Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریکوڈک معاہدے پر دستخط، بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کیا ہیں؟

سردار اختر مینگل نے ’فارن انویسٹمنٹ پروٹیکشن‘ بل واپس نہ ہونے کی صورت میں حکومت چھوڑنے تک کی دھمکی دی ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
صوبہ بلوچستان میں واقع سونے، چاندی اور تانبے کے دنیا کے بڑے ذخائر میں سے ایک ریکوڈک پر پاکستانی حکومت اور کینیڈا کی بیرک گولڈ کمپنی کے درمیان معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔
جمعرات کی رات کو چیف سیکریٹری بلوچستان  عبدالعزیز عقیلی نے ایک ٹویٹ میں اس معاہدے پر دستخط ہونے کی تصدیق کی اور اسے بلوچستان کی ’عظیم کامیابی‘ قرار دیا۔
بلوچستان حکومت نے بھی ریکوڈک منصوبے کا معاہدہ طے پا جانے کا اعلان کیا ہے۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کا ’سب سے بڑا بیرونی سرمایہ کاری کا معاہدہ‘ ہے جس کی مجموعی لاگت آٹھ ارب ڈالر ہے۔
’جمعرات کو معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان پر بین الاقوامی عدالت کی جانب سے عائد چھ ارب 50 کروڑ ڈالر کا جرمانہ بھی غیر موثر ہو گیا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’ریکوڈک معاہدہ 16 دسمبر 2022 سے نافذ العمل ہو گا اور کمپنی فوری طور پر کام کا آغاز کر دے گی۔‘
معاہدے پر بیرک گولڈ کارپوریشن کے نمائندے نے دستخط کیے۔ جبکہ حکومت پاکستان کی جانب سے وفاقی نمائندے اور بلوچستان حکومت کی جانب سے صوبائی نمائندے نے معاہدے پر دستخط کیے۔
اس معاہدے سے قبل پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے ایک قانون پر بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں اور جمعیت علمائے اسلام نے شدید اعتراضات کیے ہیں۔
وفاقی حکومت کی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قانون واپس نہ ہونے کی صورت میں حکومت چھوڑنے تک کی دھمکی دی ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ معاملات حل ہونے کا دعویٰ کیا ہے، تاہم بی این پی کے رہنماؤں نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ 31 دسمبر کو پارٹی کی مرکزی کمیٹی میں کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پچھلے دنوں منظور کیے گئے اس قانون کو ’فارن انویسٹمنٹ پرموشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2022‘ کا نام دیا گیا ہے، جس کے تحت 50 کروڑ امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرنے والوں کو خصوصی مراعات دی گئی ہیں۔
وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون ریکوڈک معاہدے کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن بلوچستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں اور بعض معاشی ماہرین نے بھی اس قانون پر خدشات ظاہر کیے ہیں۔
امریکا میں اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر میں پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر اور معاشی تجزیہ کار عزیر یونس نے نئے قانون کو لامحدود اختیارات کا حامل قرار دیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قانون وفاقی حکومت کو مستقبل میں کسی اور منصوبے پر لاگو کرنے کا اختیار بھی دیتا ہے اور 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی حد لاگو کیے بغیر بھی وفاقی حکومت ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کسی بھی منصوبے کو کسی بھی سرمایہ کاری کے ساتھ جو بھی مراعات دینا چاہے دے سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک بار کسی منصوبے کو اس قانون سے فائدہ اٹھانے کا اہل قرار دے دیا جائے تو پھر وفاقی حکومت یہ مراعات واپس نہیں لے سکتی اور پھر خود مختاری نہیں رہے گی۔‘
عزیر یونس کے مطابق ’یہ قانون مستقبل کی حکومتوں کے نئے ٹیکس، ڈیوٹیز اور یہاں تک کہ مقامی کمیونٹی کی فلاح و بہبود پر زور دینے کا اختیار بھی چھین لیتا ہے۔‘
’بنیادی طور پر یہ قانون کہتا ہے کہ جو کچھ بھی ایک کوالیفائیڈ انویسٹمنٹ کو ایک بار دیا جاتا ہے وہ مستقبل میں واپس نہیں لیا جائے گا۔‘
عزیر یونس کا کہنا تھا یہ قانون سرمایہ کار کو انکم ٹیکسز، سیل ٹیکسز، کیپٹل ویلیو ٹیکسز، کسٹم ڈیوٹیز، ایکسپورٹ ڈیوٹیز، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، پراپرٹی ٹیکس، سٹمپ ڈیوٹی، صوبائی سماجی بہبود اور لیبر قوانین سےاستثنیٰ دیتا ہے۔
’اس کے علاوہ اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کے علاوہ بینکنگ لین دین کی رازداری بھی ہو گی۔ اس قانون کے تحت ٹیکسیشن حکام محفوظ اکاؤنٹس کی جانچ بھی نہیں کر سکیں گے۔ اس قانون کو پاکستان میں موجود تمام قوانین پر سبقت حاصل ہو گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریکوڈک تنازع حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس قانون کے ساتھ اور اس طریقے سے ساتھ ایسا کرنا ’پاگل پن‘ ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ یہ قانون ریکوڈک معاہدے کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے کیا اعتراضات ہیں؟

گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت کو غیرملکی سرمایہ کاری سے متعلق قانون سازی کا اختیار دینے کے لیے قرارداد کی منظوری کے موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں احتجاج کیا تھا۔
بلوچستان میں حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس قانون کا دفاع کیا ہے۔
جماعت کے سیکریٹری جنرل سینیٹر منظور کاکڑ کہتے ہیں کہ ریکوڈک معاہدہ کو متنازع بنانے کی کوششیں ملک اور صوبے کے ساتھ دشمنی ہے۔
مرکز میں حکومت کی ناراض اتحادی جماعتوں بی این پی، جے یو آئی کے ساتھ ساتھ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) بھی نے ’فارن انویسٹمنٹ پروٹیکشن بل‘ کو بلوچستان کے عوام کے حقوق کی حق تلفی قرار دیا ہے۔
ان جماعتوں کا مؤقف ہے کہ ’اس قانون کی آڑ میں معدنیات پر صوبوں کے حقوق اور 18 ویں ترمیم کے تحت وفاقی اکائیوں کو حاصل اختیارات واپس لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
بلوچستان نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت ساحل، تیل و گیس سمیت دیگر معدنیات اور قدرتی وسائل پر صوبوں کا 50 فیصد حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اس آئینی ترمیم کے لیے سیاسی و جمہوری جماعتوں نے بڑی تگ و دو کی مگر نئے قانون میں ’سارے اختیارات چھین کر مرکز کو دے دیے گئے ہیں۔‘

وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ کے مطابق بلوچستان میں ماسوائے ’ایک دو ضمیر فروش حکومتی جماعتوں‘ کے علاوہ سب اس قانون کے خلاف ہیں۔ (فائل فوٹو: وزرات سائنس و ٹیکنالوجی)

ان کا کہنا تھا کہ ’اتحادی ہونے کے باوجود ہم سے اور نہ ہی جمعیت علمائے اسلام سے قانون لانے سے پہلے کوئی مشاورت کی گئی۔ بلوچستان اسمبلی کو ریکوڈک سے متعلق دی گئی اِن کیمرہ بریفنگ میں بھی ایسی کسی قانون سازی سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی۔‘
آغا حسن بلوچ نے کہا کہ ’یہ 18 ویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اسے رول بیک کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے صوبے کے ساحل اور وسائل کی حفاظت کریں گے یہ آئندہ آنے والوں نسلوں کی امانت ہے۔‘
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا تھا کہ حکومت قانون واپس نہیں لیتی تو جے یو آئی اور بی این پی باقی جماعتوں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ اور پی ڈی ایم کے اجلاس میں معاملہ اٹھائے گی اور حکومت چھوڑنے سمیت آخری حد تک جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں ماسوائے ’ایک دو ضمیر فروش حکومتی جماعتوں‘ کے علاوہ سب اس قانون کے خلاف ہیں۔
’فارن انویسٹمنٹ پروٹیکشن بل‘ کے حوالے سے نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ نئے قانون کی منظوری 1973 کے آئین کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ’اس کے قتل‘ کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’طویل جدوجہد کے بعد صوبوں کو معدنیات کا اختیار ملا تھا، اب وفاق نے اس اختیار کو ضبط کر لیا ہے جس سے بلوچستان کی شدید حق تلفی ہو گی۔‘
’18 ویں ترمیم امید کی ایک کرن تھی لیکن ریکوڈک کے لالچ میں اسے بھی روند دیا گیا۔ بلوچستان حکومت مرکز کی ایما پر اپنے اختیارات سے چشم پوشی کر رہی ہے۔‘

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ نئے قانون کی منظوری 1973 کے آئین کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ’اس کے قتل‘ کے مترادف ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ان اعتراضات کے جواب میں کہا ہے کہ یہ قانون ریکوڈک معاہدے کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس میں کوئی زبردستی نہیں کی گئی۔ صوبوں کی رضا مندی سے قانون بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے کابینہ کی منظوری سے صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رائے لی گئی اور پوچھا گیا کہ آیا مسابقتی عمل کے بغیر یہ معاہدہ کسی آئین و قانون کے خلاف تو نہیں اور کیا سپریم کورٹ کا پچھلا فیصلہ اس کی راہ میں تو حائل نہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام اور پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے 17 سماعتوں کے بعد اس کی منظوری دی۔ یہ قانون پبلک ڈاکومنٹ تھا اور کوئی چیز نہیں چھپائی گئی۔‘
’فارن انویسٹمنٹ بل صوبوں کی رضا مندی سے بنایا گیا۔ بلوچستان اور سندھ کی اسمبلی نے قراردادیں پاس کیں۔ آئین کے آرٹیکل 144 میں یہ طریقہ درج ہے۔‘
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سردار اختر مینگل کو قانون پر اعتراض نہیں، وہ صرف اسے ریکوڈک تک محدود کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ترمیم لانے پر حکومت نے ان کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔
قانون سازی میں جلد بازی سے متعلق اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے تحت 15 دسمبر سے پہلے معاہدے کو فائنل کرنا تھا۔ اگر یہ ڈیل مقررہ وقت پر نہ کی جاتی تو ساڑھے چھ ارب ڈالر کے جرمانے کے ساتھ سیٹلمنٹ کی وجہ سے روکا گیا اڑھائی ارب ڈالر جرمانہ بھی لگ جاتا اور 10 کروڑ ڈالر کا ہرجانہ بھی بڑھ جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ گلہ جائز ہے کہ اس پر بحث نہیں ہوئی۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سے بنائے گئے ماحول کی وجہ سے اس پر بحث نہیں ہو سکی۔

پاکستان نے جرمانے کی ادائیگی سے بچنے کے لیے بیرک گولڈ کے ساتھ نئے سرے سے مذاکرات کیے۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)

وفاقی وزیر کے بقول اس معاہدے کے تحت پاکستان میں 10 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری آئے گی۔ اس ڈیل میں 30 سال کے عرصے میں 120 ارب ڈالر کی ریٹرنز ہیں۔ بلوچستان کو 25 فیصد کی شراکت داری، پانچ فیصد کی رائلٹی اور ساڑھے تین سے سات فیصد کے ٹیکسز کی مد میں کل ملا کر 37 فیصد تک حصہ ملے گا اور بلوچستان حکومت کی آئندہ پانچ سال تک سالانہ آمدن کا تخمینہ 2 ارب ڈالر تک چلا جائے گا۔
ریکوڈک ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں ٹیتھیان کی اراضیاتی پٹی پر واقع ہے۔
یہ پاکستان میں سونے، چاندی اور تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ سونے کے ذخائر میں ہوتا ہے۔
ان ذخائر کی تلاش کے لیے جولائی 1993 میں پہلی مرتبہ آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے ساتھ بلوچستان حکومت نے معاہدہ کیا تھا۔
بعد میں ٹی سی سی کمپنی کینیڈا کی بیرک گولڈ اور چلی کی اینٹو فاگاسٹا نے خرید لی۔
سنہ 2006 میں کیے گئے ایک اور معاہدے کے تحت دونوں غیرملکی کمپنیوں کا حصہ 37.5 فیصد جبکہ بلوچستان حکومت کا حصہ 25 فیصد طے کیا گیا تھا۔
لیکن نواب اسلم رئیسانی کی بلوچستان حکومت نے سنہ 2011 میں کمپنی کا لائسنس منسوخ کر دیا۔ اور سنہ 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
ٹی سی سی کمپنی نے ورلڈ بینک کی ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔ عالمی ثالثی عدالت نے منصوبے کو غیرقانونی طور پر روکنے پر جولائی 2019 میں پاکستان پر 10 ارب ڈالر کے لگ بھگ جرمانہ عائد کیا۔

سنہ 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بیرک گولڈ کے ساتھ معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے پی)

پاکستان نے جرمانے کی ادائیگی سے بچنے کے لیے غیرملکی کمپنی کے ساتھ نئے سرے سے مذاکرات کیے جس میں مارچ 2022 میں اہم پیشرفت ہوئی۔
پاکستان کی وفاقی اور بلوچستان حکومت نے بیرک گولڈ کارپوریشن کے ساتھ ریکوڈک منصوبے کی تشکیل نو پر اتفاق کیا جبکہ اینٹو فاگاسٹا اپنے حصے کا جرمانہ لینے کی شرط کے ساتھ باہر ہو گئی۔ اس طرح پاکستان اربوں ڈالر جرمانے سے بچ گیا۔
نئے معاہدے کے تحت بیرک گولڈ نے منصوبے میں وفاقی اور بلوچستان حکومتوں اور تین سرکاری اداروں کے ساتھ نصف نصف حصے پر شراکت دار بننے کا فیصلہ کیا۔
بلوچستان حکومت کو نئے معاہدے میں 25 فیصد حصہ دیا گیا ہے باقی 25 فیصد حصہ تین سرکاری اداروں میں مساوی تقسیم ہو گا۔
وفاقی حکومت کے بھیجے گئے ریفرنس پر نو دسمبر کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے سونے، چاندی اور تانبے کی کان کنی کے اس منصوبے کی طویل عرصہ بعد بحالی کے معاہدے کو شفاف اور قانونی قرار دیا۔
اس کے بعد وفاقی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے قانون منظور کرا لیا اور معاہدے کی تشکیل نو کی راہ ہموار ہو گئی۔
کینڈین کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن نے امید ظاہر کی ہے کہ ریکوڈک سے باقاعدہ پیداوار کا آغاز 2028 تک ہو جائے گا جس سے ابتدائی طور پر سالانہ چار ہزار ٹن تانبا، سونا اور دیگر دھاتیں نکالی جائیں گی۔

شیئر: