Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں شدید بارشیں، ’2010 جیسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے‘

پاکستان کے مختلف علاقوں میں جاری پری مون سون بارشوں کے نتیجے میں پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں نشیبی علاقے زیرآب آگئے ہیں۔
سیلابی ریلوں میں رابطہ سڑکیں بہہ جانے سے کئی علاقوں کا رابطہ کٹ گیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ’معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں پاکستان کو 2010 جیسی سیلابی صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے۔‘
محکمہ موسمیات کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹے میں پنجاب، خیر پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان میں بیشتر اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش ہوئی۔
سب سے زیادہ بارش پنجاب کے علاقے جھنگ میں 98 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ 
ڈیرہ غازی خان میں 69، بھکر میں 63 جبکہ لاہور میں 25 سے 40 ملی میٹر بارش ہوئی۔ ملتان، اوکاڑہ، قصور، مری، ساہیوال، راولپنڈی، گجرات، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں بھی بارش ہوئی۔ میانوالی، بھکر اور دیگر علاقوں میں بارش کے ساتھ ژالہ باری بھی ہوئی۔
بارش سے متاثرہ پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں میں بجلی کی بندش کے دورانیے میں اضافہ دیکھا گیا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق لاہور اور جھنگ میں تیز بارش اور آندھی سے درجنوں فیڈرز ٹرپ کرگئے۔ 
خیبر پختونخوا میں مالاکنڈ، چترال، دیر، سوات، بونیر، شانگلہ، ڈیرہ اسماعیل خان، کالام ،صوابی اور چارسدہ میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔
حکام کے مطابق دیر، سوات اور شانگلہ میں لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے آمدورفت متاثر ہوئی ہے۔ صوبے میں سب سے زیادہ بارش ڈیرہ اسماعیل خان میں 64 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ ڈی آئی خان میں مکان کی چھت گرنے کے ایک واقعے میں تین بچے زخمی ہوئے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اسلام آباد میں 24 گھنٹوں کے دوران مختلف مقامات پر 9 سے 17 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ کشمیر میں مظفرآباد اور کوٹلی، بلوچستان میں ژوب، شیرانی، کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بھی بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ ڈیرہ بگٹی میں طوفانی بارش کے باعث مکان کی چھت گرنے سے بچے سمیت تین افراد زخمی ہوئے۔

پاکستان میں معمول سے زیادہ بارشوں کا رجحان جاری رہے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیرکوہ میں بھی نو ماہ کے بعد بارش ہوئی جس پر شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس علاقے کے لوگ پینے کے پانی کی قلت کی وجہ سے جوہڑوں اور تالابوں کا گندا پانی پینے پر مجبور تھے۔ اس وجہ سے گذشتہ ماہ یہاں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی جس سے چھ افراد ہلاک اور تین ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے۔
پیرکوہ کے رہائشی سماجی کارکن وڈیرہ نور حسن بگٹی نے بتایا کہ ہمارے علاقے کے لوگوں کا انحصار بارش کے پانی پر ہے ؎، لمبے عرصے بعد اچھی بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے لوگ خوش ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں موجود دو ڈیمز کا معیار غیر معیاری ہے جس کی وجہ سے وہاں پانی ذخیرہ ہی نہیں ہوتا جبکہ ٹیوب ویلز کا کام ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا اس لیے لوگ آئندہ بھی برساتی نالوں کا گندا پانی پر مجبور ہوں گے۔
کوہلو میں بارش کے ساتھ ساتھ ژالہ باری کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری ہے۔ ژالہ باری موسلادھار بارشوں نے فصلوں اور رابطہ سڑکوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پرونشل ڈزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بلوچستان کے مطابق سوناڑی کے مقام پر پل بہہ جانے سے کوہلو کا سبی اور کوئٹہ سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ 
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں پری مون سون بارشوں سے ہونے والی اموات کی تعداد سات تک پہنچ گئی ہے جبکہ ایک بچے اور تین خواتین سمیت 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سبی میں 300 سے زائد مویشی سیلابی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ کوہلو، صحبت پور، سبی اور شیرانی میں بجلی کے کھمبوں اور شمسی پینلز کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

’راستے کھلنے تک گلگت بلتستان کا سفر نہ کریں‘

گلگت بلتستان میں بارش کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر برف باری بھی ہوئی۔ برف باری کی وجہ سے بابوسر ٹاپ ٹریفک کے لیے بند ہوگیا ہے۔ سب ڈویژن روندو میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے درختوں، کھڑی فصلوں کے علاوہ جیپ ٹریکس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ بارشوں اور لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے جگلوٹ سکردو روڈ چماچو، تورمک اور ڈمبوداس کے مقامات پر ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہوگیا ہے۔ سڑک کی کلیئرنس کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ سڑک بند ہونے سے سینکڑوں سیاح بھی پھنس گئے ہیں۔

لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے جگلوٹ سکردو روڈ چماچو، تورمک اور ڈمبوداس کے مقامات ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہیں (فائل فوٹو: ڈی سی سکردو ٹوئٹر)

چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے پھنسے ہوئے سیاحوں اور مسافروں کے لیے سرکاری ریسٹ ہاؤسز کھولنے کی ہدایت کی ہے۔ گلگت بلتستان کی حکومت نے مسافروں کو راستے مکمل طور پر کھلنے تک سڑک پر سفر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بیان کے مطابق بھاری پتھروں اور بڑی سلائیڈوں کی وجہ سے سڑک کی بحالی میں ایک یا دو دن لگ سکتے ہیں۔ 
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ تیز بارشوں کا سلسلہ جمعرات تک جاری رہ سکتا ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے بعض علاقوں کے علاوہ پنجاب میں لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، ساہیوال، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں سیلابی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ 

’ملک کے بڑے حصے میں سیلاب کا واضح خطرہ ہے‘

محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ پری مون سون بارشوں کے بعد جولائی کے آغاز میں مون سون بارشیں شروع ہوں گی۔ محکمے نے معمول سے زیادہ بارشوں  کا امکان ظاہر کیا ہے۔
ادھر وفاقی وزیرماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا ہے کہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں کراچی، لاہور، ملتان، پشاور، اسلام آباد سمیت ملک کے بڑے حصے میں سیلاب کا واضح خطرہ ہے۔ 

محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ جولائی کے آغاز میں مون سون بارشیں شروع ہوں گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اپنے ایک بیان میں شیری رحمان کا کہنا تھا کہ مون سون کے آغاز نے پہلے ہی ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہنگامی صورتحال پیدا کی ہے۔ پاکستان میں بھی معمول سے زیادہ بارشوں کا رجحان رہے گا اور کم از کم اگست 2022 تک مون سون بارشیں ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب، سندھ، کشمیر اور گلگت بلتستان  میں معمول سے زیادہ بارشیں متوقع ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مون سون بارشوں کے ممکنہ تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے قومی اور صوبائی محکموں کو مربوط حکمت عملی اپنانے اور بروقت احتیاطی اقدامات اٹھانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
شیری رحمان کا کہنا ہے کہ پیش گوئیاں کی گئی ہیں کہ پاکستان کو 2010 جیسی سیلابی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ 12 برس قبل آنے والے سیلاب سے دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔
 

شیئر: