Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ ایک اور نیند لے لیجئے

 
ایک بار پھر فوجی عدالتیں بحال کرنے کا بھی ارمان نکال لیں،20 ، 35 ، 57 کی گنتی میں روزانہ بمباری سے بھی مارتے رہے
 
 وسعت اللہ خان
 
پاکستان ایک بار پھر پے در پے دہشت گرد لہر کی لپیٹ میں ہے۔پچھلے ایک ہفتے میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ عام شہری اور سپاہی لاہور ، سیہون ، کوئٹہ ، پشاور اور چار سدہ میں لقمہ¿ اجل بن چکے ہیں۔
جنہوں نے یہ پودا لگایا ، اسے پانی دیا اور پروان چڑھا کر درخت بنایا انہوں نے جانے کیا سوچا تھالیکن آج کی فوجی ، سیاسی اور عام انسانوں کی نسل کو ہاتھوں سے لگائی یہ گانٹھ دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہے۔
نظریہ¿ ضرورت کے تحت پھانسیاں ضرور دے لیجئے۔اس کام میں مزید تیزی لانے کےلئے ایک بار پھر فوجی عدالتیں بحال کرنے کا بھی ارمان نکال لیں۔20 ، 35 ، 57 کی گنتی میں روزانہ بمباری سے بھی مارتے رہے۔پولیس مقابلے بھی بڑھاتے رہئے۔خود پے بس نہ چلے تو آس پاس اور دور دراز کی طاقتوں پر بھی انگشت نمائی کرتے رہئے۔
یہ بھی ثابت کرتے رہئے کہ اصل مظلوم تو ہم ہیں مگر دنیا کو آخر اپنی ہی کیوں پڑی ہے، ہماری مظلومیت کیوں نظر نہیں آتی مگر ساتھ ساتھ یہ بھی غور فرماتے رہیں کہ آیا یہ سب جو آپ کررہے ہیں یا کرنے جارہے ہیں کسی طویل المیعاد حکمتِ عملی کی روشنی میں قومی سلامتی کے واضح ، ٹھوس اہداف تک پہنچنے کا سفر ہے یا پھر باسی کڑھی میں ایک اور ابال۔
بالکل16 دسمبر1971 کی طرح 16 دسمبر2014کے بعد بھی مسلسل کہا جارہا ہے کہ سانحہ پشاور نے ہم سب کی آنکھیں بلاامتیاز کھول دیں۔اس بحث میں پڑے بغیر کہ اگر آنکھیں پہلے سے کھلی ہوتیں تو دونوں16 دسمبروں کی نوبت کیوں آتی؟ عرض میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کو واقعی ادراک ہے کہ آپ اب تک کیا کرتے آئے ہیں ، کیا کررہے ہیں اور کیا کرنے جا رہے ہیں ؟ بندہ ایسے بچکانہ سوالات یوں پوچھ رہا ہے کہ کہیں آپ کل کلاں دوبارہ نہ کہہ بیٹھیں ”اوہو !پھر مسٹیک ہوگئی،جانا کہیں اور تھا قدم کہیں اور کےلئے اٹھ گئے،چلو دوبارہ شروع کرتے ہیں“....
پاکستان اور کسی معاملے میں خوش قسمت ہو نہ ہو ایک معاملے میں قدرت نے ہمیشہ اس کے بارے میں فیاضانہ فیاضی سے کام لیا ہے۔باقی قوموں کو تو سنبھلنے کےلئے اوسطاً ایک یا زیادہ سے زیادہ 2 مواقع ملتے رہے اور پھر قدرت نے کہہ دیا خصماں نہ کھاومگر پاکستان کو پچھلے68 برس میں 4 مواقع ملے ہیں خود کو سنبھالنے کے:
پہلا1947 میں ، دوسر1971 کے سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ، تیسرا دسمبر2014میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد اور چوتھا اب سیہون کے بارودی قتلِ عام کی شکل میں۔3 موقع تو ہم نے گنوا دئیے۔اب چوتھے کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟ 
آپ کا قومی غصہ بجا لیکن آپ کب یہ بات سمجھیں گے کہ کسی درخت کے پتے جھاڑنے سے اس کا وزن ہلکا نہیں ہوتا جب تک جڑ پر ہاتھ نہ پڑے۔سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم جنرل ( ریٹائرڈ ) اہود براک کے بقول آپ دہشت گردی کو2 نکاتی بنیادی حکمتِ عملی کے بغیر شکست نہیں دے سکتے۔
اول یہ کہ دہشتگرد کا جو بھی نظریہ ہے اس کا موثر نظریاتی توڑ اور متبادل کشش آپ کے پاس کیا ہے۔
دوم یہ کہ کیا آپ کے سوچنے کی رفتار دہشتگرد کی سوچ سے کم ازکم ڈیڑھ گنا تیز ہے یا نہیں ؟ اگر آپ کے پاس یہ دونوں نہیں تو پھر کمبل اوڑھ لیں۔ماوزے تنگ کے بقول تم ذہن مسلح کردو اَسلحہ وہ خود ڈھونڈ لے گا۔دہشت گرد تو یہ کر ہی رہے ہیں، کیا آپ بھی ماو کے فلسفے کو گھاس ڈالنے پر تیار ہیں ؟ 
آپ کاونٹر نیریٹو ( جوابی نظریہ ) کی رٹ لگا رہے ہیں لیکن کیا آپ سب کاموں سے بھی پہلے اپنے تعلیمی نصاب کو غیر انتہا پسند بنانے پر آمادہ ہیں ؟ اور یہ کہ آپ کو بالاخر کیا تعمیر کرنا ہے ؟ 11
اگست1947کے محمد علی جناح کا پاکستان یا بعد از جناح کا قراردادِ مقاصد والا پاکستان ؟ کوئی ایک راہ چن لیں اور پھر سب قانونی ، تعلیمی ، نظریاتی ، عملی نظام کو اسی راہ پر لے جائیں تو شاید کچھ شفا ہوجائے۔
آج کا نڈھال ، کنفیوز ، ڈرا ، سہما پاکستان دراصل 11اگست کی تقریر اور قرار دادِ مقاصد کی جبری شادی سے پیدا ہونے والا بچہ ہے۔یہ شادی یونہی رہی تو یہ طفلِ مظلوم کہیں کا نہ رہے گا،لہذااس بچے کو یا تو پوری طرح 11 اگست کی تقریر کی کسٹڈی میں دے دیا جائے یا پھر قرار دادِ مقاصد کی مکمل تحویل میں۔
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ فیصلہ کن فیصلے پر کتنا جلد پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔بیک وقت ہر مسئلے پر ہاتھ مار کے کچا پکا کام کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک وقت میں ایک بنیادی کام مکمل کیا جائے۔دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے سفر میں ایک موثر قانونی و سماجی انصاف کے چوراہے سے ہر صورت گزرنا پڑتا ہے۔اس سفر میں کوئی شارٹ کٹ اور پسندیدہ پگڈنڈی کام نہیں آتی، تاخیر صرف مزید تاخیر ہی پیدا کرسکتی ہے۔
سانپ کا کاٹا رسی سے بھی ڈرتا ہے لہذا مجھے یقین نہیں کہ ہر واقعہ کے بعد ہم جو پھرتیاں دکھاتے ہیں ، آنیوں جانیوں کا میلہ سجاتے ہیں ، واردات کو ہونے سے پہلے روکنے کے بجائے ہونے کے بعد جائے حادثہ کو گھیرے میں لے لیتے ہیں ، خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لینے ، آخری دہشت گرد کو بھی ڈھونڈھ نکالنے ، چپے چپے کی حفاظت کرنے اور فول پروف سیکیورٹی بڑھانے جیسی فلمی بڑھکیں مار کر خود کو بھی اور سامنے والے کو بھی فول بناتے ہیں۔ایسی ایفی شنسیوں سے آنے والی نئی قیامت کیسے ٹل سکتی ہے ؟ دہشت گرد تو یہ سب دیکھ اور سن کر ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتے ہوں گے۔
اگر آپ میں مسلسل جاگنے اور دماغ کو دہشتگرد دماغ سے ایک ہاتھ آگے رکھنے کی صلاحیت نہیں تو پھر نیند ہی امرت دھارا ہے۔
 بقول جون ایلیا                                           
آپ ایک اور نیند لے لیجے 
قافلہ کوچ کرگیا کب کا 
٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: