Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایکشن شروع

 دہشت گردوں کو مختلف طاقتوں کا بھر پور تعاون حاصل ہے اور وہ متعدد بار کچلے جانے کے باوجود نئی طاقت کے ساتھ وطن عزیز پر آفت کی طرح نازل ہوتے ہیں
 
محمد مبشر انوار
 
وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ امن عالم کے ٹھیکیدار ،اپنی ذمہ داریوں سے مجرمانہ غفلت کر رہے ہیںجس سے جنوبی مشرقی ایشیا کا خطہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور معاملات انتہائی گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں،مسلم دشمنی و تعصب میں گھری ،عالمی سیاسی افق پر بچھی شطرنج پر چلے ہوئے ایک مہرے نے نہ صرف علاقائی صورتحال میں کھلبلی مچا دی ہے بلکہ امن عالم کو شدید ترین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ افغانستان میں روسی جارحیت کے بعد امریکہ نے پرانا بدلہ اتارنے کی خاطر مجاہدین کی ایک جماعت تیار کی،روس کے حصے بخرے ہوئے تو امریکہ نے اس جماعت سے نہ صرف ہاتھ اٹھا لئے بلکہ اس مسلح گروہ کوایک مخصوص مدت تک کیلئے آزاد چھوڑ دیا۔ اس دوران بزعمِ خود افغان جہاد کرنے والے پاکستانی بزرجمہروں کو یہ خیال گزرا کہ کیوں نہ اس گروہ کو اسلام کی خدمت کے لئے استعمال کیا جائے،درحقیقت ان پاکستانی بزرجمہروں کی یہ خام خیالی یکطرفہ تھی کہ امریکہ بہادر نے جس مخصوص مدت تک کے لئے اس گروہ کو آزاد چھوڑا تھا ،اس کا مقصد ہی یہی تھا کہ جیسے ہی یہ گروہ اپنی حیثیت سے باہر نکلے ،اسے دہشت گرد اور بنیاد پرست قرار دے کر نہ صرف اس گروہ پر بلکہ اس کے سرپرستوں کو بھی آٹے دال کا بھاؤ بتا دیا جائے۔9/11وہ آخری تنکا تھا ،جس نے اس مسلح گروہ اور اس کے سرپرستوں کیخلاف امریکہ اور اس کے حواریوں کو لاکھڑا کیا،وہ دن اور آج کا دن ہے، امریکہ ’’گرم تعاقب ‘‘ کی آڑ میں جہاں دل چاہتا ہے کشتوں کے پشتے بچھائے چلا جا رہا ہے اور کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں۔ امریکہ نے تو اس مسلح گروہ کو دہشت گر د قرار دے کر ان کا قلع قمع کرنا شروع کر دیا مگر ہمارا رویہ دہری نوعیت کا رہاکہ ایک طرف تو ہم امریکہ کے حلیف بھی بنے رہے،اسے مطلوبہ افراد(دہشت گرد) بھی پکڑ پکڑ کر دیتے رہے اور ان ہی مسلح افراد کو اپنا اثاثہ بھی سمجھتے رہے،ان کی حفاظت بھی کرتے رہے،انہیں اپنی سیکنڈ ڈیفنس لائن بھی سمجھتے رہے۔
 
اس پس منظر کو دہرانے کا مقصد صرف قارئین کی یادداشت کو تازہ کرنا تھا کہ یہ آفت جو وطن عزیز پر نازل ہے ،اس میں کن کوتاہ اندیشیوں کا عمل دخل رہا ہے یا کون سے عناصر ابھی تک ایسے موجود ہیں جو اس آگ کو ختم کرنے میں ناکام ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری سول اشرافیہ ہمیشہ سے ایک ہی راگ الاپتی نظر آتی ہے کہ ڈنڈے والی سرکار نہ تو اسے کام کرنے دیتی ہے اور نہ ہی انہیں اختیارات کا استعمال کرنے دیتی ہے،یہ متھ مدتوں سے سول اشرافیہ کے دل و دماغ میں سرایت کر چکی ہے اور اس متھ کا نفسیاتی اثر ان کے دماغوں میں ایسا راسخ ہو چکا ہے کہ وہ ہر برائی کو طالع آزماؤں کے سر تھوپ کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ حقیقت کسی حد تک یہی ہے کہ 2013سے قبل تک واقعتاً فوج کا ایک واضح کردار ملکی سیاست میں رہا ہے لیکن جنرل راحیل شریف کے دور میں فوج نے نہ صرف اپنے آپ کو سیاست کی دلدل سے دور رکھا بلکہ سابقہ فوجی طالع آزماؤں کی غلطیوں کو سدھارنے کی کوششیں بھی کی ہیں،آج پاکستانی فوج نہ صرف یہ کہ سیاست سے کوسوں دور ہے بلکہ سول حکومت کے سامنے بچھے کانٹوں کو اپنے افسروں اور جوانوں کے خون کا نذرانہ دے کر چن رہی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ سول اشرافیہ ابھی تک خود کو اس قابل نہیں بنا پائی کہ ان مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی امن وامان کو مستقل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ دہشت گردی کے ناسوروں پر جس بہادری،دلیری کے ساتھ جنرل راحیل شریف نے ہاتھ ڈالا تھا اور ان کا ناطقہ بند کیا تھا،اصولاً سول حکومت کو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان گمراہ عناصر کو نہ صرف کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے تھا بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پشت پناہی بھی کرنی چاہئے تھی لیکن ہوا اس کے الٹ کہ رینجرز کے اختیارات کو حیلوں بہانوں سے تاخیر کا شکار کیا گیا،سول اداروں کا عدم تعاون اور بلاوجہ ہٹ دھرمی،گرفتار شدگان کے خلاف نا مکمل چالان ویرہ وغیرہ۔پاکستانی اشرافیہ آج بھی ،فوجی طالع آزماؤں کے ماضی کے گھناؤنے کردار کی بنیاد پر عوام کو گمراہ کر رہی ہے ،اوراندھے مقلد بنا سوچے سمجھے ہر برائی فوج کے سر منڈھنے سے گریز نہیں کرتے،مانا کہ ماضی میں کوتاہیاں ہوئیں،غلط فیصلے ہوئے لیکن آج فوج دل و جان سے ریاست میں امن و امان کی خاطر قربانیاں دے رہی ہے تو سول اشرافیہ کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ ماضی کو بھول کر آج وطن عزیز کی سالمیت و وقار کی خاطر صحیح فیصلے کریں،ماضی کو دفن کرتے ہوئے آج کی ضرورت کے مطابق ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کریں لیکن بد قسمتی سے سول اشرافیہ کی طرف سے ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آ تی ۔ 
 
اس وقت جب فوج میں اختیارات کی منتقلی زیر عمل ہے، ان عناصر کو پھر سر اٹھانے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنی بھرپور کارروائیوں سے ملک کے طول و عوض میں خون کی ہولی کھیلی،بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہوئے اپنے غیر ملکی آقاؤں کا ایجنڈا پورا کیا ہے۔ پچھلے چند دنوں میں جس طرح دہشت گردانہ کارروائیاں ملک کے ہر حصے میں ہوئی ہیں،اس کے خطرات سے سول حکومتوں کو آگاہ کر دیا گیا تھا مگر سول حکومتیں اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو پائیں بلکہ ہمیشہ کی طرح سارا ملبہ پاکستانی فوج اور اس کے ذیلی اداروں کے سر تھوپنے کی چکر میں ہیں تا کہ عوام کے دلوں میں ان کی محبت اور عزت کو کم کیا جا سکے۔ پاکستان میں بروئے کار آنے والے دہشت گردوں کو مختلف طاقتوں کا بھر پور تعاون حاصل ہے اور وہ متعدد بار کچلے جانے کے باوجود نئی طاقت اور کمک کے ساتھ وطن عزیز پر آفت کی طرح نازل ہوتے ہیں،ان دہشت گردوں کو اندرون ملک سہولت کار بھی بآسانی مل جاتے ہیں،جو ان کے لئے ہر طرح کا انتظام کرتے ہیںجبکہ ہمارے سول ادارے فقط حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے یا ان کی حفاظت کے چکر میں مصروف رہتے ہیں لہذا ان دہشت گردوں کی سرکوبی تو دور کی بات ،انہیں اندرون ملک چیک کرنے سے بھی معذور نظر آتے ہیں۔ اس پس منظر میں ،سابقہ فوجی طالع آزماؤں نے جو سیکنڈ ڈیفنس لائن تیار کی تھی،وہ آج الٹا گلے پڑی ہوئی ہے ،افغانستان ہمارا پڑوسی ہونے کے باوجود ،ہندوستان کی آشیر باد اور تعاون سے، ہمارے لئے مسلسل پریشانیاں پیدا کر رہا ہے۔ ملک میں ہونے والی کسی بھی واردات کا کھرا براہ راست افغانستان اور بالواسطہ ہندوستان سے جا ملتا ہے ،فوج یا رینجرز جتنے بھی اقدامات کرتے ہیں وہ سب کے سب بے سود ہو جاتے ہیں کہ ایک دہشت گرد گرنے کی جگہ پر10 اور بھیج دئیے جاتے ہیں۔ ریاست پاکستان مسلسل عالمی طاقتوں کو ان خطرات سے آگاہ کرتی رہتی ہے مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہ الٹا پاکستان ہی کو ’’ڈومور‘‘ کا کہتے ہیں۔ موجودہ دہشت گردی کی لہر نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا پیمانہ صبر لبریز کر دیا ہے اور پہلے مرحلے پر افغان سرحد سیل کی گئی اور دوسرے مرحلے پر ’’گرم تعاقب کرتے ہوئے افغان علاقوں میں چھپے دہشت گردوں پر ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کر کے ایک واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سالمیت کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے،اب جو ہو ،سو ہو ’’ایکشن شروع‘‘ ہو گیا ہے،دیکھیں عالمی طاقتیں اس سے کوئی ہوشمندی کا مظاہرہ کرتی ہیں یا اس خطے کو آگ کے سپرد کرتی ہیں اور کیا واقعی مسلم تعصب اور دشمنی میں معاملات کو اس حد تک جانے دیں گی۔
 

شیئر: