Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی والدہ شوکت خانم کو ایکسائز کا نوٹس: حقیقت کیا؟

عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کا کُل رقبہ دستاویزات میں سات کنال ہے (فوٹو: اے پی پی)
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی لاہور میں زمان پارک کی رہائش گاہ پر موصول ہونے والے محکمہ ایکسائز کا نوٹس اس وقت ہدفِ تنقید بنا ہوا ہے۔
یہ نوٹس عمران خان کی والدہ شوکت خانم کے نام پر بھیجا گیا ہے جسے تحریک انصاف ’بدترین سیاسی انتقام‘ سے تعبیر کر رہی ہے اور سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامی صارفین بھی اسے ایک سیاسی حربہ قرار دے رہے ہیں۔
گزشتہ روز جمعرات کو ایکسائز کی جانب سے لگژری ٹیکس کا ایک نوٹس عمران خان کی رہائش گاہ پر موصول ہوا جسے تھوڑی دیر بعد ہی تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا گیا۔
اس حوالے سے جب اُردو نیوز نے ایکسائز آفس سے رابطہ کیا تو مختلف صورتحال سامنے آئی ۔ اس حوالے سے سرکاری طور پر موقف دینے کے لیے محکمے کا کوئی افسر دستیاب نہیں تھا۔
تاہم جس دفتر سے یہ نوٹس جاری کیا گیا ہے اس کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُردو نیوز کو بتایا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نوٹس نہیں بلکہ فارم بھیجا گیا ہے جس میں اس پراپرٹی کے مالک کو اسیسمنٹ کرنےکا کہا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ صرف اس گھر کو نہیں بھیجا گیا بلکہ اپر مال اور زمان پارک کےعلاقے میں کُل 30 ایسے گھر ہیں جنہیں نئے قانون کے مطابق یہ اسیسمنٹ فارم بھیجے گئے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ شوکت خانم حیات نہیں ہیں  تو پھر بھی انہی کے نام پر فارم کیوں بھیجا گیا؟ تو اس سوال کا جواب ایکسائز افسر نے یوں دیا کہ ’یہ بات قانونی طور پر ہمارے بس میں نہیں ہے کہ جو پراپرٹیز جس نام سے رجسٹرڈ ہیں، ان کی ملکیت تبدیل کر دی جائے یا صرف ملکیت کا ٹائٹل ہی بدل دیا جائے۔ یہ ایک غیرقانونی عمل ہو گا۔ یہ ذمہ داری اس پراپرٹی کے مالکوں کی تھی کہ وہ ملکیت اور وراثت قانونی طور پر تبدیل کرواتے جو نہیں کرائی گئی۔‘
سرکاری ریکارڈ کے مطابق مرحومہ شوکت خانم کے نام پر یہ اسیسمنٹ فارم پنجاب فنانس ایکٹ 2014 کے تحت بھیجا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق دو کنال سے زائد ایسی پراپرٹیز جو 2001 کے بعد بنائی گئی ہیں ان پر لگژری ٹیکس لگے گا۔
عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کا کُل رقبہ دستاویزات میں سات کنال ہے اور سال 2020 میں پرانے گھر کو گرا کر نیا گھر تعمیر کیا گیا جبکہ ایکسائز کے ریکارڈ کے مطابق یہ گھر اسی جگہ پر 1970 سے قائم ہے۔

ایکسائز کے نئے قانون کے مطابق اسیسمنٹ فارم کے بعد پراپرٹیز پر لگثری ٹیکس کی مالیت کا تعین کیا جاتا ہے (فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

جب ایکسائز افسر سے یہ سوال کیا گیا کہ یہ گھر تو 2001 سے پہلے بھی موجود تھا تو قانونی طور پر اس کی اسیسمنٹ کیسے کی جا رہی ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ ’یہ قانون گھروں میں کی جانے والی تبدیلی یا پہلے گھر کو توڑ کیا نیا بنانے اور ایل ڈی اے سے نیا نقشہ اپروو کروانے والوں پر بھی اتنا ہی موثر ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جن 30 گھروں کو نوٹس جاری کیے گیے ہیں ان میں اکثریت بہت پرانے ہیں لیکن ان میں تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کی وجہ سے ان پر نئے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر یہ پراپرٹی ویسی ہی ہوتی جو 1970 میں تھی تو اس گھر کو کبھی بھی اسیسمنٹ فارم نہ بھیجا جاتا۔‘
ایکسائز کے نئے قانون کے مطابق اسیسمنٹ فارم کے بعد پراپرٹیز پر لگثری ٹیکس کی مالیت کا تعین کیا جاتا ہے جو گھر کے مالکان کو جمع کروانا ہوتا ہے اگر وہ جمع نہ کروائیں تو پھر ٹیکس نوٹس بھیجا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس نوٹس کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے دفتر سے رابطہ کیا تو ان کو اصل حقائق سے آگاہ کیا گیا۔
پی ٹی آئی کی رہنما مسرت چیمہ سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک انتقامی کاروائی ہے، ہم اس کے خلاف عدالت جائیں گے۔ یہ قانونی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ایک بھیانک بد اخلاقی ہے۔ اسی طرح کے نوٹس فاطمہ جناح کو بھی بھیجے گئے اور تاریخ نے انہیں انتقامی کارروائی سے ہی تعبیر کیا۔ اب ایکسائز والے اپنی وضاحت کے لیے جو مرضی کہتے رہیں۔‘

شیئر: