Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بائیڈن کو احساس ہوا کہ سعودی عرب سے وسیع تعلقات کو ناکام نہ ہونے دیا جائے‘

صدارتی مہم کے دوران جو بائیڈن سعودی عرب پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر جو بائیڈن عوامی سطح پر سعودی عرب کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار تو کرتے رہے ہیں تاہم دوسری جانب اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارتکاروں کے ذریعے تعلقات بحال کرنے کی خفیہ کوششیں بھی جاری رکھیں۔
امریکی سینیئر تجزیہ کار اور سی این این ٹیلی ویژن کے ساتھ بطور صحافی کام کرنے والی ایلیس لیبوٹ نے عرب نیوز کو بتایا کہ جو بائیڈن نے جب صدارتی منصب سنبھالا اور پالیسی سازی کا عمل شروع کیا تو ان کا یہ ارادہ بالکل نہیں تھا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ ناگوار رویہ اپنائیں گے لیکن بعد میں سیاسی مجبوریاں رکاوٹ بن گئیں۔
’کچھ عرصے بعد سعودی بھی تعلقات ٹھیک کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے امریکی خواہش کے مطابق بہت سارے اقدامات کیے۔‘
خیال رہے کہ ایلیس لیبوٹ پولیٹیکو میگزین کے ساتھ بطور کالم نگار منسلک ہیں اور طویل صحافتی کیریئر کے دوران انہیں سعودی اور امریکی اعلیٰ سیاسی حلقوں تک رسائی حاصل رہی ہے۔ 
انہوں نے عرب نیوز کے شو ’دا رے ہنانیہ‘ جو امریکی عرب ویڈیو نیٹ ورک پر بھی نشر ہوتا ہے میں سعودی امریکی تعلقات پر اظہار خیال کیا ہے۔
ایلیس لیبوٹ نے بتایا کہ گزشتہ سال کے دوران امریکی عہدیداروں نے سعودی عرب کے کئی سرکاری دورے کیے جن میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان اور خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنس کا دورہ بھی شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس کو اندازہ ہوا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان تحفظات موجود ہیں لیکن سکیورٹی، معاشی اور علاقائی سطح پر سعودی عرب ایک قابلِ قدر شراکت دار ہے اور اس تعلق میں کسی قسم کی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں۔
ایلیس لیبوٹ کا کہنا تھا کہ صدارتی مہم کے دوران جو بائیڈن نے یقیناً سعودی عرب کی طرف نا پسندیدگی کا اظہار کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انہیں احساس ہوا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہت وسیع ہیں کہ انہیں ناکام نہ ہونے دیا جائے۔

جو بائیڈن کا بطور صدر سعودی عرب کا پہلا سرکاری دورہ متوقع ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایلیس کے مطابق یوکرین جنگ اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دوران امریکی حلقوں میں یہ احساس بڑھتا چلا گیا کہ کیوں نہ ان مسائل کے حل کے لیے 75 سالہ پرانے مضبوط پارٹنر کی جانب دیکھیں۔
ایلیس کہتی ہیں کہ اگرچہ عوامی سطح پر صدر بائیڈن سعودی عرب اور بالخصوص ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے لیکن ذاتی کوششوں کے تحت وہ سفارتکاروں کو سعودی عرب بھی بھجوا رہے تھے تاکہ تعلقات کو آگے بڑھایا جائے۔
’یہ سب خفیہ طور پر ہو رہا تھا۔ گزشتہ سال سے دونوں ممالک کے درمیان بیک چینل سفارتکاری جاری ہے جس کے ذریعے مخلتف مسائل پر پیش رفت کی کوششیں جاری رہیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ سعوی عرب کا عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر اثر و رسوخ واحد وجہ نہیں ہے جس نے امریکہ کو مفاہمتی رویہ اپنانے پر مجبور کیا۔
’امریکہ (تیل کی) مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے یقیناً سعودی عرب کی طرف دیکھ رہا ہے۔۔۔ اور ابتدائی طور پر یہ خیال تھا کہ اگر سعودی عرب تیل کی پیداوار میں اضافہ کر دے تو یہ ( قیمتوں میں اضافے)  تکلیف کم ہو سکتی ہے۔‘
ایلیس کا کہنا تھا کہ اگر عالمی سطح پر دیکھیں تو خارجہ پالیسی سے جڑے بڑے مسائل سعودی عرب کی شمولیت کے بغیر حل کرنا مشکل ہے، چاہے وہ لبنان، ایران، عراق یا اسرائیل کا مسئلہ ہو۔
’امریکہ کا بہت سی ریاستوں کے ساتھ فعال تعلق ہے اگرچہ ہر مسئلے پر دونوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں پایا جاتا اور امریکہ کے لیے بھی یہ سمجھنا ضروری تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کو اپنی مرضی کے تابع نہیں کر سکتا۔۔۔ چاہے وہ عرب امارات، سعودی عرب یا خلیجی ممالک ہوں۔ یہاں پر بادشاہت ہے جمہوریت نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ سعودی عوام سے پوچھیں کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان کی حمایت کرتے ہیں، اور اگر انتخابات کروائیں تو میرے خیال میں وہ بآسانی جیت جائیں گے۔‘

سعودی نائب وزیر دفاع نے مئی 2022 میں امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ فوٹو: عرب نیوز

ایلیس نے بتایا کہ امریکہ کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوتن کو شکست دی جائے اور سعودی عرب سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ جمہوریت کا ساتھ دیتے ہوئے یوکرین جنگ کی مخالفت کرے۔
’اس وقت ہمارا ایک ہی مقصد ہے کہ پیوتن کو شکست دیں اور ہمیں اس کے لیے سعودی عرب کی مدد کی ضرورت ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تیل کی منڈی میں ایسا کچھ نہ کیا جائے جس سے صدر پیوتن کی حوصلہ افزائی ہو۔ ضروری نہیں ہے کہ امریکہ کی خواہش کے مطابق (سعوودی عرب ) پابندیوں کی حمایت کرے لیکن ایسا کوئی قدم بھی نہ اٹھائے جو صدر پیوتن کے لیے مددگار ثابت ہو۔‘

شیئر: