Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحت کارڈ پالیسی میں تبدیلی، سرکاری ملازمین اور امیروں کا مفت علاج نہیں ہو سکے گا؟

صحت کارڈ پر 20 لاکھ سے زائد مریضوں کا مفت علاج ہوچکا ہے۔ فوٹو: یو ایس ایڈ
صوبہ خیبرپختونخوا کی نگران حکومت پاکستان تحریک انصاف کے دور میں متعارف کرائے گئے صحت کارڈ پروگرام کو بند ہونے سے بچانے کے لیے طریقہ کار میں تبدیلی لا رہی ہے۔
نگران وزیراعلٰی کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر عابد جمیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ صحت کارڈ منصوبے کو مستقل بنانے کے لیے کچھ تبدیلی لا رہے ہیں تاکہ مفت علاج کی سہولت جاری رہ سکے۔
خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے نومبر 2020 میں صحت کارڈ پلس منصوبہ شروع کیا گیا تھا جس کے تحت تمام شہریوں کو مفت علاج کی سہولت دی جا رہی ہے۔
تاہم صوبائی نگران حکومت نے نہ صرف اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اس کی پالیسی میں تبدیلی کے لیے کمیٹی بھی بنا دی ہے۔
خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلٰی کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر عابد جمیل نے بتایا کہ صوبے نے سٹیٹ بینک کو 18 ارب روپے کے بقایا جات ادا کرنے ہیں اور مالی مشکلات کی وجہ سے صحت کارڈ بند ہونے کا خدشہ تھا۔
’کچھ پیسے جاری کر کے اس پروگرام کو بند ہونے سے بچایا ہے لیکن جاری رکھنے کے لیے طریقہ کار میں تبدیلی لا رہے ہیں۔‘
مشیرِ صحت نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کو دیگر سہولیات کی طرح میڈیکل الاؤنس بھی ملتا ہے اور اس کے ساتھ وہ صحت کارڈ کی سہولت بھی حاصل کر رہے ہیں۔
’بیشتر سرکاری ملازمین میڈیکل بل جمع کروا کے بھی پیسے وصول کرتے ہیں، اسی طرح سرمایہ دار یا امیر طبقہ اپنی صحت پر خرچہ برداشت کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہم ان کے لیے پریمیئم پالیسی متعارف کریں تو صحت کارڈ کا بوجھ کافی حد تک کم ہوسکتا ہے۔‘
ڈاکٹر عابد جمیل نے بتایا کہ پریمیئم پالیسی کے تحت صحت کارڈ میں پیسے جمع کروانا پڑیں گے یعنی بالکل مفت علاج کی ذمہ داری حکومت کی نہیں ہوگی۔

نومبر 2020 میں صحت کارڈ پلس منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر

 ’دنیا میں 100 فیصد مفت علاج کی سہولت کہیں نہیں دی جاتی جبکہ ہمارے صوبے میں یہ سہولت دی گئی، تاہم مالی صورت حال کے باعث اسے جاری رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال صحت کارڈ کی مد میں 28 ارب روپے جاری ہوئے اور رواں برس یہ پیسے بڑھ جائیں گے۔
’صحت کارڈ میں غریب خاندانوں کے لیے او پی ڈی سروس بھی شامل کرنے اور مختلف بیماریوں کی ادویات دینے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔‘
انہوں نے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صحت کارڈ میں شامل ہسپتالوں کے بارے میں شکایتیں موصول ہوئی ہیں، جو ہسپتال معیار کے مطابق علاج فراہم نہیں کر رہے انہیں صحت کارڈ کی فہرست سے نکالا جا رہا ہے۔‘
مشیر صحت نے بتایا کہ ’ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی (میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹس) بورڈز کو تحلیل کر دیا ہے جس کی بنیادی وجہ بے ضابطگیوں کی شکایات ہیں۔ بورڈ آف گورنرز نے اپنی پسند ناپسند کی بھرتیاں کی تھیں جس سے ہسپتال کے نظام کو نقصان پہنچا، اب ہم نئے بورڈز بنا کر معاملات کو ٹھیک  کریں گے۔‘

صحت کارڈ کے تحت خیبر پختونخوا کے 1138 ہسپتالوں میں علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر

واضح رہے کہ صحت کارڈ پروگرام میں خیبرپختونخوا کے 72 لاکھ خاندان رجسٹر ہیں اور اس کے تحت فی خاندان سالانہ 10 لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت حاصل کر سکتا ہے۔  
صحت کارڈ پر اب تک 20 لاکھ 88 ہزار 209 مریضوں کا مفت علاج کیا جا چکا ہے جس میں دل کی سرجری، کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ جیسے مہنگے علاج بھی شامل ہیں۔
اس کارڈ کے تحت صوبے کے ایک ہزار 138 مختلف ہسپتالوں میں علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔

شیئر: