Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پتنگ کی ’قاتل ڈور‘ کو روکنے کے لیے پنجاب پولیس کے جدید حربے

پاکستان میں پتنگ اڑانے پر پابندی لگے دو دہائی سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن اس کھیل کی سماج میں جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ آج بھی اس کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔
 پتنگ بازی پر پابندی کا بنیادی محرک اس کھیل میں استعمال ہونے والی وہ دھاتی اور کیمیکل لگی تار ہے جس کی وجہ سے ہر سال درجنوں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ چاہے شہباز شریف ہوں یا عثمان بزدار دونوں اس معاملے پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی رکھتے رہے ہیں اور پولیس کو پتنگ بازی پر لگی پابندی پر مکمل عمل درآمد کروانے کا دائمی حکم ملا ہوا ہے۔ پولیس کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ کسی بھی علاقے میں پتنگ اڑتی دیکھی گئی یا کٹی پتنگ کی ڈور سے کوئی حادثہ رونما ہوا تو اس علاقے کا ایس ایچ او اس کا ذمہ دار ہو گا۔
لیکن اتنی سخت پابندی اور احکامات کے باوجود آج بھی ملک بھر میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص پتنگوں اور کیمیکل لگی ڈور کی فروخت جاری ہے۔  
 اس ڈور کی وجہ سے گزشتہ دومہینوں میں دو انسانی جانیں ضائع اور 47 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
فروری اور مارچ یعنی بہار کا موسم پتنگ بازوں کا محبوب موسم کہلاتا ہے۔ کسی دور میں بسنت بھی اسی موسم میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن ان جانوں کے ضیاع کے باعث اس وقت پنجاب بھر میں پتنگ بازوں اور پتنگ سازوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔
دوسری طرف پتنگ ساز مختلف جدید طریقے استعمال کر کے پتنگیں اور ڈوریں بیچنے میں مصروف ہیں۔
پتنگ ساز خفیہ کاروبار کیسے چلاتے ہیں؟
پتنگ بیچنے والوں نے اب پولیس کی نظروں سے بچنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ لیکن جو طریقہ سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہو رہا ہے وہ ہے سوشل میڈیا کا استعمال۔
غیر قانونی کاروبار کرنے والے پتنگ فروش سوشل میڈیا کی مختلف ایپس استعمال کر کے اپنی تیار کردہ مختلف پتنگوں اور ڈوروں کی تصویریں وہاں شیئر کرتے ہیں اور گاہکوں سے رابطہ ہو جانے کے بعد پھر خفیہ مقام پر اپنی چیزیں طے شدہ قیمت کے بدلے ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔

کامران عادل کے مطابق پولیس پتنگ بازوں کو پکڑنے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز کامران عادل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پتنگ ساز اب سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں سے رابطے میں آتے ہیں۔ چاہے وہ واٹس ایپ ہو، یا فیس بک یا انسٹا گرام وہ مختلف گروپس میں اپنے نئے سٹاک کی تصاویر شئیر کرتے ہیں۔ جنہیں لوگ خریدتے ہیں۔‘
پولیس خفیہ پتنگ فروشوں کا نیٹ ورک کیسے توڑتی ہے؟
کامران عادل کے مطابق پولیس کو پتنگ فروشوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کا علم ہوا تو انہوں نے ان کے نیٹ ورکس توڑنے کے لیے انہی کے طریقے اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔
’ہمارے کئی افسران نے شناخت تبدیل کر کے ایسے افراد کو سوشل میڈیا سے ٹریپ کیا اور پتنگ خریدنے کے بہانے ان کو گرفتار کرلیا۔‘  
کامران عادل کا کہنا ہے کہ پولیس پتنگ بازوں کو پکڑنے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کر رہی ہے۔ اسی طرح طاقتور دوربینوں کی مدد سے بھی ان لوگوں کو ٹریس کیا جاتا ہے جو چھپ کر اپنے گھروں کی چھتوں پر پتنگ بازی کر رہے ہوتے ہیں۔  
فیصل آباد میں پتنگ سازوں کی نظربندی 
فیصل آباد پولیس نے پتنگ سازوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ایک مختلف اور غیر روایتی طریقہ اپنایا ہے۔

پتنگ سازی کی صنعت سے وابستہ افراد کو ایک ایک مہینے کے لیے ان کے گھروں پر نظر بند کیا گیا (فوٹو اے ایف پی)

اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈی آئی جی کامران عادل کا کہنا تھا کہ ’فیصل آباد کے سینٹرل پولیس آفیسر مبشرمیکن نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے بار بار پتنگ سازی یا پتنگ بازی کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو ضلعی انتظامیہ کی مدد سے 16 ایم پی او کے قانون کے ذریعے نقص امن کے خدشے کے تحت نظر بند کر دیا۔‘  
یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پتنگ سازی کی صنعت سے وابستہ افراد کو ایک ایک مہینے کے لیے ان کے گھروں پر نظر بند کیا گیا ہے۔ نظر بند ہونے والے افراد پر پتنگ بازی کے درجنوں مقدمات پہلے ہی موجود ہیں۔
پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال صوبہ بھر میں پتنگ فروشوں اور پتنگ بازوں کے خلاف جاری آپریشن میں اب تک 3146 مقدمات درج کیے گئے ہیں، جبکہ 3343افراد کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار افراد کے قبضے سے  چار لاکھ کے قریب پتنگیں اور آٹھ ہزار سے زائد ڈوریں برآمد کی گئیں۔  

شیئر: