Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھٹو کا کتابوں سے لگاؤ، ’چند دنوں میں لائبریری کھنگال ڈالی‘

ذوالفقار علی بھٹو نے نراد سی چودھری کی ’آٹو بائیو گرافی آف این ان نون انڈین‘ دوران سفر پڑھی تھی۔ (فوٹو: سی ایشین ایج)
ممتاز صحافی اور دانش ور غازی صلاح الدین سے فروری میں ملاقات ہوئی تو حکمرانوں کے شوقِ مطالعہ پر بات چل نکلی۔ اس موقعے پر ذوالفقار علی بھٹو کے مطالعے سے گہرے شغف پر بھی گفتگو ہوئی جو پاکستان کےغالباً سب سے وسیع المطالعہ حکمران ہیں۔
ان کی کتاب سے دلچسپی کی ایک کہانی غازی صلاح الدین نے ہمیں سنائی جو ان دنوں ان کے علم میں آئی جب وہ ’جیو کتاب‘ کے نام سے ٹی وی پروگرام کرتے تھے۔
ایک پروگرام میں انہیں سندھی اور انگریزی کے سکالر سراج الحق میمن سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا۔ وہ بھٹو دور میں سندھی اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ کسی یورپی ملک کے دورے میں وہ وزیراعظم کے وفد میں شامل تھے۔ ایک دن مصروفیات سے وقت چُرا کر شہر میں کتابوں کی دکان کا رخ کیا۔ 
ادھر ایک کتاب خرید رہے تھے تو اس اثنا میں بھٹو بھی وہاں آن پہنچے۔ سراج الحق میمن نے اپنے لیے جو کتاب پسند کی، بھٹو نے اسے اپنے لیے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی لیکن معلوم ہوا کہ سٹاک میں بس ایک ہی کاپی تھی۔ سراج الحق میمن نے بھٹو سے بہتیرا کہا کہ وہ تحفتاً ان کی خرید کردہ کتاب رکھ لیں لیکن وہ مانے نہیں۔
وطن واپسی کے لیے طیارے نے اڑان بھری تو بھٹو، سراج الحق میمن کی سیٹ پر آئے اور ان سے مذکورہ کتاب پڑھنے کے لیے طلب کی۔
سات آٹھ گھنٹے کا سفر تمام ہونے پر انہوں نے کتاب لوٹائی تو کئی جگہ حاشیے پر ان کی رائے درج تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے کتاب پڑھ لی ہے۔
غازی صلاح الدین نے بتایا کہ جہاز میں جو کتاب ذوالفقار علی بھٹو کے زیرِ مطالعہ رہی وہ نراد سی چودھری کی ’آٹو بائیو گرافی آف این ان نون انڈین‘ تھی، جس کا ایک زمانے میں خاصا چرچا تھا۔
بھٹو کے کتابوں سے ناتے پر اور بھی قصے بیان کرنے ہیں لیکن ان سے پہلے چند باتیں نراد سی چودھری کی کتابوں کے بارے میں۔
ممتاز ادیب انتظار حسین کو ان کی خود نوشت بھی پسند تھی لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ The Continent of Circe سے متاثر ہوئے کہ ان کے خیال میں یہ ایسی کتاب ہے جسے  پڑھ کر آدمی کو لگتا ہے کہ وہ پہلے سے کچھ بڑھ گیا ہے۔ ان کے بقول ’اس کو پڑھنے کے بعد ہندوستان اور اس کی پوری تہذیب کے متعلق بعض ایسی باتیں سمجھ میں آئیں جو کہ پہلے اوجھل تھیں۔
’یہ ان کتابوں میں ہے جنہیں پڑھ کر انسان کو کچھ آگاہی حاصل ہوتی ہے۔۔۔ نراد چودھری نے نہایت ہی بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ ہندوستان کی تاریخ کا اور ہندو قوم کا تجزیہ پیش کیا تھا۔۔۔ نراد چودھری نے صورت حال کو سمجھنے کی، اور جس دیانت اور جس جرات کے ساتھ اس نے اپنی قوم کو جاننے کی کوشش کی اس نے مجھے نہ صرف متاثر کیا بلکہ رشک لانے پر مجبور بھی۔‘

ذوالفقار علی بھٹو کو 21 ویں سالگرہ پر والد کی طرف سے نپولین کی سوانح عمری ملی۔ (فوٹو: بومین ریئر بکس)

ایوب خان بھی نراد سی چودھری کی اس تصنیف کے بڑے قائل تھے۔ انگریزی کے معروف صحافی محمد سعید نے آپ بیتی ’آہنگ باز گشت‘ میں لکھا:
’کتابوں کے ضمن میں اُنہوں نے (ایوب خان) نراد سی چودھری کی کتاب The Continent of Circe کا ذکر بالخصوص کیا۔ کہنے لگے بے نظیر کتاب ہے اور ایسی کتابیں پاکستان میں لکھی جانی چاہییں۔ چونکہ بات کرتے وقت ان کی توجہ میری جانب تھی، اس لیے میں نے کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہی۔ متوجہ ہوئے تو میں نے کہا کہ اس عظیم الشان کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو دماغ اپنی متاع گم گشتہ کی تلاش میں کہاں کہاں مصروف ہے۔‘
معروف دانش ور قاضی جاوید کو نراد چودھری سے ممتاز دانشور، شاعر اور ڈراما نگار صفدر میر نے متعارف کروایا اور ذاتی لائبریری سے انہیں ’آٹو بائیو گرافی آف این ان نون انڈین‘ اور The Continent of Circe پڑھنے کے لیے دیں۔ مطالعے کے بعد ان پر یہ اثر مرتب ہوا:
’نراد سی چودھری کی یہ دونوں کتابیں میں نے پڑھیں اور اس بنگالی مصنف نے مجھ پر جادو کر دیا۔‘
 پاکستانی لکھاریوں میں نراد چودھری کی پذیرائی کے ذکر کے بعد بھٹو کے کتابوں سے تعلق کے قصوں کی طرف بڑھتے ہیں۔
قدرت اللہ شہاب نے ’شہاب نامہ‘ میں لکھا ہے کہ ایک دن صدر سکندر مرزا نے ان سے کہا کہ نوجوان بیرسٹر ذوالفقار علی بھٹو، ایوان صدر کی لائبریری میں سندھ کے بارے میں موجود کتابوں سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو وہ ان کی اس سلسلے میں مدد کریں۔
شہاب کے بقول ’مسٹر ذوالفقار علی بھٹو میں بلا کی ذہانت اور فطانت تھی اور انہیں بہت سے جدید علوم اور ان کے اظہار پر حیرت انگیز عبور حاصل تھا۔ چند ہی روز میں انہوں نے پریذیڈنٹ ہاؤس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کے رکھ دیا۔‘

ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا کہ انہوں نے نپولین سے طاقت کی سیاست اور کمیونسٹ مینی فیسٹو سے غریبوں کی سیاست سیکھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انگریزی کے صاحب طرز کالم نویس خالد حسن ذوالفقار علی بھٹو کے پریس سیکریٹری رہے۔ شملہ معاہدے کے بعد وطن واپسی سے پہلے بھٹو کی ہدایت پر انہوں نے بہت سی کتابیں خریدیں۔ 77-1976 میں وہ لندن کے سفارت خانے میں پریس کونسلر تھے تو اس زمانے میں بھی وہ بھٹو کے لیے کتابیں پاکستان بھیجتے رہے۔
ان کے بقول ’میں نے سیلون اسٹریٹ میں ٹرس لو اینڈ ہینسن نامی کتابوں کی دکان کے ساتھ اکاؤنٹ کھول رکھا تھا جہاں ہر دوسرے ماہ بھٹو کے ذاتی اکاؤنٹ سے کتابوں کی ادائیگی کے لیے پیسے آجایا کرتے۔‘
بھٹو اور کتاب کے موضوع پر لکھتے ہوئے سندھی زبان کے مایہ ناز شاعر شیخ ایاز کی ’ساہیوال جیل کی ڈائری‘ کی طرف دھیان گیا جسے ان کی ذہنی و فکری سرگزشت کہا جا سکتا ہے۔ کرن سنگھ نے اسے سندھی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ 
سنہ 1968 میں شیخ ایاز ساہیوال جیل میں تھے، بھٹو بھی اسی جیل میں قید تھے۔ ایک دن چیف وارڈن نے شیخ ایاز کے تقاضے پر جیل لائبریری میں موجود کتابوں کی فہرست انہیں فراہم کی۔ شیخ ایاز نے جو کتابیں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی ان میں ہٹلر کی کتاب Mein kampf بھی شامل تھی، معلوم ہوا کہ یہ کتاب بھٹو کے پاس ہے۔ چیف وارڈن نے کہا ’اگر انہوں نے پڑھ لی ہو گی تو لے آؤں گا۔‘
تھوڑی دیر بعد وہ ہٹلر کی کتاب لے آیا اور شیخ ایاز سے کہا کہ بھٹو صاحب نے انہیں سلام بھجوایا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دن شیخ ایاز کو پستہ، بادام، کشمش، بسکٹ اور مچھلی بھیجی۔ اس محبت کا جواب انہوں نے  یہ کتاب بھجوا کر دیا: Heinrich Heine: The Artist in Revolt
جیل میں یہ کتاب شیخ ایاز کے پاس بیٹے کے ذریعے پہنچی تھی۔ 

ذوالفقار علی بھٹو نے 23 سال کی عمر تک ”گلمپسز آف ورلڈ ہسٹری“ کو چار بار پڑھا تھا۔ (فوٹو: ببلیو)

ایک حاشیے میں شیخ ایاز نے بتایا ہے کہ شملہ معاہدے کے لیے جانے سے پہلے بھٹو ان سے ملے تھے۔ سندھ یونیورسٹی سے وابستگی کے دوران ان کا بھٹو سے کئی دفعہ ملنا ہوا۔ انہوں نے اپنی ڈائری میں بھٹو پر Milovan Djilas کی کتاب Conversations with Stalin کے طرز پر کتاب لکھنے کا عندیہ بھی ظاہر کیا۔
جواہر لعل نہرو کو بھٹو پسند کرتے تھے۔ ان کے طرزِ تحریر سے بھی متاثر تھے۔ بینظیر بھٹو کے نام خط میں انہوں نے لکھا: ’جس وقت تک میں 23 سال کا ہوا تھا میں نے گلمپسز آف ورلڈ ہسٹری کو چار بار پڑھا تھا۔ نہرو ہمارے زمانے کے انتہائی صاف ستھری انگریزی لکھنے والوں میں سے تھے۔ ان کے الفاظ میں ایک قسم کا فیضان اور ترنم ہوتا تھا۔‘
سٹینلے وولپرٹ نے ’زلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ بھٹو کو اکیسویں سالگرہ پر والد کی طرف سے ولیم سلوئین کی پانچ جلدوں پر مشتمل نپولین کی سوانح عمری ملی۔ اس کے ساتھ الگ سے پمفلٹ کی صورت میں کمیونسٹ مینی فیسٹو بھی تھا۔ بھٹو کا کہنا تھا کہ انہوں نے نپولین سے طاقت کی سیاست اور پمفلٹ سے غریبوں کی سیاست سیکھی۔
نپولین اور مارکس کے حوالے سے طرزِ سیاست کی جس ثنویت کا ذکر بھٹو نے کیا ہے اس نوع کی منطق وہ خود اور بعض تجزیہ نگار ان کے ذاتی حالات میں بھی دیکھتے ہیں جس کے مطابق جاگیردار باپ اور غریب ماں کے زِیر اثر ان کی ذہن سازی ہوئی جس کا پرتو ان کی سیاست میں نظر آتا ہے۔
بھٹو کی لائبریری میں نپولین کے بارے میں کتابوں کا بے مثل ذخیرہ تھا۔ سنہ 1966 میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھٹو کی انڈیا مخالف تقریر سے خوش ہو کر سندھی جاگیردار اور سکالر جی ایم شاہ (بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں وزیر تعلیم رہے) نے انہیں نپولین کے بارے میں بہت سی نادر ونایاب کتابیں تحفے میں دی تھیں۔

سعد راشد الخیری کا خیال تھا کہ پیرون کے نعرے ’دیس کمی سادو‘ سے متاثر ہو کر بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ذوالفقار علی بھٹو اولاد کو بھی کتب بینی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ساہیوال جیل سے بےنظیر کے نام خط میں انہیں مطالعے کے ضمن میں کئی مشورے دیے اور ادب اور تاریخ کے مزید مطالعے کی نصیحت کی۔
بھٹو کتابوں کے درمیان رہ کر بڑی راحت محسوس کرتے تھے۔ ان کے ملازم دوست محمد کا کہنا تھا کہ لائبریری ان کی جنت تھی جہاں بیٹھ کر وہ باہر کی دنیا سے بے نیاز ہو جاتے تھے۔
بھٹو کی پوتی اور معروف مصنفہ فاطمہ بھٹو نے ایک مضمون میں بتایا کہ وہ لائبریری میں فائلوں کا مطالعہ کرتے اور خط بھی وہیں بیٹھ کر رقم کرتے تھے۔ 70 کلفٹن میں تین کمروں پر محیط لائبریری میں آج بھی متنوع موضوعات پر بڑی تعداد میں کتابیں ذوالفقار علی بھٹو کے ذوق مطالعہ کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔
بھٹو کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں سلیقے سے رکھنے کا شوق بھی تھا۔ اس بارے میں بیوروکریٹ تجمل حسین نے ’جو بچے ہیں سنگ‘ میں لکھا ہے:
’وہ (بھٹو) بہت خوبصورت لائبریری کے مالک تھے، جہاں ہر قسم کی کتاب بڑے قرینے سے سجھی ہوئی تھی اور لگتا تھا، بہت سی ان کے زِیر مطالعہ رہی ہیں۔‘
معروف مصنفہ اور انٹرویو نگار اوریانا فلاسی نے سنہ 1972 میں انٹرویو کے دوران کراچی میں بھٹو کی لائبریری دیکھی تو اسے شاندار قرار دیا۔
نامور برطانوی صحافی اون بینیٹ جونز نے ’دی بھٹو ڈینسٹی دی سٹرگل فار پاور ان پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ اسلامی سوشلزم اور زرعی اصلاحات پر یقین، تنگ نظر مذہبی رہنماؤں اور امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے بہت سے لوگ بھٹو کو لبرل اور بائیں بازو کا خیال کرتے لیکن وہ ان نظریات سے متصادم کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ساہیوال جیل سے بینظیر کے نام خط میں انہیں ادب اور تاریخ کے مزید مطالعے کی نصیحت کی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اون بینیٹ جونز کا کہنا ہے کہ نپولین کے بارے میں بھٹو کی پسندیدگی مشہور تھی لیکن اوریانا فلاسی کو ان کی لائبریری میں ہٹلر اور مسولینی کی کتابیں نمایاں طور پر سجی ہوئی نظر آئیں۔
ماہر معاشیات احمد فاروقی نے سنہ 2003 میں The Enigmatic Z. A. Bhutto کے عنوان سے کالم میں بتایا تھا کہ فوج نے سنہ 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کیا تو انہوں نے ہٹلر پر اپنی کچھ کتابوں کا تقاضہ کیا تاکہ وہ جائزہ لے سکیں کہ ہٹلر کیسے اپنے جرنیلوں پر قابو پانے پر کامیاب ہوا جبکہ انہیں ناکامی ہوئی۔
ایک سیاسی لیڈر جس سے بھٹو کے انسپریشن لینے کا ذکر بہت کم ہوتا ہے وہ ارجنٹائن کے رہنما پیرون ہیں۔ پاکستان کے سابق سفارت کار سعد راشد الخیری نے ’پرانی دلی سے نئی دنیا کا سفر‘ میں اس پہلو پر بات کی ہے:
’میرا یہ ہمیشہ سے خیال ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پیرون سے بہت متاثر تھے۔ بھٹو جب کیلی فورنیا میں پڑھ رہے تھے تو ان کی جوانی نے پیرون کا بہت اثر قبول کیا۔ پیرون ایک طرف تو فوجیوں کے خلاف اٹھا تھا اور عوام کی طاقت سے صدر بنا تھا۔ دوسری طرف وہ امریکہ کو بھی لتاڑتا تھا۔ یہ وہ مرکب تھا جو کیلی فورنیا کی بائیں بازو والی فضا میں بھٹو کے دل میں گھر کر گیا ہو گا۔‘
سعد راشد الخیری کا خیال تھا کہ پیرون کے نعرے ’دیس کمی سادو‘ (یعنی وہ عوام جن کے بدن تک قمیص تک نہیں ہے ان کی بھلائی کے کام ہوں گے) سے متاثر ہو کر بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بات پھر سے کتاب کی کرتے ہیں۔ بھٹو کے کتابوں کی دکانوں سے تعلق پر بات کریں تو منیزہ نقوی کی کتاب A Guest in the  House کا خیال آتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ وہ زمانہ طالب علمی میں کراچی میں کتابوں کی سب سے پرانی دکان پائنیر بک ہاؤس آتے تھے۔ ایک دفعہ وزیراعظم کی حیثیت سے بھی ان کا آنا ہوا۔ 

اوریانا فلاسی کو ذوالفقار علی بھٹو کی لائبریری میں ہٹلر اور مسولینی کی کتابیں نمایاں طور پر سجی ہوئی نظر آئیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 کوئٹہ میں گوشۂ ادب کے نام سے کتابوں کی بڑی مشہور دکان ہے۔ مالکِ دکان منصور بخاری مرحوم نے صحافی رانا محمد آصف کو بتایا تھا کہ بھٹو ایک دفعہ اکبر بگٹی کے ساتھ گوشۂ ادب پر آئے تو کتابوں کے عمدہ انتخاب پر انہیں داد دی۔ 
سنہ 1970 میں لاہور میں ’کلاسیک‘، بائیں بازو سے وابستگی کی بنا پر شدت پسندوں کے غیظ کا نشانہ بنی اور اسے آگ لگا دی گئی۔ بھٹو نے اس واقعے کی مذمت کی اور اظہار ہمدردی کے لیے کلاسیک کا دورہ کیا اور دکان کے مالک آغا امیر حسین سے ملاقات کی۔
بھٹو کے ملازم دوست محمد کے بقول ’ایورنیو بک سٹال اور سسی بک سٹال اپنی دکان پر آنے والی تمام نئی کتابیں ان کو بھیجتے تھے۔ ایورنیو بک سٹال کے مسٹر صفدر مہدی نئی آنے والی کتابوں پر نظر رکھتے تھے اور 70 کلفٹن بھیج دیتے تھے۔۔۔شہید ان میں سے اپنی پسند کی کتابیں رکھ لیتے اور باقی واپس کر دی جاتی تھیں۔‘
ایک دفعہ نصرت بھٹو بیرون ملک سے شوہر کے لیے جو کتاب لائیں وہ ایک ہفتہ پہلے ہی بھٹو کی لائبریری کا حصہ بن چکی تھی۔
زنداں میں بھی بھٹو نے مطالعے سے رشتہ استوار رکھا۔ کتابوں سے وابستگی رکھنے والے بھٹو نے قلم سے بھی ناتا جوڑے رکھا جس کا نتیجہ ان کی دو کتابوں If I am assassinated اور Rumour and Reality کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بھٹو نے کئی مضامین سپرد قلم کیے اور ان کی اس موضوع پر تقاریر تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے موضوعات پر ان کے گہرے مطالعے کی جھلک دکھاتی ہیں۔

شیئر: