Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علامہ اقبال، پتنگ بازی کے شوق سے آخری رات بیٹے کو نصیحت تک

 علامہ اقبال گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو بیٹے نے خط لکھ کر ان سے گرامو فون لانے کی فرمائش کی
علامہ اقبال کی شخصیت کے بارے میں بہت سے لوگوں نے لکھا ہے لیکن ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحریروں کو خاص اہمیت حاصل ہے جس کی ایک بنیادی وجہ ان کا فرزندِ اقبال ہونا ہے۔ دوسرے ان کی تحریر کی خوبصورتی ہے جس کے ذریعے اقبال جیتے جاگتے انسان کے روپ میں سامنے آتے ہیں اور قاری ان سے خود کو وابستہ محسوس کرتا ہے۔
طرزِبیاں میں ارادت اور غلو کو دخل نہیں۔ واقعات اس سادگی سے بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا اقبال کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو پھر اس کا وہاں سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔
جاوید اقبال نے والد کے بارے میں یادوں کو اپنے مضمون ’اقبال: ایک باپ کی حیثیت سے‘ میں بہت عمدگی سے سمیٹا ہے۔ اقبال کی سوانح عمری ’زندہ رود‘ بھی ان کے قلم سے ہے۔ ان کی آپ بیتی ’اپنا گریباں چاک‘ میں بھی اقبال کا بھرپور تذکرہ موجود ہے۔
ہم نے جاوید اقبال کی تحریروں کی مدد سے اقبال کی زندگی کے چند ایسے پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ان کی شخصیت کی فراخی ظاہر ہوتی ہے۔   

علامہ اقبال کا پتنگ اڑانا

چھ سال پہلےایک قومی اخبار کے لیے علامہ اقبال کے نواسے یوسف صلاح الدین کا انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا کہ بسنت کے بغیر وہ لاہور کا تصور نہیں کرسکتے کہ یہ شوق انہیں اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملا ہے۔
ان کے بقول ’علامہ اقبال بسنت مناتے تھے۔ ان کے پتنگ بازی کرنے کے لیے موچی دروازے سے خاص نرم قسم کی لیپو پتنگیں تیار کرائی جاتیں کیونکہ وہ بڑے نازک تھے اور انہیں چیرہ بہت جلد لگ جاتا تھا۔‘
علامہ اقبال کے نواسے کا بیان آپ نے پڑھ لیا۔اب ڈاکٹر جاوید اقبال کے مضمون سے رجوع کرتے ہیں:
’کئی بار کھلی بہار میں جب میں کوٹھے پر پتنگ اڑا رہا ہوتا تو وہ(اقبال) دبے پاؤں اوپر آجاتے اور میرے ہاتھ سے پتنگ لے کر خود اڑانے لگتے۔ مگر مجھے یاد ہے کہ انہوں نے جب بھی کسی اور پتنگ سے پیچ لڑایا تو ہمیشہ ہماری پتنگ ہی کٹی۔‘

خواب میں بیٹے کی سرزنش

 جاوید اقبال نے ’زندہ رود‘ کےعنوان سے تین حصوں میں اقبال کی سوانح لکھی ہے۔ اس عمل کے دوران جب وہ اقبال کے اجداد کے بارے میں تحقیق کررہے تھے تو ایک دن اپنی اہلیہ سے کہا کہ قیامِ پاکستان کا تصور بھی کشمیری پنڈت نے دیا اور ہندوستان کو سیاسی آزادی بھی کشمیری پنڈت (نہرو) نے دلائی ،اس لیے مجھے تو یہ پنڈتوں کا جھگڑا معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات کہنے کو انہوں نے کہہ تو دی لیکن اس رات اقبال نے خواب میں آکر ان کی سرزنش کی۔

وہ ’زندہ رود‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں’میں دیکھتا ہوں کہ جاوید منزل کی چھت پر بیٹھا ہوں۔ ساتھ ہی منڈیر پر سفید کاغذوں کا ایک ڈھیر پڑا ہے۔ اقبال بنیان اور تہمد میں ملبوس ایک طرف سے ظاہر ہوتے ہیں اور حسب عادت خراماں خراماں چلتے ہوئے میرے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے چہرے پر خفگی کے آثار ہیں۔ مجھ سے انگریزی میں کہتے ہیں کہ تم کیا لکھتے رہتے ہو؟ میں جواب دیتا ہوں کہ اپنی طرف سے تو ہمیشہ میری یہی کوشش رہی ہے کہ آپ کے افکار صحیح طور پر لوگوں تک پہنچائے جائیں۔ فرماتے ہیں، خیر اس بارے میں میرے تاثرات تمہیں کل معلوم ہوجائیں گے۔ اس کے بعد یکلخت خواب کا منظر تبدیل ہوجاتا ہے۔ میں اب کسی گھنے درخت پر چڑھا اس کی شاخوں میں اٹکے ہوئے بہت سے کاغذ کے پرزے اکٹھے کررہا ہوں۔ میری مدد کے لیے کوئی اور شخص بھی وہاں موجود ہے لیکن میں اسے شناخت نہیں کرسکا۔ البتہ اسے شکایتاً کہہ رہا ہوں کہ عجیب بات ہے، میں ان کے افکار کی تشہیر کے لیے اتنی محنت کرتا ہوں مگر ان کی تسلی نہیں ہوتی۔‘
اس کے بعد ان کی آنکھ کھل گئی۔ رات کے ساڑھے تین بجے تھے۔ اس اثنا میں اہلیہ بھی جاگ گئیں جنہوں نے خواب سن کر کہا کہ شاخوں میں اٹکے کاغذ کے پرزے جمع کرنے سے خواب کی تعبیر یہی لگتی ہے کہ آپ ان کا شجرہ نسب مرتب کررہے ہیں اور اس کے سلسلے میں وہ آپ کی کسی بات سے ناراض ہیں۔
انتظار کریں کل ان کی طرف سے ضرور کوئی اشارہ ہوگا۔ اگلے دن جاوید اقبال کسی اشارے کے منتظر رہے۔ رات کے 12 بج گئے لیکن کوئی اشارہ نہ ہوا۔ مایوسی کے عالم میں انہوں نے  پڑھنے کے لیےالماری سے جو کتاب اٹھائی وہ ’روزگار فقیر‘ کی دوسری جلد تھی۔اسے کھولا تو  اقبال کا یہ قطعہ سامنے  آگیا:
بت پرستی کو مرے پیش نظر لاتی ہے
یادِ ایام گذشتہ مجھے شرماتی ہے
ہے جو پیشانی پہ اسلام کا ٹیکا اقبال
کوئی پنڈت مجھے کہتا ہے تو شرم آتی ہے
بیوی کو یہ بات بتلائی تو انہوں نے کہا کہ آپ نےازراہ مذاق ہی سہی جو یہ کہا کہ یہ تو کشمیری پنڈتوں کی لڑائی لگتی ہے تو اس کا انہوں نے برا مانا کیونکہ یہ بات ان کے لیے باعثِ عار تھی۔

گرامو فون کی فرمائش

 علامہ اقبال گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو بیٹے  نے خط لکھ کر ان  سے گرامو فون لانے کی فرمائش کی جو پوری نہ ہوئی البتہ اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اردو شاعری کو یہ نظم مل گئی:
جاوید کے نام
(لندن میں اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط آنے پر)
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکُوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مِینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں، میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!
 جاوید اقبال نے اس خط کے تقریباً 70 سال بعد والد کو دوسرا خط لکھا جس کی غایت پہلے خط سے یکسر مختلف تھی۔
’اپنا گریباں چاک‘ میں شامل یہ ایک تصوراتی خط ہے جس میں وہ قومی تشخص اور اسلامی ریاست کے بارے میں والد سے رہنمائی کے طلب گار ہیں۔ اس خط میں انہوں نے والد گرامی کے سامنے بڑے جاندار اور دانشورانہ سوال اٹھائے ہیں۔ یہ خط دعوتِ فکر ہے۔ ممتاز ادیب انتظار حسین نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ نوائے وقت کے مدیر اعلیٰ مرحوم مجید نظامی اس خط کے مندرجات سے متفق نہ تھے اور انہوں نے اسے ’اپنا گریباں چاک‘ میں  شامل نہ  کرنے  پر زور دیا تھا۔
جاوید اقبال نےاس ضمن میں ایک دوست سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ یہ خط ہی تو حاصلِ کتاب ہے۔

امتحان میں ناکامی پر اقبال نے بیٹے سے کیا کہا؟

جاوید اقبال کو بچپن سے قصے کہانیاں پڑھنے کی چاٹ لگ گئی تھی۔ ساتویں جماعت کے امتحان سے پہلے الف لیلہ پڑھنے کو مل گئی تو اس کے  مطالعے میں رات گئے تک غرق رہتے۔ امتحان کے دنوں میں بھی نصابی کتب سے غافل رہ کر الف لیلہ پڑھتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیل ہوگئے، اقبال تک جب یہ خبر پہنچی کہ اس ناکامی کی وجہ کیا ہے تو ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے بیٹے سے کہا تو بس اتنا:
اگر تم امتحان میں کامیاب ہو جانے کے بعد الف لیلہ پڑھتے تو تمہیں اور بھی لطف آتا۔‘

پھلجڑیاں سلگانا اور انار کو تیلی لگانا

جاوید اقبال نے باپ کے بارے میں اپنی یادیں ہی قلمبند نہیں کیں، منیرہ اقبال کی یادداشتوں کو بھی انٹرویوز کی صورت میں محفوظ کیا۔ ان میں ایک جگہ منیرہ نے بتایا ہے کہ ایک شب برات کو اقبال نے بیٹے کو آتش بازی کا سامان منگانے کی اجازت نہ دی جس پر وہ روٹھ کر بہن کے پاس آگیا۔
چھوٹی بہن کو بھائی پر ترس آیا لیکن مشکل یہ تھی کہ اقبال ایک دفعہ انکار کردیتے تو پھر ان سے بات منوانا بہت مشکل ہوتا۔
لیکن بھائی کی محبت سے مغلوب ہوکر منیرہ نے والد سے بات کرنے کی ٹھانی اور ان کے کمرے میں جاکر بیٹھ گئی۔

اقبال نے خاموشی کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ اماں جی یاد آرہی ہیں، یہ بات سن کر اقبال کی حالت بگڑ گئی، اصل میں تو منیرہ نے والدہ کی  یاد آنے کی بات والد کو رام کرنے کے لیے کی تھی لیکن اب ان  کی حالت دیکھ کر والدہ کی یاد ایسی آئی کو پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔ اقبال نے پیار دلار کیا۔ دلجوئی کی۔ کہا کہ آج شب برات ہے تم نے آتش بازی کا سامان نہیں منگوانا؟ بیٹی کی طرف سے جواب نہ پاکر علی بخش سے سامان منگوایا۔
منیرہ اقبال کے بقول ’بھائی جاوید کو صرف پٹاخوں کاخبط تھا اور ابا جی پٹاخوں سے بہت ناراض ہوتے تھے۔ انہیں مہتابی، انار یا پھلجڑیاں پسند تھیں۔ سو بھائی جاوید تو اپنے مطلب کا سامان لے کر کوٹھی سے باہر نکل گئے لیکن ابا جی نے آرام کرسی باہر بچھوا لی اور میرے قریب بیٹھ گئے۔ مجھے پھلجڑیاں سلگا سلگا کر دیتے اور میں ان سے رنگ نکلتے دیکھ کر بے حد خوش ہوتی۔ ابا جی انار چلاتے اور میرے چہرے کو عجیب نگاہوں سے دیکھتے کہ ماں کو واقعی بھول گئی ہے یا نہیں؟ میں ماں کو کب کی بھول چکی تھی۔ رات گئے تک ابا جی میرے ساتھ آتش بازی چلاتے رہے۔ انہیں آگ کے کھیلوں سے نفرت تھی لیکن میری خاطر وہ اپنے ہاتھوں سے انار کو تیلی لگاتے اور مجھے ہنستا دیکھ کر خوش ہوتے۔ ‘

 مصوری کے شوق کی حوصلہ افزائی

جاوید اقبال کی پتنگ بازی کا ذکر تو ہوگیا جس پر اقبال کو اعتراض نہ تھا۔ بچپن میں جاوید اقبال کو مصوری میں دلچسپی پیدا ہوئی اور ایک دفعہ انہوں  نے بڑی اچھی تصویر بنائی تو اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بیٹے کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔
انگلینڈ، اٹلی اور فرانس سے آرٹ کی کتابیں منگا کر دیں کہ عظیم فنکاروں کے کام کو دیکھ کر بیٹے کے شوق کو مہمیز ملے۔

اقبال بلا تھامے ٹھپ ٹھپ کرتے رہتے

 اقبال کی خواہش تھی کہ بیٹا کشتی کی مشق کرے۔ اس لیے گھر میں اکھاڑہ بھی بنوایا۔ جاوید اقبال کے بقول ’اکثر کہا کرتے کہ اکھاڑے کی مٹی میں ڈنڑ پیلنا یا لنگوٹی باندھ کر لیٹ رہنا صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔‘
گھر میں کرکٹ کھیلنے سے منع کرتے، لیکن کبھی کبھار خود بھی کھیل میں شریک ہوجاتے۔ بچے گیندیں کرواتے کرواتے عاجز آجاتے لیکن اقبال ’بلا تھامے ’ٹھپ ٹھپ‘ کرتے رہتے۔ ‘

  یٹے سے آخری رات کیا کہا؟

 جاوید اقبال نے علامہ اقبال کی آخری رات کا تذکرہ بھی اپنے مضمون میں کیا ہے۔  رات نو بجے کے قریب وہ ان کے کمرے میں گئے تو وہ انہیں پہچان نہ پائے۔
پوچھا: کون ہے؟
’میں جاوید ہوں‘
جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں!
  اس کے بعد اپنے دوست چودھری محمد حسین سے کہا کہ اسے جاوید نامہ کے اخیر میں ’خطاب بہ جاوید‘ ضرور پڑھوا دیجیے گا۔
اس وقت کون جانتا تھا کہ یہ بچہ آنے والے وقتوں میں ’ جاوید نامہ‘ کا اردو میں نثری ترجمہ بھی کرے گا اور اپنے والد کے افکار کا شارح بھی بنے گا۔
اقبال کی آخری رات کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
آخری رات ان کی چارپائی گول کمرے میں بچھی تھی۔ عقیدت مندوں کا جمگٹھا تھا۔ اس رات ہمارے ہاں بہت سے ڈاکٹر آئے ہوئے تھے۔  ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا کیونکہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ آج کی رات مشکل سے کٹے گی۔

 کوٹھی کے صحن میں کئی جگہوں پر، دو دو تین تین کی ٹولیوں میں، لوگ کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔  ابا جان سے ڈاکٹروں کی یہ رائے مخفی رکھی گئی۔ مگر وہ بڑے تیز فہم تھے۔  انہیں اپنے احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر یقین ہو گیا تھا کہ بساط عنقریب الٹنے والی ہے۔  اس کے باوجود وہ اس رات معمول سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔  مجھے بھی حالات سے آگاہ نہ کیا گیا اس لیے میں معمول کے مطابق اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔ مگر صبح طلوع آفتاب سے پیشتر مجھے علی بخش نے آ کر جھنجھوڑا اور چیختے ہوئے کہا: ’جاؤ دیکھو! تمہارے ابا جان کو کیا ہو گیا ہے۔‘

’وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئے‘

 یہ جاوید اقبال کے اس مضمون کا عنوان ہے جس میں انہوں نے علامہ اقبال کے ان علمی وادبی منصوبوں کی بابت بتایا ہے جن پر وہ کام کرنا چاہتے تھے لیکن زندگی نے مہلت نہ دی۔ وہ ’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا ‘ کے موضوع پر کتاب لکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ سانحہ کربلا پر ہومر کی اودیسی کے طرز پر طویل نظم لکھنے کا بھی منصوبہ تھا۔
اسی طرح بھگود گیتا کے منظوم ترجمے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ انگریزی میں ایک کتاب ’اسلام میرے نقطہ نگاہ سے‘ کا خاکہ بھی ذہن رسا میں تھا۔ ’جاوید نامہ‘ میں ارواح سے ملاقاتوں کے سلسلے کو بھی بڑھانا چاہتے تھے۔

شیئر: