Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس ریفارمز کہاں ہیں؟ ماریہ میمن کا کالم

توقعات اور دعوؤں کے باوجود پولیس میں خصوصاً اور نظام انصاف میں عموماً خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق محکمہ پولیس پاکستان کے سرکاری اداروں میں کرپٹ ترین ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے طریقہ کار پر بھی اعتراض ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے جو سروے اس رپورٹ کے مرتب ہونے میں استعمال ہوتے ہیں وہ محدود نوعیت کے ہی ہیں۔ ان اعتراضات کے باوجود اگر ایک مروجہ عوامی رائے پر ہی چلا جائے تو وہ بھی ان نتائج کے برعکس نہیں بلکہ ان کی تائید ہی کرتی نظر آتی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کا اصلاحات کا سکور کارڈ کمزور سے کمزور ترین ہوتا جا رہا ہے۔ انصاف کے نام پر بننے والے جماعت نے خود بلند بانگ دعوے کر کے توقعات بلند کر لی تھیں۔ ان دنوں پی ٹی آئی کے منشور کا بھی کافی چرچا تھا جس میں تفصیلی اصلاحات کے منصوبے درج تھے۔ خان صاحب خود بھی نئے پاکستان کا جو خواب دکھایا کرتے تھے، اس میں پاکستان کی پولیس نے یورپی ملکوں کی پولیس کو بھی پیچھے چھوڑ دینا تھا۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ خیبر پختونخوا میں پہلی صوبائی حکومت نے بھی پی ٹی آئی کی ساکھ کو بہتر بنایا۔ مرحوم آئی جی ناصر درانی نے اس میں نمایاں کام کیا جس کو پی ٹی آئی نے سپورٹ کیا اور اس کا خاطر خواہ کریڈٹ بھی لیا۔ ان اصلاحات میں پولیس میں سیاسی پوسٹنگ ٹرانسفر کا خاتمہ، پیشہ ورانہ تربیت کا آغاز اور عوام تک فوری رسائی شامل تھے۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں پولیس کے اندر اور عوام کی طرف سے بھی حوصلہ افزا اثرات سامنے آئے۔
افسوس یہ کہ یہ اثرات پنجاب اور وفاق میں منتقل نہیں ہو سکے۔ پولیس ایک صوبائی سبجیکٹ ہے مگر وفاق میں بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہیں اور مزید پنجاب اور وفاق میں ایک پارٹی کی حکومت میں وہ ادارہ جاتی سپورٹ بھی میسر ہو جاتی جو اصلاحات کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔
ماحول، توقعات اور دعوؤں کے باوجود پولیس میں خصوصاً اور نظام انصاف میں عموماً خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ پولیس پر توجہ نہ دینے کا ایک ثبوت پنجاب میں حالیہ ہنگاموں میں بھی دیکھا گیا جہاں پر ایک غیر پیشہ ورانہ فورس کو پُرتشدد ہجوم سے نمٹنے کے لیے سامنے کیا گیا اور پھر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ اس جمود کی کیا وجوہات ہیں؟ اس جمود کا آغاز تو عثمان بزدار کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی سے ہی ہو گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے جانثار ترین سپورٹر بھی عثمان بزدار کی حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پنجاب کے معاملات اسلام آباد سے براہ راست دیکھے جائیں گے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب اتنے آئی جیز، چیف سیکریٹریز اور دیگر افسران تبدیل ہوئے ہیں کہ لوگوں نے حساب رکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ دور کیوں جائیے، تبدیلی کی یہ لہر اسلام آباد پولیس میں بھی نمایاں ہے۔ چند کلومیٹر پر محیط وفاقی دارالحکومت کے رہائشی علاقے جرائم اور لوٹ مار کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
خبروں کا مرکز اکثر سیاست رہتا ہے ورنہ اگر کرائم رپورٹرز سے معلومات لی جائیں تو پتا چلتا ہے کہ عوام اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔ تھانے جانا ابھی کسی شریف شہری کے لیے سوہان روح ہے اور مقدمے ابھی بھی مہینوں نہیں برسوں چلتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر البتہ ہماری پولیس لندن سے بھی آگے نظر آتی ہے۔

وسائل سے زیادہ اصلاحات کا دارومدار حکومت کی سیاسی نیت اور ارادے پر ہوتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سوال یہ بھی ہے کہ اصلاحات میں ناکامی کی وجہ ارادے کی کمی ہے یا صلاحیت کی؟ کیا ناصر درانی مرحوم کے بعد حکومت کو کوئی اہل افسر ملا نہیں یا پھر ایسی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی؟ کیا خیبر پختونخوا کا کلچر پہلے سے ہی دوستانہ تھا جہاں پر فوری نتیجے سامنے آ گئے۔ دوسری طرف پنجاب کے روایتی تھانہ کلچر کو بدلنا ایک مشکل ٹارگٹ تھا۔ پھر سیاسی ترجیحات نے بھی حکومت کو اصلاحات سے روکے رکھا ہے۔ ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن کا پولیس اور بیوروکریسی میں گہرا اثر و رسوخ ہے۔
خبریں یہ بھی ہے اس تاثر کے ردعمل کے طور سیاسی پوسٹنگ ٹرانسفر کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ خصوصاً انتخابات میں تو پولیس اور انتظامیہ پر کافی سوالیہ نشان سامنے آئے۔ آئندہ دنوں مقامی حکومتوں کے الیکشن قریب ہیں۔ ان میں بھی پولیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ 
حکومت کی سیاسی قیادت کی طرف سے عدم دلچسپی، ایڈہاک فیصلہ سازی اور کسی بھی مناسب ریفارم سٹریٹیجی کے نہ ہونے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس حکومت نے پولیس میں تبدیلی کو خیرباد ہی کہہ دیا ہے۔ یہ صورتحال عوام کے لیے تکلیف دہ بھی ہے اور بد قسمتی بھی۔ وسائل سے زیادہ اصلاحات کا دارومدار حکومت کی سیاسی نیت اور ارادے پر ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ بد قسمتی نہیں ہو سکتی کہ وہ محکمہ جس کے ذمہ عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے، حکومت اس کو اس طرح حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔

شیئر: