Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’توقع کرتے ہیں جب تک سپریم کورٹ میں مقدمہ زیرِسماعت ہے فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحقیقات کے دوران ان 102 افراد کی تعداد کم بھی ہو سکتی ہے؟ (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر فوری طور پر پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فوج کی تحویل میں دیے گئے تمام افراد کو اہل خانہ سے ملنے کی اجازت ہونی چاہیے اور انہیں کھانے پینے، کتابوں اور دیگر سامان کی ترسیل بھی یقینی بنائی جانی چاہیے۔‘
پیر کو سماعت کے اختتام سے قبل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کچھ یقین دہانیاں مانگی ہیں، آپ بتائیں آپ کے پاس اس حوالے سے کیا ہدایات ہیں؟‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تک فوج کی تحویل میں موجود 102 افراد سے تحقیقات کا عمل جاری ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحقیقات کے دوران ان 102 افراد کی تعداد کم بھی ہو سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر تحقیقات میں ان 102 افراد میں سے کوئی ملٹری کورٹس کے دائرہ اختیار میں نہ آتا ہوا تو ان کے مقدمات عام عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب بتائیں پِک اینڈ چوز کیوں ہو رہی ہے؟‘ اٹارنی جنرل وضاحت دی کہ کوئی پِک اینڈ چوز نہیں ہو رہی، میں وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت کہہ رہا ہوں کہ صرف انہی لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی جو ممنوعہ علاقوں میں داخل ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فوج کی زیر حراست میں موجود افراد سے ان کے اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی، نو مئی کے واقعے کو اتنے ہفتے ہو گئے۔
اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج کے زیر حراست افراد کی اہل خانہ ملاقات بارے حکومت سے ہدایات لے کر بتائیں۔
’ہمیں کچھ معلومات مل رہی ہیں کہ زیرِحراست افراد کو کھانا اور کتابیں فراہم نہیں کی جا رہیں، ہمیں زیرِحراست افراد کے نام مکمل تفصیلات کے ساتھ فراہم کے جائیں۔‘
اس سے قبل سات رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت دوبارہ شروع کی تھی۔
بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عاٸشہ ملک شامل تھے۔

آئین میں سویلین اور فوجی افسران کی تقسیم نہیں کی گئی: وکیل سلمان اکرم راجہ

درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’جنید رزاق کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹ میں ہے اور میں ان کی طرف سے عدالت میں پیش ہوا ہوں۔ کیا فوجی عدالت کا ٹرائل کرنے والے کو جوڈیشل اختیارات ہوتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے۔‘
جسٹس منیب نے کہا کہ کیا آپ کی دلیل یہ ہے کہ فوجی اہلکاروں کا بھی کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین میں سویلین اور فوجی افسران کی تقسیم نہیں کی گئی۔ مقدمہ ایک عدالت میں چلے یا دوسری میں، فیئر ٹرائل سمیت دیگر حقوق متاثر نہیں ہوتے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل امور جوڈیشری ہی چلا سکتی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ ایک متوازی نظام ہے جسے عدالت نہیں کہہ سکتے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’جی میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے۔ آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے اور سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کر رہے ہیں نا؟ آپ آرمی آفیشل کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کر رہے؟

درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل بھی مکمل ہوگئے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نہیں میں آرمی آفیشلز کے ٹرائل چیلنج نہیں کر رہا، سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل غیر آئینی ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تفریق کیسے ہوئی کہ ایک ہی الزام پر کچھ لوگ عام کورٹس جبکہ کچھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے جائیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ اگر وہ کہیں کہ ہم کچھ کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کریں گے اور باقی گھر جائیں گے تو آپ کو پھر کوئی مسئلہ نہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر ایسی عدالت لے جایا جائے جہاں بنیادی حقوق دستیاب ہوں تو مجھے اعتراض نہیں۔
درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل بھی مکمل ہوگئے۔

’سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں۔‘

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کر دیا ہے۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ’ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو، اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں۔‘
چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ صرف قانون کی بات کریں۔
چیف جسٹس نے زبانی ریمارکس دیے کہ ’توقع کرتے ہیں جب تک سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔ کہا جا رہا ہے کہ ملزمان کو اہلخانہ سے بھی ملنے نہیں دیا جا رہا؟ خوراک اور کتابوں کی عدم فراہمی کی بھی کچھ شکایات ہیں۔‘
بعد ازاں عدالت نے سماعت منگل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی۔

شیئر: