Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

70 سال سے چٹائی تیار کررہا ہوں، چاہتا ہوں نئی نسل یہ ہنر سیکھے: سعودی شہری

الاحسا یونیسکو کی تخلیقی شہروں کی فہرست میں شامل ہے (فوٹو: العربیہ نیٹ)
سعودی عرب کےعلاقے الاحسا کے بزرگ ہنرمند صالح عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ’وہ روایتی چٹائی کے ہنر کو زندہ کر کے رہیں گے۔ وہ 70 برس سے اس ہنر سے جڑے ہوئے  ہیں۔‘ 
العربیہ نیٹ کے مطابق صالح الحمید الاحسا کے مشہور قریے الجرن کے رہائشی ہیں اور چٹائی بنانے کا ہنر بچپن میں سیکھا تھا۔  
یاد رہے کہ الاحسا میں چٹائی کے لیے ’المداد‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جسے پرانے زمانے میں مساجد اور گھروں میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا۔ 

اب اس کا استعمال تاریخی ورثے کے طورپر ہونے لگا ہے۔ (فوٹو: العربیہ نیٹ)

الاحسا کا علاقہ چٹائی بنانے والے ہنرمندوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کے قریے الجرن میں تیار کی جانے والی چٹائیاں 200 برس سے زیادہ عرصے سے نہ صرف سعودی عرب بلکہ خلیج کے ملکوں میں بھی مقبول ہیں۔
چٹائی ’المداد‘ کی تیاری میں خودرو پودے ’الاسل‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی قدیم میں مشرقی الاحسا کے صحرائی علاقے میں واقع الاصفر جھیل سے الاسل کی پتلی شاخیں اس مقصد کے لیے لائی جاتی تھیں۔ 
ان کا کہنا ہے کہ ’انہیں یہ ہنر اپنے والدین سے ورثے میں ملا ہے۔ بانی مملکت شاہ عبدالعزیز کے الاحسا آنے سے قبل سے ہمارے یہاں یہ ہنر موجود تھا بلکہ اس سے بھی ایک صدی قبل اس کا رواج رہا ہے۔‘ 
صالح عبدالحمید کا کہنا ہے کہ وہ یہ بات مبالغے کے  بغیر کہہ سکتے ہیں کہ الجرن قریہ خلیج عرب کی سطح پر المداد کی صنعت کا دارالحکومت ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’الاحسا میں بہت سارے مقامات پر پانی جمع ہو جاتا ہے اور وہاں الاسل پودا خودبخود اگ جاتا ہے۔‘
سعودی ہنرمند نے مزید کہا کہ ’پرانے زمانے میں گھروں اور مساجد میں المداد (چٹائی) کا رواج عام تھا مگر آج اس کی جگہ قالین نے لے لی ہے۔ اب اس کا استعمال عوامی آرائش اور تاریخی ورثے کے طورپر ہونے لگا ہے۔‘
 ’اس طرح کی چٹائی کی تیاری سے آمدنی زیادہ نہیں ہوتی ہم تو اپنے آباؤ اجداد کے اس ہنر کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔  کوشش ہے کہ نئی نسل بھی اس ہنر کو سیکھے۔ اس کے فروغ کے لیے نیا راستہ یہ نکلا ہے کہ الاحسا اور مملکت کے مختلف علاقوں میں آباؤ اجداد کے ہنر کی نمائندگی کے لیے سٹال لگائے جاتے ہیں۔ وہاں ہم المداد لے کر پہنچ جاتے ہیں جسے تاریخی اشیا میں دلچسپی رکھنے والے شوق سے خریدتے ہیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’المداد کی لمبائی، چوڑائی ضرورت اور فرمائش کے حساب سے رکھی جاتی ہے کبھی کبھار سو میٹر لمبی چٹائی بھی تیار کرلی جاتی ہے۔‘ 
یاد رہے کہ الاحسا سعودی عرب کے ان شہروں میں شامل ہے جنہیں یونیسکو 2015 سے عوامی ہنر اور دستی مصنوعات کے حوالے سے تخلیقی شہروں کی فہرست میں شامل کیے ہوئے ہے۔

 

واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: