Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں آن لائن قربانی کی کمپنیاں کیوں ناکام ہو رہی ہیں؟

پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کے مطابق گذشتہ برس 18 لاکھ جانوروں کی قربانی کے باوجود آن لائن قربانی کی شرح ایک فیصد کے قریب رہی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں عید قربان کے قریب لوگوں کو جانور کی خریداری سے ’پیشہ ور‘ قصائی کی خدمات حاصل کرنے تک مختلف مراحل میں عموماً دقت کا سامنا ہوتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے مارکیٹ میں ایسی کمپنیاں بھی دستیاب ہیں جو قربانی کی آن لائن سروسز فراہم کر رہی ہیں۔ اس میں جانور کی خریداری سے ذبح تک کے تمام معاملات وہ اپنے ذمے لیتی ہیں۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں ایسی کمپنیوں کی تعداد میں ہر برس اضافہ ہو رہا ہے وہیں شہری ان کی خدمات سے مایوس نظر آتے ہیں۔
مسز زہرہ جمال کا تعلق لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون سے ہے۔ انہوں نے گزشتہ برس ایسی ہی ایک کمپنی کو آن لائن قربانی کا آرڈر دیا۔ ان کے شوہر وفات پا چکے ہیں تو جانور کی خریداری اور دیگر معاملات سے بچنے کے لیے انہوں نے ایک ایسی ہی کمپنی کی خدمات حاصل کیں لیکن انہیں ناخوشگوار تجربہ ہوا۔
 اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’ایک ویب سائٹ پر میں نے آن لائن قربانی کا اشتہار دیکھا جس میں کہا گیا تھا کہ شریعہ کے عین مطابق جانور کی قربانی کے بعد گوشت بنا کر گھر بھیجا جائے گا۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مسز زہرہ نے بتایا کہ ’انہوں (کمپنی) نے کہا تھا کہ وہ 10 سے 12 کلو گوشت عید کے روز گھر پہنچائیں گے۔ شام تک انتظار کرتی رہی، بار بار فون بھی کیے۔ وہ جھوٹی تسلیاں دے رہے تھے۔ شام کے بعد ایک ڈیلیوری والا آیا اور وہ گوشت ایسا تھا کہ اسے دیکھنے کو بھی دل نہیں کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’واٹس ایپ پر اس کمپنی کے نمائندے نے بکرے کی تصاویر شئیر کی تھیں، وہ ایک مناسب بکرا تھا لیکن گوشت باسی معلوم ہو رہا تھا۔ یہ ایک تلخ تجربہ تھا اب اس برس میں خود منڈی سے قربانی کا جانور خریدوں گی۔‘
ایسا تجربہ صرف مسز زہرہ کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ گزشتہ دو تین برسوں میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی شکایات دیکھنے کو ملی ہیں۔

’قربانی ایکسپریس‘ سے وابستہ محمد ہارون کے مطابق ’آن لائن قربانی کی ناکامی کی بڑی وجہ ناتجربہ کار لوگ ہیں۔‘ (فوٹو: قربانی ایکسپریس)

عید قربان قریب آتے ہی پاکستان کے سوشل میڈیا اور دیگر اشتہاری طریقوں سے ایسی کمپنیوں اور قصائیوں کی بھرمار ہو جاتی ہے جو آپ کے گھر سروسز فراہم کرنے کے لیے ’ایک کلک‘ کے فاصلے پر ہوتے ہیں، لیکن شہریوں کا کہنا ہے کہ عملی طور پر ان کمپنیوں سے سہولت کم اور کوفت زیادہ حاصل ہوتی ہے۔

آن لائن قربانی ناکام کیوں؟

اس سال بھی پاکستان میں چند ایک بڑی کمپنیاں آن لائن قربانی کی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اب خیراتی اداروں نے بھی کھالوں کے عوض اپنی سروسز آن لائن فراہم کرنا شروع کر دی ہیں لیکن صارفین کو ابھی بھی ان پر اطمینان نہیں ہے۔
گزشتہ چار برسوں سے آن لائن قربانی کے کاروبار ’قربانی ایکسپریس‘ سے وابستہ کراچی کے محمد ہارون کے مطابق ’آن لائن قربانی کی ناکامی کی بڑی وجہ وہ افراد ہیں جو بغیر تجربے کے اس بزنس میں آتے ہیں، اور پھر سروسز فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کووڈ کے پہلے سال 2020 میں آن لائن قربانی کا کاروبار بلندیوں پر تھا کیونکہ لوگ منڈیوں میں نہیں جا رہے تھے۔ اسی دوران کچھ بڑی کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ ایک کمپنی نے عید قربان سے ایک رات قبل ہی آرڈرز بنانے شروع کر دیے۔ بھئی یہ گوشت ہے۔ تازہ اور کچھ گھنٹے گزرنے والے گوشت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ دوسرا شریعت کے مطابق قربانی عید کی نماز کے بعد ہوتی ہے۔ تو لوگوں میں بڑا غم و غصہ پایا گیا اور انہوں نے اس کمپنی کے دفاتر پر واپس گوشت رکھا۔ کمپنی ری فنڈ نہ دے سکی اور کاروبار سے نکل گئی۔‘

شہریوں کا کہنا ہے کہ عملی طور پر آن لائن قربانی کی کمپنیوں سے سہولت کم اور کوفت زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ (فائل فوٹو: میٹرو)

محمد ہارون کا کہنا تھا کہ ہر سال لوگ اس کاروبار میں آتے ہیں لیکن صرف 20 فیصد ہی اگلے سال کے لیے دوبارہ میدان میں آتے ہیں۔ باقی چھوڑ جاتے ہیں۔
’یہی وجہ ہے کہ نہ تو لوگوں کا اس طرح سے اعتماد بحال ہو پا رہا ہے اور نہ کمپنیاں اپنے آپ کو اپ گریڈ کر رہی ہیں۔ ہمیں لوگوں کا اعتماد لینے کے لیے بہت آگے جانا پڑتا ہے۔ ہماری ٹیمیں خریداروں کو قربانی کی ویڈیوز تک بنا کے بھیج رہی ہوتی ہیں۔‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے آن لائن قربانی سروس ’فراسٹی میٹ‘ کے سربراہ نے بتایا کہ ان کا اس کاروبار میں پہلا سال ہے۔
’اس سے پہلے ہم شاد باغ کے علاقے میں اجتماعی قربانی کرتے تھے۔ ہم پانچ سال سے کر رہے تھے اور لوگوں کا اعتماد تھا۔ اب ہم آن لائن کی طرف آئے ہیں تو ہمیں یہ دھچکا لگا ہے۔ روز 10 سے 12 لوگ فون کرتے ہیں، وزٹ بھی کرتے ہیں لیکن ابھی آرڈرز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ ان کی قربانی ٹھیک نہیں ہو گی۔‘

آن لائن قربانی کیسے فروغ پا سکتی ہے؟

محمد ہارون کا ماننا ہے کہ اس میں بڑا کردار آن لائن سروسز فراہم کرنے والوں کا ہے۔
’اگر آپ اس کاروبار میں آ رہے ہیں تو آپ کو گوشت کو سنبھالنے اور وقت پر ڈیلیور کرنے کی مشق کرنی پڑے گی۔ اچھی سی ویب سائٹ بنا کر لوگوں کو بیچنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے، اصل کارنامہ ہے کہ جو باتیں آپ کر رہے ہیں ان پر عمل درآمد کے لیے آپ کے پاس وسائل کیسے ہیں۔ لوگوں کو شریعت پر عمل بھی چاہیے اور تازہ گوشت بھی، صرف اس سے ہی اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔‘

’فراسٹی میٹ‘ کے سربراہ کے مطابق لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ ان کی قربانی ٹھیک نہیں ہو گی۔ (فائل فوٹو: گَرانا)

تاہم مسز زہرہ جیسے صارفین جو ایک مرتبہ آن لائن قربانی کے ناکام تجربے سے دوچار ہو چکے ہیں وہ ابھی بھی اس کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔
وہ کہتی ہیں ’جو کوفت میں نے دیکھی تھی اس کو دوبارہ یاد کرتی ہوں تو یہی سوچتی ہوں کہ خود تھوڑا تکلیف اٹھا لوں لیکن اس معاملے میں اندھا دھند اعتماد نہ کروں۔ اگر کوئی اچھی کمپنی سامنے آئے اور دوسرے لوگوں کا تجربہ بہتر ہو تو تب ہی اس کے بارے میں دوبارہ سوچا جا سکتا ہے۔‘
پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کے مطابق اعتماد کے فقدان کے باعث ہی ملک میں آن لائن قربانی فروغ نہیں پا سکی اور گذشتہ برس 18 لاکھ جانوروں کی قربانی کے باوجود آن لائن قربانی کی شرح ایک فیصد کے قریب رہی۔

شیئر: