Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشتگرد حملے اور پاک افغان تعلقات

 
 پاک افغان سرحد کو مستقبل بنیاد پر بند نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی موجودہ حالات میں محدود پیمانے پر تجارتی آزادی دی جاسکتی ہے
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
ملک کے چاروں صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد گزشتہ ہفتے سیہون میں رونما ہونے والے خودکش حملے نے جس میں 80 افراد جاں بحق ہوگئے تھے پورے پاکستان کو دہلا کر رکھ دیا ۔ عوام اور تجزیہ نگاروں میں باور کیا جاتا ہے کہ یہ واقعات ان عناصر کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہیں جن کا چند ماہ پہلے تک یہ دعویٰ تھا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور اب عوام سکھ چین کی زندگی بسر کرسکیں گے۔ ان حالات میں سیاست دان تک آنسو بہاتے دکھائی دیئے کہ حکومت کے پاس اس قدر وسائل نہیں کہ وہ سیہون کے خودکش حملہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کو دفن کرسکے۔ متاثرین اس صورتحال پر آنسو بہانے پر مجبور تھے کہ اس حملے میں زخمی ہونے والے 250 افراد کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرسکیں۔ ان حالات میں سڑکیں بھی شکستہ نظر آئیں جو اسپتالوں تک رسائی کرسکتی تھیں۔ طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور اندوہناک حملے میں زخمی ہونےو الے افراد علاج معالجے کیلئے ترستے رہے اور حکومت کیخلاف غم و غصہ کا اظہار کرتے رہے مگر واقفانِ احوال ملک کے سیاسی حالات پر نوح کناں رہے کہ حزب اختلاف نے حکومت کیلئے ایسی الجھنیں پیدا کردی ہیں کہ وہ اپنے فرائض پر توجہ دے سکے۔ ان حالات میں پولیس اور عوام کے درمیان جھڑپوں کے مناظر بھی عوامی تشویش میں اضافہ کرتے رہے جو بظاہر اس امر سے ناواقف رہے کہ پولیس تو انسداد دہشت گردی کے فرائض دینے میں مصروف رہی ہے۔
اس دہشت گردی کے واقعہ کی عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عوامی حلقوں میں یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ اس عالمی دہشت گرد تنظیم نے پاکستان میں اپنی جڑیں قائم کیں جبکہ حکومتی ارباب اختیار کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ یہ عالمی دہشت گرد تنظیم ملک میں کوئی جگہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے حالانکہ اسی ماہ کرم ایجنسی میں پشتو زبان میں 2 صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ داعش اب افغانستان کے بعد پاکستان کو نشانہ بنائےگی۔ اس واقعہ سے صرف ایک ماہ پہلے کرم ایجنسی کے صدر مقام پارا چنار میں ایک خودکش حملہ میں اطلاعات کے مطابق 50 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسلم بیگ نے اپنے نثر ی انٹرویو میںکہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی باشندوں کے ساتھ امن قائم کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا ،اس نے ماضی میں ایسے قبائلی سربراہوں کو چن چن کر قتل کیا جو حکومت پاکستان کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ بدستور افغانستان میں موجود ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جونہی اس نے افغانستان سے واپسی اختیار کی تو طالبان دوبارہ برسراقتدار آجائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان افغانستان کی سب سے بڑی قوت ثابت ہوچکے ہیں جس نے امریکہ کا غرور خاک میں ملا دیا اور دنیا کے 34 ممالک کی مدد حاصل کی مگر وہ طالبان کو شکست دینے میںناکام رہا اسلئے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے دینا چاہیئے کیونکہ اب یہ امر طے ہے کہ افغانستان میں امن اسی وقت بحال ہوسکے گا جب طالبان ازخود اقتدار میں نہیں آجاتے جن پر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ خود وہ امن وامان کی صورتحال بہتر بنائے۔ ان تشویشناک حالات میں پاک فوج نے نہ صرف پاک افغان سرحد بند کردی بلکہ افغان سرزمین پر مشتبہ دہشتگردوں کو نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ پاک افغان سرحد کو مستقبل بنیاد پر بند نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی موجودہ حالات میں محدود پیمانے پر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی آزادی دی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ ملک جسے امریکہ دنیا کے 34 ممالک کے تعاون کے باوجود زیر نہیں کرسکا ،اس کی 4ہزار پہاڑی چوٹیوں پر پاکستان کی بمباری سے کیا فرق پڑ سکتا ہے۔ 
باور کیا جاتا ہے کہ سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے اپنے دور میں بہت حد تک دہشتگردی کے عفریت میں کمی پیدا کی تھی اور کمال طریقے سے دہشتگردوں کو مرعوب کئے رکھا۔ جنرل جاوید باجوہ ابھی تک اپنے پیشرو جیسے ثابت نہیں ہوسکے اور نہ ہی ان میں قوم کی ترجمانی کرنے کی استعداد پائی جاتی ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں جمہوریت بحال ہوچکی ہے مگر اس بحران میں پارلیمنٹ کہیں نظر نہیں آرہی جس کا یہ اولین فریضہ تھا کہ وہ اس معاملے کا سدباب کرتی اور دہشتگردوں کے خلاف اپنا بیانہ تیار کرسکتی۔ پارلیمنٹ میں صائب رائے افراد موجود ہیں مگر پانامہ لیکس کیخلاف تحریک انصاف نے جو ہنگامہ آرائی برپا کررکھی ہے جس سے انہیں اظہار خیال کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔ ا ن حالات میں قوم کو یہ مژدہ سنایا گیا کہ بے پناہ عوامی جانوں کے نقصانات کے بعد ملک کی آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آپریشن کی اجازت دےدی گئی ہے ۔ باور کیا جاتا ہے کہ اگر پنجاب کے جنوبی حصوں میں آپریشن صحیح طریقے سے شروع ہوسکا تو دہشتگردی کے مسئلے کا بڑی حد تک سدباب ہوسکے گا۔ یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوسکا جس کی روشنی میں نیا تعلیمی نظام رائج کیا جانا چاہیئے تھا اور دینی مدارس میں تعلیم و تدریس کے حوالے سے انقلابی تبدیلیاں لائی جانی چاہئے تھی۔ 
ان حالات میں ہند کو فراموش کرنا سخت غلطی ہوگی۔ ہند میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار آئی ہے اسکی حکومت ٹیلیویژن پر پاکستان کیخلاف دہشتگردی کی حمایت کرنے کے الزامات عائد کررہی ہے اور دہشتگردی کا دہشتگردی کے ذریعے جواب دینے کے عزائم کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ امریکہ میں بھی ڈونلڈٹرمپ برسراقتدار آئے ہیں اور انہوں نے اپنے پہلے 100 دنوں کا ایجنڈا تشکیل دیا ہے جس سے ان کے عزائم کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ قومی ا سمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہاکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور پاکستان دوست ممالک کی حمایت حاصل نہیں کرسکا۔ حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں ایک طویل عرصہ سے وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی جگہ نئے وزیر خارجہ کی تقرری کا مطالبہ کررہی ہیں جس پر توجہ نہیں دی جارہی۔ باور کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو موجودہ حالات میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے وزیر خارجہ کی ضرورت تھی جو ہند اور امریکہ کے مسلم ممالک کیخلاف خصوصاً پاکستان محالف عزائم کو کا سدباب کرسکتاہے۔
باور کیا جاتا ہے کہ ہند اس وقت ا فغانستان کے قریب ہوچکا ہے۔ ان حالات میں افغانستان سے تعلقات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ملک کا باقاعدہ وزیر خارجہ مقرر کیا جائے تاکہ بہت دانشمندی سے امور خارجہ کو چلایا جاسکے۔ ہند جموں و کشمیر کے حالات کا صرف پاکستان کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے اور عالمی برادری اس کی توجہ اس جانب مبذول کروانے سے قاصر ہے کہ اس کے اپنے مظالم نے کشمیری عوام کو اس حد تک پہنچایا ہے۔ جنرل (ر) اسلم بیگ نے مذکورہ انٹرویو میں تہلکہ خیز انکشافات بھی کئے کہ عالمی سطح پر صلیبی جنگوں کے دوسرے دور کا آغاز ہوچکا ہے اور اب مسلمان ممالک کو میدان میں اترنا پڑے گا۔ ان حالات میں مسلمان ممالک کو اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کرنا پڑے گا اور اس سلسلے میں مسلمان ممالک کو فرقہ پرستی سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔ 
٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: