Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسپاٹ فکسنگ کی نحوست ایک مرتبہ پھر

 
سٹے بازوں کے گڑھ کو پاکستان سپر لیگ کیلئے منتخب کرنے کا فیصلہ ہی سمجھ سے بالا تر رہاہے، اب اس تمام معاملے کو پی سی بی اور پی ایس ایل حکام جس انداز میں آگے بڑھارہے ہیں وہ بھی قومی کرکٹ کے مستقبل کیلئے خطر ناک ہے، ماہرین
 
 جمیل سراج ہاشمی۔ کراچی 
 
اسپاٹ فکسنگ کی نحوست ایک مرتبہ پھر پاکستانی کرکٹ پر لپرانے لگی ہے،یہ ایک ایسا بدنما داغ ہے جو پہلے اس کے ماتھے پر لگایا چکا ہے اوریہ بد نما داغ لگانے والے کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے کرکٹرز تھے،جب دو ہزار دس کے دورہ انگلینڈ کے دوران محمد عامر، سلمان بٹ اور فاسٹ بولر محمد آصف نے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہوکر ملک وقوم کو بدنام کیا اور خود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں،جس کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ کرکٹرز مبینہ طور پر پیسوں کے لئے پاکستان کے نام کو داغدار کرنے کی سازش میں پڑے یا قصداً ایسا کرنے پر مجبور کئے گئے ۔ اب پاکستان سپر لیگ کا دوسراایڈیشن اپنے شروعات میںہی اسپاٹ فکسنگ جیسی کرپشن کی خبروں کا زینت بنا،اسلام آباد یونائٹیڈ کے کھلاڑیوں شرجیل خان اور خالد لطیف کو مشکوک افراد سے ملاقات کرنے اور ان سے مالی معاملات طے کرنے کے الزام میں پی ایس ایل سیکنڈ ایڈیشن سے فارغ کرکے وطن بھیجا جا چکا ہے۔اس پر کرکٹ ناقدین کا کہنا ہے اس افسوسناک واقعہ کے رونما ہونے پر لگ یہی رہا ہے کہ اسپاٹ فکسنگ کا عفریت قومی کرکٹ میں سرایت کرچکا ہے، جس سے اب ان کی جان نہیں چھوٹنے والی، ناقدین نے اس کرکٹ کرپشن کو زہر قرار دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں یہ پوچھا ہے کہ کیا پی سی بی کے پاس اس زہر کا کوئی تریاق بھی ہے ؟ناقدین کا کہنا ہے” اسے سازش کا حصہ کہیں یا روائتی پاکستان دشمنی، کہ پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کے آغازپر ہی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی دلدل میں پھنسا نے کی پوری کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں دو کرکٹرز شرجیل خان اور خالد لطیف پی ایس ایل سے باہر ہوگئے ۔
اس پر کرکٹ ماہرین و ناقدین نے پورا ملبہ پی سی بی اور پی ایس ایل کے چیئرمین نجم سیٹھی پر گرادیا، سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود نے اردو نیوز سے اپنی خصوصی گفتگو میں کہا کہ اس تمام معاملے کو پی سی بی اور پی ایس ایل حکام غلط انداز میں چلارہے ہیں جو کرکٹ کے مستقبل کیلئے کسی طرح بھی درست ہے نہ سود مند، متحدہ عرب امارات پہلے ہی سٹے بازوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اس کے باوجود اس مقام کو پاکستان سپر لیگ کیلئے وینیو بنانا سمجھ سے بالا تر ہے، اس سلسلے میں پی سی بی یا پی ایس ایل حکام” بھولے “ کیوں بنے رہے ، کیا ان کو اس وینیو کی حساسیت اور ہند کے بکیز کی کسی نہ کسی طرح اس میں ملوث ہونے کے خدشے کا احتمال نہیں تھا، یہ کہنا سراسر غلط ہوگا کہ قومی کرکٹرز ہی صرف قصور وار یا ان تمام واقعات کے ذمہ دار ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی ایس ایل حکام پہلے ملوث مشکوک افراد کو مقامی پولیس کی مدد سے گرفتار کرتے، ا ن سے مکمل تحقیقات کی جاتی،اور اگر یہ کرکٹرز واقعی قصور وار ثابت ہوتے تو انہیں قوانین کے مطابق کڑی سے کڑی سزا ان کیلئے تجویز کرتے لیکن پھر وہی بات کہ بلی کے گلے میںگھنٹی کون باندھے ،محمد عامر کے معاملے میں بھی پی سی بی حکام نے غلط روائت قائم کی۔
ایک سزا یافتہ کرکٹر کواس کے تمام گناہوں سے پاک قرار دے کر قومی اور بین الا قوامی مقابلوں میں کھلانے کا پھر سے اہتمام کردیا
 ،محمد عامر کا ایک نہیں دو جرم تھا، پہلے اس نے کرکٹ میں بد دیانتی کی اور پیسہ کمایا ، اس کا دوسرا اور نا قابل معافی جرم وہ تھا جس میں اس نے ملک و قوم کے نام کو بدنام کیا، عالمی سطح پرقوم کو رسوائیوں کے دلدل میں دھکیل دیا،اس کے اس گھناونے جرم کی سزا کے طور پر تو اسے صرف ڈومیسٹک کرکٹ تک محدود رکھا جاتا، اسے عام معافی ملنے سے دیگر کرکٹرز کو گویا ایک قسم کی تقویت ملی کہ کرکٹ کھیل کر کوئی بھی بڑے سے بڑا جرم کرلینا کوئی بڑی بات نہیں،پاکستان میں تو سب کو معاف کردیا جاتا ہے،اس لئے دیگر لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ ہم نے یہ غلط روایت خود ہی قائم کی تو بے جا نہ ہوگا۔
سابق ٹیسٹ کپتان جاوید میاں داد اورسابق ٹیسٹ فاسٹ بولر سرفراز نواز نے اپنے تبصروں میں کہا جب پی سی بی حکام خود ہی غلط کو صحیح قرار دے کر ایک مجرم کے ساتھ دوبارہ سے عام کھلاڑیوں کی طرح سلوک کریں گے تو اس سے دیگر کرکٹرز کی حوصلہ افزائی تو ہوگی جو ہوئی، جس کے نتیجے میں پی ایس ایل کے آغاز میں اسپاٹ فکسنگ جیسے بد نام زمانہ کردار ”بکیز“ نے پھر سے سر اٹھانے کی جرات کرڈالی جس کے نتیجے میں دو کرکٹرز شرجیل خان اور خالد لطیف اس کی لپیٹ میں آگئے،یہاں پی ایس ایل کے چیئرمین نجم سیٹھی سے یہ سوال کیا جائے کہ جب انہیں اور ان کی پوری ٹیم کو اس بات کا علم تھا کہ یو اے ای میں لیگ کے انعقاد سے کرپٹ عناصر یقینی طور پر سر گرم ہوں گے ، لیکن اس کے باوجود اس کے وینیوز کے اطراف فول پروف سیکیوریٹی کا اہتمام کیوں نہیں کیا گیا، جرائم پیشہ افراد کو کھلی چھوٹ دے کر گویاکچے ذہن کے کرکٹرز کو ورغلانے کا موقع خود دیا گیا جس کیلئے پی سی بی کے سربراہ سمیت پی ایس ایل کے تمام کرتا دھرتا اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، ان سب کا احتساب ہونا چاہئے ، یہی وہ ذمہ دار ہیں جو قوم کے نوجوان کرکٹرز کے ساتھ پھر وہی مجرمانہ کھلواڑ کر رہے ہیں، ایسی غفلت کے مرتکب تین کرکٹرز ماضی میں بھی کڑی سزائیں بھگت چکے ہیں، ان کے ساتھ ماضی والا سلوک روا رکھ کر کئی کرکٹرز کا مستقبل تاریک اور ملک و قوم کا نام بد نام کیا گیااور نہ جانے ایسا کب تک ہوتا رہے گا، یہ دراصل وہ تلخ سوالات ہیں جن کا جواب دینے والا کوئی نہیں ۔
******

شیئر: