Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شانگلہ: مسلمانوں کا گردوارے کے لیے زمین دینے کا فیصلہ

’1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جب ہمیں انڈیا لے جانے کے لیے ٹرک آئے تو مقامی مسلمانوں نے ہمیں علاقہ چھوڑنے سے منع کر دیا اور کہا کہ آپ ہمارے بچے ہیں۔ آپ کا یہی علاقہ ہے اور ہم آپ کو یہاں سے جانے نہیں دیں گے۔‘ 
یہ کہنا ہے ضلع شانگلہ میں آباد سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے ہرمیت سنگھ کا۔ ہرمیت سنگھ پاکستان کے پہلے سکھ اینکر پرسن ہیں اور کئی کرنٹ افیئر شوز سمیت مارننگ شو کی بھی میزبانی کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ شانگلہ میں کئی صدیوں سے سکھ برادری آباد ہے اور ان کو مقامی مسلمانوں سے اتنا پیار اور محبت مل رہا ہے کہ انہیں اقلیتی برادری ہونے کا کبھی احساس بھی نہیں ہوا۔  
شانگلہ کے مقامی لوگوں کے مطابق سکھ اور ہندو اس علاقے میں صدیوں سے مقیم رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے پاکستان کے دیگر علاقوں اور کچھ نے انڈیا بھی ہجرت کی۔  
لیکن تحصیل چکیسر میں اب تک ایک بڑی آبادی سکھوں پر مشتمل رہی ہے اور ان کی اکثریت نے کبھی یہ علاقہ چھوڑنے کا نہیں سوچا۔
تاہم پچھلے کچھ عرصے سے مقامی سکھ  آبادی کافی پریشان ہے اور اس برادری کے کئی خاندان یہ علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ یہاں عبادت کے لیے گردوارے کا نہ ہونا ہے۔

شانگلہ کے مقامی لوگوں کے مطابق سکھ اور ہندو اس علاقے میں صدیوں سے مقیم رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

اس سے قبل وہ یہاں شمشان گھاٹ اور قبرستان نہ ہونے کی وجہ سے فکرمند تھے، لیکن مقامی مسلمانوں نے اپنی ذاتی زمینیں عطیہ کر کے اور سکھ آبادی کے ساتھ مل کر اپنی مدد آپ کے تحت ان کے لیے شمشان گھاٹ تعمیر کروا دیا۔
اس کے بعد ان کی پریشانی کچھ کم ہوئی لیکن عبادت گاہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ابھی بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ 
اقلیتی برادری کے نمائندے گلزار سنگھ بتاتے ہیں کہ ان کو اس علاقے میں ہر لحاظ سے مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن عبادت گاہ کی عدم دستیابی اور مقدس کتاب گرنتھ صاحب کی عدم موجودگی کے باعث لوگوں کو اپنی عبادت میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جس کے باعث اکثر لوگ دور دراز علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔ 
گلزار سنگھ کا کہنا ہے کہ ’اس محرومی کی وجہ سے بیشتر خاندان دیگر علاقوں کی جانب ہجرت کر کے چلے گئے ہیں۔‘ 
آج سے 72 سال پہلے 1950 میں بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوئی تھی جب سکھوں نے شمشان گھاٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت چکیسر کے ایک خاندان نے شمشان گھاٹ کے لیے ایک کنال زمین بطور تحفہ دے دی۔
زمین کا یہ ٹکڑا علاقے کے ایک بڑے کھیت کے عین وسط میں واقع ہے۔ جو کہ بظاہر کسی اجتماعی مقصد کے لیے دینا کسی بھی زمیندار کے لیے آسان نہیں ہوتا تاہم جب اس وقت سکھ بزرگوں نے اس جگہ شمشان گھاٹ بنانے کی خواہش ظاہر کی تو ان کو اس علاقے میں روکنے کے لیے زمین کے مالک نے بخوشی یہ ٹکڑا عطیہ کر دیا۔
یہ جگہ دینے والے الطاف حسین کہتے ہیں کہ وہ اب بھی گردوارے کے لیے زمین دینے اور اس کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے حکومت کی امداد کی ضرورت ہے۔
 ’سکھ برادری نے ہم سے ایک بڑے کھیت کا وسطی ٹکڑا مانگا تھا۔ اس کی وجہ سے کھیت کی زمین متاثر ہو رہی تھی لیکن ہمارے بڑوں نے اس کی پروا کیے بغیر ان کی خوشی کے لئے زمین عطیہ کر دی۔‘ 
’یہاں کے سکھ ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو زمین کیا، خون بھی دے سکتے ہیں۔‘  
مقامی سکھ گیان پرکاش بتاتے ہیں کہ نہ صرف شمشان گھاٹ کی زمین مسلمانوں نے عطیہ کی بلکہ بچوں کے قبرستان کے لیے بھی بغیر معاوضے کے زمین دی گئی ہے۔ اب سکھ برادری اپنے بڑوں کا انتم سنسکار اسی شمشان گھاٹ میں کرتے ہیں جبکہ بچوں کو مسلمانوں کی عطیہ کی گئی زمین میں دفن کرتے ہیں۔  
شمشان گھاٹ اور قبرستان کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن عبادت کے لیے سکھ گھرانوں کے افراد کو اب بھی دور دراز علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔ 

گیان پرکاش بتاتے ہیں کہ نہ صرف شمشان گھاٹ کی زمین مسلمانوں نے عطیہ کی بلکہ بچوں کے قبرستان کے لیے بھی بغیر معاوضے کے زمین دی گئی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

 گلزاری سنگھ گردوارے کی عدم موجودگی کے باعث یہ علاقہ چھوڑنا نہیں چاہتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کو اپنے علاقے سے محبت ہے۔ 
  وہ کہتے ہیں کہ ’جیسے مچھلی پانی کے  بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، ٹھیک اسی  طرح وہ بھی اپنے علاقے اور لوگوں کے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘  
ہرمیت سنگھ کہتے ہیں ’اس علاقے میں ہمیں ہر طرح کی سہولت میسر ہے لیکن ہم تاحال مناسب عبادت گاہ سے محروم ہیں۔‘   
مقامی سکھ دکاندار گلزاری لعل کہتے ہیں کہ گردوارہ بنانے کے لیے ہیڈگرنتھ صاحب (عبادت میں رہنمائی کرنے والا) کی ضرورت بھی ہوگی جو صرف حکومت کی طرف سے تعینات کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمیعت علمائے اسلام کے مقامی رہنما شوکت علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ اگرحکومت  گردوارے کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کرے تو مقامی مسلمان نہ صرف یہ کہ زمین دیں گے بلکہ اس کی تعمیر بھی اپنے ہاتھوں سے کریں گے۔  
’ہم سب تو ایک گلدستے کے مانند ہیں۔ ان کی یہ محرومی دور کرنے کے لیے اگر حکومت اقدامات اٹھائے تو علاقہ مکین تعاون سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘ 
گلزاری لعل نے بتایا کہ علاقے میں جتنے بھی مسلمان علماء ہیں وہ  سب ان کی تائید کر رہے ہیں اور ان کو مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں۔
یہ مذہبی ہم آہنگی صرف عبادت گاہوں کی فراہمی اور حفاظت تک محدود نہیں ہے۔ چکیسر کے لوگوں کی خوشیاں اور غم بھی سانجھے ہوتے ہیں۔  
مقامی لوگوں کے مطابق وہ رمضان، عیدین، شادیوں اور وفات پر ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔
عیدالاضحیٰ پر سکھ برادری کو بھی بھیڑوں اور بکریوں کی قربانی کا گوشت بھجوایا جاتا ہے، اور بیساکھی کی تقریب میں ان کے ساتھ شرکت کی جاتی ہے۔
اسی طرح رمضان میں افطاریاں ساتھ ہوتی ہیں اور موت مرگ پر تعزیتی بیٹھکیں بھی مشترک ہوتی ہیں۔  

شیئر: