحاق کا فیصلہ مشکوک حالات میں ہوا ہے لہذ ا ہندوستانی وزیر اعظم و وزیرخارجہ پنڈت نہرو کو وعدہ کرنا پڑا
 
 وسعت اللہ خان 
 
بچپن سے آج تک میں نے جتنے بھی خاص و عام لوگوں کو تحریکِ پاکستان یا بعد از قیامِ پاکستان کے موضوع پر سنا ان میں سے 99 فیصد درمیان یا آخر میں ضرور کہتے ہیں کا 72 سالہ قائد اعظم چند برس اور زندہ رہتے تو شاید۔۔۔۔
تقابل میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ آزادی کے ڈیڑھ برس بعد ہندوستان گاندھی جی کی موت کا دھچکا یوں برداشت کرگیا کہ سردار پٹیل اور نہرو زندہ تھے اور 1950ء میں پٹیل کے رخصت ہونے کے بعد بھی نہرو اگلے14 برس تک حیات رہے۔یوں جو ہند تشکیل پایا اسے نہرو آئینی ، علاقائی اور بین الاقوامی استحکام دینے میں کامیاب رہے۔
چلئے بات کرلیتے ہیں کہ جناح صاحب کی وفات 11ستمبر1948ءکے بجائے 11ستمبر1968ءکو ہوتی تو کیا ہوتا اور کیا نہ ہوتا۔۔۔۔
کیامسئلہ کشمیر حل ہوجاتا ؟ 
چونکہ پاکستان کے بجائے ہند یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں لے گیا تھا اور چونکہ ہند وستان کو اندازہ تھا کہ الحاق کا فیصلہ مشکوک حالات میں ہوا ہے لہذ ا ہندوستانی وزیر اعظم و وزیرخارجہ پنڈت نہرو کو وعدہ کرنا پڑا کہ کشمیر کا حتمی فیصلہ رائے شماری سے ہوگا  اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس ضمن میں جناح صاحب کی زندگی میں دو قرار دادیں منظور کیں ( اپریل اور اگست1948ء)۔
حیرت ہے کہ جناح۔لیاقت حکومت نے جنگ بندی و رائے شماری سے متعلق یہ دونوں بنیادی قرار دادیں اقوامِ متحدہ کے چیپٹر 6 کے بجائے چیپٹر7 کے تحت منظور کروانے کے لئے زور کیوں نہیں لگایا جبکہ یہ بات دونوں بیرسٹرز کے علم میں تھی کہ اقوام متحدہ کے چیپٹر 6 کے تحت منظور ہونے والی قرار داد کی نوعیت محض سفارشی ہوتی ہے اور چیپٹر7 کے تحت منظور ہونے والی قرار داد پر اقوامِ متحدہ کے تمام ارکان کو لازماً عمل کرنا پڑتا ہے۔یہ وہ بنیادی نقص ہے جس کا ہند نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مسئلے کو چوہے بلی کا کھیل بنا کے رکھ دیا۔
پھر بھی جناح صاحب اگلے 20 برس زندہ رہتے تو اپنا مقدمہ بین الاقوامی فورمز پر بہتر دلائل کے ساتھ لڑتے اور عین ممکن ہے کہ وہ سرد جنگ میں اتحادیوں کی متلاشی مغربی طاقتوں کی مدد سے سلامتی کونسل سے چیپٹر 7 کے تحت بھی کوئی قرار داد منظور کروانے میں کامیاب ہوجاتے۔
کیا جناح صاحب آئین بنانے میں کامیاب ہوجاتے ؟ 
عین ممکن ہے جناح صاحب کی رہنمائی میں جو آئین بنتا اس میں 1940ءکی قرار دادپاکستان اور1946ءکے کیبنٹ مشن پلان کے بنیادی نکات سموئے ہوئے ہوتے۔ دفاع ، خارجہ تعلقات ، کرنسی کنفیڈرل حکومت کی ذمہ داری ہوتی اور باقی محکمے یونٹوں کے پاس ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ بظاہر مضبوط مرکز کے حامی جناح صاحب ایسا مرکز گریز آئین آخر کیوں بناتے ؟ جناح صاحب کا 1904ءتا 1947ءتک کا سیاسی سفر کسی ضدی آدمی کا نہیں بلکہ ایک لچکدار ،عملیت پسند سیاست داں کا سفر ہے لہذا جناح صاحب کنفیڈرل آئین یوں بناتے کہ انہوں نے تقسیم سے پہلے کیبنٹ مشن پلان کے کنفیڈرل گروپ فارمولے کو صرف اس وجہ سے منظور کیا تھا کہ یہ پلان متحدہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت کے سیاسی و جغرافیائی حقوق کا ٹھوس تحفظ کرتا تھا ۔ اگر کیبنٹ مشن پلان قرار دادپاکستان کی بنیادی روح سے متصادم ہوتا تو جناح صاحب اسے کیوں منظور کرتے ؟ 
ایسا کنفیڈرل آئین بنانے کی دوسری وجہ یہ ہوتی کہ پاکستان کی قومی زبان کے سوال پر جناح صاحب مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی بے چینی دیکھ چکے تھے لہذا اس طرح کی بیماریوں کا آگے چل کے تدارک ایک کنفیڈرل آئین کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ویسے بھی معمار سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ اس کی اٹھائی عمارت میں کونساشہتیر کتنا بوجھ کب تک سہارے گا۔
ایسا آئین بنانے کی تیسری وجہ یہ ہوتی کہ تقسیم کے وقت تبادلہِ آبادی کے باوجود پاکستان میں غیرمسلم آبادی 20 فیصد تھی اور جب جناح صاحب 11اگست کی بنیادی تقریر کا مسودہ لکھ رہے تھے تو ان کے پیش نظر یہ حقیقت تھی کہ جو ہم نے ایک متحدہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کے تحفظ کے لئے مانگا وہی ایک نئے پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کو بھی ملنا چاہئے چنانچہ جناح صاحب کے ہوتے ہوئے قراردادِ مقاصد کا منظور ہونا ممکن نہ تھا ( تبھی تو ان کی زندگی میں یہ قرار داد پیش نہیں ہوئی )۔ جناح صاحب کی پہلی 7 رکنی کابینہ سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ان کے ہوتے ہوئے آئین بنتا تو کیسا ہوتا۔
چونکہ پاکستان کو1948ءکی جنگ کشمیر کے علاوہ کسی اور جنگ کا تجربہ نہ ہوتا لہذا غالب امکان ہے کہ جناح صاحب کے سبب پاکستان کے پہلے اور دوسرے 5سالہ منصوبے میں صنعتی ڈھانچے کی بنیادیں رکھے جانے اور جدید زرعی اصلاحات کے بعد تیسرے5 سالہ منصوبے میں شرح افزائش کا ہدف 6تا7 فیصد سالانہ مقرر کیا جاتا اور10 کروڑ کی آبادی میں غربت کی شرح 60 فیصد سے کم ہو کر30 فیصد تک آ جاتی۔یوں ثابت ہوجاتا کہ پاکستان بننا کتنا ضروری تھا۔
اور پھر اس پاکستان میں11ستمبر1968ءکو جناح صاحب92 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوتے تو ان کے جنازے میں جانسن ، کوسیجن ، ولسن ، چو این لائی ، رضا شاہ ، شاہ فیصل اور ہندوستانی صدر ڈاکٹر ذاکر حسین ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے اور مشرقی پاکستان اسمبلی ایک متفقہ قرار داد منظور کرتی کہ قائد اعظم کا مزار دارلحکومت کراچی کے بجائے دارالحکومت ڈھاکا میں بنایا جائے کیونکہ مشرقی پاکستان میں 56 فیصد پاکستانی بستے ہیں اور1940ءکی قرار داد بھی مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔
******

شیئر: