Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

1993 میں نواز شریف کی حکومت کیوں نہ بچ سکی؟

صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف میں درونِ پردہ کشیدگی فروری 1993 میں علانیہ سرد جنگ میں ڈھل گئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ جب بات سیاسی تاریخ کی ہو تو اس کے واقعات اور کردار کچھ ردوبدل کے ساتھ نئے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ 
پاکستان کے قومی اور سیاسی افق پر سابق وزیراعظم عمران خان کے لانگ مارچ نے ایک ہنگامہ سا اٹھا رکھا ہے۔
آج سے 29 برس قبل بھی پاکستانی سیاست اسی طرح کی سیاسی و آئینی ہنگامہ خیزی کے گرفت میں تھی۔ 
اسمبلیوں کا ٹوٹنا اور بحال ہونا، صوبائی گورنر اور وزیراعلیٰ میں قانونی اور انتظامی امور پر کشمکش، صدر اور وزیراعظم کے درمیان آئینی اختیارات کی کھینچا تانی اور  نئے انتخابات کے لیے لانگ مارچ کے اعلانات۔ سنہ 1993 کے موسم گرما میں پاکستانی سیاست کے گرمیٔ بازار کا عنوان یہی موضوعات اور نعرے تھے۔
عمران خان کا آزادی مارچ اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے لیے اسلام آباد آیا۔
جولائی 1993 کے دوسرے ہفتے میں بے نظیر بھٹو نے بھی انہی دو مقاصد کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔انہوں نے اپنا مارچ کس کے کہنے پر اور کیوں ملتوی کیا؟ 
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اس دور کے سیاسی واقعات کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔
اس سنسنی خیز سیاسی کہانی کے اتار چڑھاؤ اور انجام کو جاننے کے لیے 26 مئی 1993 کی دوپہر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں جانا ہوگا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا۔
اس درخواست کی پیروی پاکستان کے سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی کے فرزند خالد انور ایڈووکیٹ کر رہے تھے۔ ان کی معاونت کرنے والوں میں موجودہ اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف بھی شامل تھے۔

آج سے 29 برس قبل بھی پاکستانی سیاست اسی طرح کی سیاسی و آئینی ہنگامہ خیزی کے گرفت میں تھی (فوٹو: فلکرز)

پاکستانی تاریخ کے اہم ترین مقدمے کی تفصیل جاننے سے قبل ان حالات کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے ایک سابق وزیراعظم کو حصول انصاف کے لیے سپریم کورٹ کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔
وزیراعظم کا خطاب اسمبلی ٹوٹنے کی وجہ
17 اپریل 1993 کی شام معروف بیوروکریٹ روئیداد خان آرمی ہاؤس میں کھانے پر مدعو تھے۔ اتفاق سے اسی شام وزیراعظم نواز شریف بھی ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرنے والے تھے۔ میزبان اور مہمان دونوں نے رات کے کھانے سے قبل تقریر سننے کا فیصلہ کیا۔
نواز شریف کی تقریر صدر کے خلاف کھلا اعلان جنگ تھا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں استعفی  دینے،  قومی اسمبلی توڑنے یا کسی آمرانہ حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا۔
روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے وزیراعظم کی تقریر پر آرمی چیف سے ان کا ردعمل جاننا چاہا تو عبدالوحید کاکڑ کا جواب تھا کہ وہ صدر کو ان کا  پیغام پہنچا دیں کہ اگر وہ آئینی حدود میں قدم اٹھائیں گے تو آرمی چیف ان کے ساتھ ہوں گے۔
صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف میں درونِ پردہ کشیدگی فروری 1993 میں علانیہ سرد جنگ میں ڈھل گئی۔ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک قائد حزب اختلاف بینظیر بھٹو سے مفاہمت اور انہیں خارجہ امور کی کمیٹی کی سربراہی سونپنا۔
دوسرا وزیراعظم کی طرف سے کھلم کھلا آٹھویں ترمیم کی منسوخی کے بارے میں بیانات اور غوث علی شاہ کی سربراہی میں کمیٹی کا قیام۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ رہنما بے نظیر اور نواز شریف میں مفاہمت اور مصالحت کے سخت خلاف تھے۔
بقول روئیداد خان چوہدری الطاف حسین نے انہیں غلام  اسحاق خان اور بینظیر بھٹو کے درمیان نواز شریف حکومت کے خلاف مفاہمت کے لیے کردار ادا کرنے کو کہا۔ اسی طرح سابق صدر فاروق لغاری بھی دونوں رہنماؤں کے درمیان ممکنہ تعاون کو ناکام بنانے کے لیے ایوان صدر سے ربط و تعلق بڑھانے لگے۔
یہی وجہ تھی کہ 18 اپریل 1993 کو جب غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا فرمان جاری کیا تو پیپلز پارٹی کے ممبران  قومی اسمبلی کے استعفے ان تک پہنچ چکے تھے۔
صدر کے مواخذے کی افواہ 
نواز شریف کی باغیانہ تقریر نے سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا۔18 اپریل کی دوپہر ایوان صدر میں اطلاع پہنچی کے 62 اراکین اسمبلی نے سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اجلاس میں صدر کے مواخذے کی قرارداد پیش کی جائے گی۔ اس خبر سے ایوان صدر میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔

پیپلز پارٹی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ رہنما بے نظیر اور نواز شریف میں مفاہمت اور مصالحت کے سخت خلاف تھے (فوٹو: ویمپ)

صدر نے اپنا آخری داؤ آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ مولانا کوثر نیازی نے غلام اسحاق خان کے قوم سے خطاب کے لیے تقریر تیار کرنا شروع کر دی۔دوسری طرف شریف  الدین پیرزادہ اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ نواز شریف کی برطرفی کا ڈرافٹ تیار کرنے میں مصروف تھے۔
اسی روز شام ساڑھے سات بجے بے نظیر بھٹو نے پارلیمنٹ لاجز فون کرکے بلخ شیر مزاری کو نگران وزیراعظم بننے کی مبارک باد دی۔

نگران حکومت کا المیہ
میر بلخ شیر مزاری ابتدا میں نواز شریف کے ساتھ تھے۔ مگر بعد میں انہوں نے اپنا گروپ الگ کرلیا۔ اسی سبب نظیر بھٹو اور پیر پگاڑا نے نگران وزیراعظم کے لیے ان کے نام پر اتفاق کیا۔
انہوں نے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دی۔ 14 جولائی کو الیکشن کی تاریخ دی گئی۔ اتنے مختصر عرصے کے لیے 62 رکنی طویل نگران کابینہ کا انتخاب کیا گیا۔جس میں این ڈی اے اور پی ڈی اے کی نمائندگی تھی۔سابق صدر آصف علی زرداری بھی اس کا حصہ تھے۔
نگران حکومت کے لیے پہلا دھچکا 20 اپریل کو تاجروں کی طرف سے نواز شریف کے حق میں ہڑتال تھا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار تین سٹاک ایکسچینجز نے اس روز اپنا کاروبار بند کر کے  نگران حکومت کو مشکل میں ڈال دیا۔
اس کے تین دنوں بعد کراچی میں معروف کاروباری شخصیات نے ’بزنس مین پولیٹیکل کلب‘ قائم کر کے سیاسی معاملات سے وابستگی کا پیغام دے دیا۔
پیپلزپارٹی نے حالات کا رخ  بھانپتے ہوئے 20 مئی کو نگران کابینہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔بے نظیر بھٹو نے اسی روز لاہور میں تقریر کرتے ہوئے غلام اسحاق خان کی طرف سے کی گئی وعدہ خلافیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ پیپلز پارٹی کی ناراضگی کی اصل وجہ صوبائی اسمبلیوں کا نہ ٹوٹنا تھا۔ 

صوبائی اسمبلیاں کیوں برقرار رکھی گئی؟ 

بے نظیر بھٹو اپریل میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کے لیے اپنے ممبران قومی اسمبلی کے استعفے غلام اسحاق خان کے حوالے کرتے ہوئے بولیں کہ انہیں امید ہے آپ جلد اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ جواب میں صدر نے ان کی تصحیح کرتے ہوئے کہا ’اسمبلیاں نہیں قومی اسمبلی۔‘
صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے بینظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے وقت قومی اور صوبائی اسمبلیاں دونوں تحلیل کی گئی تھیں۔ مگر اس بار صوبائی اسمبلیاں برقرار رکھنے کی وجہ غلام اسحاق خان کے سیاسی مقاصد تھے۔
چار میں سے تین صوبائی وزراء اعلیٰ نواز شریف کے خلاف غلام اسحاق خان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے وزیراعظم کے خلاف صدر کو خط لکھ کر حکومت کی برطرفی کا جواز مہیا کرنے کی کوشش کی۔

پیپلزپارٹی چونکہ کسی صوبے میں اقتدار میں نہ تھی، اس لیے وہ صوبائی اسمبلیوں کو برقرار رکھنے کے حق میں نہ تھی۔
عدالت سے نواز شریف کی بحالی 
صدر نے نواز شریف کی حکومت ختم کرکے 14 جولائی کو قومی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر رکھا تھا۔ سابق وزیراعظم نے 25 اپریل کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
عدالت عالیہ نے  8 مئی  سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا۔ صدر کی طرف سے شریف الدین پیرزادہ اور عزیز اے منشی نے دلائل دیے۔ مگر خالد انور نے اس آئینی مہارت اور تکنیکی چابکدستی سے اسمبلی کی بحالی کا کیس لڑا کہ عدالت ان کی تحسین پر مجبور ہوگئی۔
سماعت کے اختتام پر عدالت کا ان کے بارے میں تبصرہ یوں تھا ’جس انداز میں آپ نے  دلائل دیے آج اگر اے کے بروہی زندہ ہوتے تو کس قدر خوش ہوتے۔‘
گیارہ رکنی بینچ میں سے صرف جسٹس سجاد علی شاہ نے نواز شریف حکومت کی بحالی سے اختلاف کیا۔
ممتاز قانونی ماہر حامد خان ایڈوکیٹ اپنی کتاب ’کانسٹیٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں اس اہم فیصلے کے نکات کو نقل کیا ہے۔ جس کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیراعظم کی صدر کے بجائے قومی اسمبلی کو جواب  دہی کا ذکر کیا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ کوئی شخص خواہ کتنے ہی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو عوام کے منتخب نمائندوں کے ایوان کو ختم نہیں کرسکتا ۔تا وقتیکہ  اس کے لیے معقول وجہ موجود ہو۔
سپریم کورٹ نے غلام اسحاق خان کی طرف سے نواز شریف کی تقریر کو بغاوت کے زمرے میں شمار کرنے سے بھی انکار کیا۔ساتھ ہی صدر کی طرف سے ممبران اسمبلی سے استعفی لینے کو صدر کا نہیں بلکہ سپیکر قومی اسمبلی کا اختیار قرار دیا۔
اکثریت سے اختلاف کرنے والے سجاد علی شاہ نے اپنے طویل اختلافی نوٹ میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے دونوں کی نوعیت کو یکساں قرار دیا۔ انہوں نے نواز شریف کے خلاف مبینہ بدعنوانیوں کا ذکر بھی اپنے نوٹ میں کیا۔ ان کے اختلافی نوٹ کا سب سے اہم نکتہ یہ دلیل تھی کہ ایک سندھی وزیراعظم کو ریلیف نہیں دیا گیا جبکہ یکساں کیس میں پنجابی وزیراعظم کے لیے معیار اور پیمانے بدل گئے۔ 
پنجاب کا سیاسی و آئینی انتشار 
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پنجاب میں سیاسی، انتظامی اور آئینی بحران کئی شکلیں اختیار کر چکا ہے۔موجودہ سیاسی کشمکش سے ملتی جلتی صورتحال پنجاب میں اس دور میں بھی تھی۔
نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی جماعت کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کردیا گیا۔
اس وقت کے سپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور وٹو اکثریتی  ممبران اسمبلی کی حمایت سے 25 اپریل کو  نئے وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے۔
سپریم کورٹ سے قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد  اسمبلی کے ممبران نے ان کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا۔ انہوں نے 29  مئی کو گورنر چوہدری الطاف کو صوبائی اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیا۔
یہیں سے صوبے میں ایک سیاسی اور آئینی بحران نے جنم لیا ۔یہاں تک کہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے پہنچ گیا۔
پرویز الٰہی کا مشن پنجاب 
پنجاب اسمبلی کے موجودہ سپیکر پرویز الٰہی کو وفاق میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد تحریک انصاف نے وزارت اعلیٰ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل کر سکیں۔
اتفاق کی بات ہے کہ 29 برس قبل اسی طرح کے حالات اور مقاصد کے تحت نواز شریف نے انہیں پنجاب کا مشن سونپا تھا۔ میاں منظور وٹو کے مقابلے میں کامیابی کی صورت میں ان سے وزارت اعلی کا وعدہ کیا گیا تھا۔
چوہدری پرویز الٰہی نے منظور وٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی۔ ٹھیک اسی وقت گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔
یہاں قانونی اور تکنیکی مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ آیا وزیراعلیٰ نے اسمبلی توڑنے کا مشورہ پہلے دیا تھا یا ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پہلے جمع کروائی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ نے 25  جون کو اسمبلی کی بحالی کا حکم دیا۔ پرویز الٰہی اس روز اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے منظور وٹو کے خلاف عدم اعتماد کی ایک اور قرار داد نہ جمع کروا سکے۔ وزیراعلیٰ نے ایک مرتبہ پھر گورنر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھیج دیں۔
پنجاب سے سخت سیاسی چیلنجز نے نواز شریف کو یہ باور کروا دیا کہ ان کا دائرہ اختیار صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
اپنی اس بے اختیاری کے ازالہ کے لیے وزیراعظم نے ایک اور داؤ آزمانے کا فیصلہ کیا۔
اسلام آباد اور لاہور آمنے سامنے 
پنجاب کے گورنر عمر سرفراز چیمہ کو وفاقی حکومت کی طرف سے ان کے عہدے سے ہٹانے کے بعد پیدا ہونے والا قانونی اور آئینی بحران مسلم لیگ نون کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔
سنہ 1993  میں اسی سے ملتی جلتی سیاسی اور قانونی کشمکش نے پنجاب میں بھی جنم لیا تھا۔ جب وفاقی حکومت میں گورنر پنجاب چوہدری الطاف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے صدر غلام اسحاق خان کو سفارش ارسال کی۔صدر کے انکار کے بعد وفاقی حکومت نے آرٹیکل 234 کے تحت صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بزرگ سیاست دان اور نواز شریف کابینہ کے سابق رکن سرتاج عزیز اپنی کتاب Between Dreams and Realities میں پنجاب اور وفاق کے درمیان کشمکش کی تفصیل بیان کی ہے ۔ان کے مطابق 29 جون کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کی قرارداد منظور کی گئی۔
اسی رات کابینہ ڈویژن نے چودھری الطاف حسین کی جگہ خواجہ طارق رحیم کو نیا گورنر بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اسی طرح وفاق نے نئے چیف سیکرٹری اور آئی جی کا تقرربھی کر دیا۔
حالات اس وقت کشیدہ ہو گئے جب وزیراعلیٰ منظور وٹو نے وفاق کے اس اقدام کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے یہ دلیل اختیار کی کہ صدر کی منظوری کے بغیر اس طرح کا کوئی  بھی نوٹیفکیشن غیر آئینی ہے۔

سرتاج عزیز اپنی کتاب Between Dreams and Realities میں پنجاب اور وفاق کے درمیان اس وقت ہونے والی کشمکش کی تفصیل بیان کی ہے (فوٹو: سکرین گریب)

صوبائی حکومت نے پولیس کو اپنے احکامات کا پابند کر رکھا تھا۔ دوسری طرف وفاق نے اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔
صوبے میں ایک ہی وقت میں دو گورنر اور دو دو چیف سیکرٹری اور آئی جی تھے۔ اسلام آباد اور لاہور ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔پاکستان آرمی کی طرف سے رینجرز کو پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیا گیا تو کشیدگی میں کچھ کمی واقع ہوئی۔
بے نظیر بھٹو کا لانگ مارچ 
نواز شریف کی حکومت کی بحالی کے بعد بے نظیر بھٹو نے راولپنڈی کے لیاقت باغ کے جلسے میں حکومت کی بحالی کو "چمک" کا نتیجہ قرار دیا۔
اگلے ہفتے نوابزادہ نصراللہ خان کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس نے نواز شریف حکومت کے خلاف اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔بے نظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمان فوری لانگ مارچ کے حق میں نہ تھے۔مگر 14 جولائی کو انہوں نے بھی لانگ مارچ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
صورتحال میں کشیدگی کے آثار پیدا ہوئے تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل وحید کاکڑ نے شٹل ڈپلومیسی سے بحران کا حل نکالا۔سرتاج عزیز کے مطابق انہوں نے صدر اور وزیراعظم سے کئی ملاقاتیں کی۔ 
15  جولائی کی شام ان کا خصوصی طیارہ بےنظیر بھٹو کو لے کر راولپنڈی پہنچا۔ جہاں انہیں لانگ مارچ سے پیدا مسائل سے آگاہ کرکے اسے منسوخ کرنے کا کہا گیا۔ بینظیر بھٹو نے نئے انتخابات کی یقین دہانی پر اپنا لانگ مارچ ملتوی کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ انہوں نے وہیں سے جہانگیر بدر کے موبائل فون پر مارچ کے شرکاء کی لاہور سے روانگی روکنے کا حکم دیا۔
دو بڑوں کی رخصتی 
18 جولائی 1993 کی شام نواز شریف ایک بار پھر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے مخاطب تھے۔اس بار ان کا لہجہ پہلے جیسا تندوتیز نہیں تھا۔ انہوں نے ایوان اقتدار سے اپنی رخصتی کا اعلان کیا۔ 
اس طرح 26 مئی کو سپریم کورٹ سے بحالی کے باوجود نواز شریف کو ایوان  اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ مگر اس بار وہ اکیلے نہ تھے بلکہ اس سیاسی کہانی کے سب سے بڑے کردار غلام اسحاق خان کی  ایوان صدر سے رخصتی کا سامان بھی ہو گیا۔
اسلام آباد میں ایک ہی شام اتنے بڑے واقعات کا ظہور پہلی بار ہوا تھا۔جس کے پیچھے 15 جولائی سے جاری اقتدار کی تکون کے اجلاسوں میں طے ہونے والا انتقال اقتدار کا فارمولا تھا۔
اپوزیشن کا لانگ مارچ ملتوی ہونے کے بعد آرمی چیف کو ملک میں چھے ماہ سے جاری بحران کا حل نکالنے اور اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے متحرک ہونا پڑا۔
سرتاج عزیز کے مطابق آرمی چیف سے ملاقاتوں کے بعد یہ طے پایا کہ نواز شریف اٹھاون ٹو بی کےتحت صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کریں گے۔ اسی طرح غلام اسحاق خان آرٹیکل 43 کے تحت اپنا استعفیٰ پیش کریں گے۔
تین دہائیوں کے بعد پاکستان کی سیاست میں لانگ مارچ ، اسمبلیوں کے خاتمے اور نئے انتخابات کی یقین دہانیوں کے نعروں کی گونج ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ شاید 90 کی دہائی کی سیاست نئے کرداروں اور واقعات کا روپ دھار کر ہمارے سامنے جلوہ گر ہو رہی ہے۔

شیئر: