Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

80 سال سے پہلے جب روئیداد خان نے لاہور کو جوان دیکھا

سٹیج ڈرامہ میں روئیداد خان جنرل فرانکو کے روپ میں
سابق بیورو کریٹ اور مصنف روئیداد خان، 28 ستمبر کو عمرِعزیز کی سنچری مکمل کرلیں گے۔ ان کی اس بھری پُری زندگی پر، تقسیم سے پہلے لاہور میں گزرے دو برس کا بڑا گہرا اثر ہے۔
چند دن پہلے سوشل میڈیا پر انگریزی میں ویڈیو کلپ دیکھا جس میں انہوں نے 1947 سے قبل کے لاہور کو عظیم شہر قرار دیا جو لبرل، ترقی پسند اور روادار تھا۔
انہوں نے اس گفتگو میں لاہور کو جن گنوں کا حامل قرار دیا، اس کی صراحت اور تصدیق ان کی خود نوشت Pakistan, a Dream Gone Sourسے بھی ہوتی ہے جس کا اردو ترجمہ عرفان احمد امتیازی نے ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ کے عنوان سے کیا ہے جو اس وقت میرے سامنے ہے۔
روئیداد خان کا لاہور سے اولین تعارف 1939 میں ہوا جب وہ  اسلامیہ کالج پشاور کے طالب علم کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج  میں مباحثے میں شرکت کی غرض سے یہاں آئے۔ ان کے بقول ’ میں لاہور کی شان و شوکت اور اس کی نفاست و لطافت سے بے حد متاثر ہوا۔ ‘

فسادات کے دوران بھی کافی ہاؤس میں تبادلۂ خیالات ہوتا رہا اور گہما گہمی برقرار رہی (تصویر بشکریہ نصرت میگزین)

 ایف اے کے بعد  انہوں نے 1940 میں  فورمین کرسچین کالج لاہور میں داخلہ لیا۔اس تعلیمی ادارے نے ان کی فکر کی راہیں کشادہ کیں۔  ان کی دانست میں ’مجھے اس کالج کا آزادانہ ، ترقی پسندانہ اور مذہبی رواداری کا ماحول بہت پسند آیااور اس ماحول کا اثر میری زندگی پر بہت دور رس ثابت ہوا۔میرے دل میں اس کالج کو چلانے والے امریکی اساتذہ کے لیے احترام و عقیدت کے ایسے گہرے جذبات پیدا ہوئے جو ہمیشہ قائم رہے اور ہیں۔ ‘
کالج میں مختلف عقیدوں کے طالب علموں سے ان کی دوستی ہوئی جن میں اہم ترین نام جمشید مارکر کا ہے جنہوں نے پاکستان میں سفارت کاری کے میدان میں بڑا اونچا مقام حاصل کیا۔ 
ہیرلڈ میگزین سے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ مارکر سے ان کی پہلی ملاقات یوئنگ ہال میں ہوئی جہاں دونوں ہاسٹل میں کمرے کی الاٹمنٹ کے لیے انٹرویو دینے  آئے تھے۔یہ ملاقات عمر بھر کی ہمدمی کی تمہید تھی۔انھی کے ذریعے سے وہ مغربی کلاسیکل موسیقی سے روشناس ہوئے ۔ لاہور کے علاقے گارڈن ٹاؤن میں چالیس روپے ماہانہ کرایے پر دوستوں نے گھر لے رکھا تھا جہاں بیتھوون کی موسیقی سے حظ اٹھاتے اور مہر چند باورچی ان کے لیے کھانے پینے  کا انتظام کرتا۔
لاہور میں روئیداد خان کی مارکسزم سے جانکاری ہوئی۔ کیمونسٹ مینی فیسٹو  نے متاثر کیا۔  22 جون 1941کو  جمشید مارکر اور روئیداد خان پلازہ سینما میں  میٹنی شو دیکھ رہے تھے کہ وقفے کے دوران انہیں جرمنی کے روس پر حملے کی خبر ملی ۔ ان کی ہمدردی حملے کی زد میں آئے ملک کے ساتھ تھی۔ یہ محض دلی ہمدردی نہیں تھی۔ اس کا تعلق عمل  سے بھی تھا۔  ’یارانِ سوویت یونین‘ نے  پلازہ سینما میں برنارڈ شاہ کا ڈراما 'جنیوا' اسٹیج کیا تو اس میں روئیداد خان نے جنرل فرانکو کاپارٹ کیا۔ جمشید مارکر ڈائریکٹر تھے۔
مال روڈ پر کمرشل بلڈنگ میں سوویت یونین کے حامی طالب علموں کے اجلاس میں بھی وہ برابر شریک ہوتے رہے۔ انڈیا کافی ہاؤس میں بھی ان کا جانا رہتا جو ادبی، سیاسی اور سماجی  بحثوں  کا مرکز تھا۔  روائیداد خان نے اس کا موازنہ ویانا کے کیفے سے کیا ہے:
’اورس ویلز نے کہا تھا( اور صحیح کہا تھا) کہ :
دنیا بھر میں ویانا کا کیفے ہی ایسی واحد جگہ ہے جہاں آپ کافی کا صرف ایک پیالہ آرڈر کرکے آٹھ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ بیٹھے رہیں اور یہ کہ نہ صرف آپ کو کوئی تنگ نہ کرے بلکہ آپ کی پذیرائی شاہانہ انداز میں ہوتی رہے۔‘
’میرے نزدیک انڈیا کافی ہاؤس بھی اس اعتبار سے ویانا کے کیفے سے کم نہ تھا ۔‘
روئیداد خان کی کتاب میں کافی ہاؤس کا تذکرہ پڑھ کر کتنی ہی ایسی کتابوں کا خیال ذہن میں آیا جن میں لاہور کے اس کیفے کا ذکر ہوا ہے۔ مثلاً انتظار حسین کی کتاب ’چراغوں کا دھواں ‘اور خوشونت سنگھ کی کتاب ’سچ ، محبت اور ذرا سا کینہ۔‘
ممتاز تاریخ دان کے کے عزیز نے کافی ہاؤس پر لائق مطالعہ کتاب لکھی۔تقسیم کے ہنگاموں میں بھی کافی ہاؤس کی رونق ماند نہ پڑی ۔عبدالسلام خورشید کی کتاب’ رو میں ہے رخشِ عمر ‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
’یہاں ہر زاویۂ نگاہ کے لوگ آتے اور دنیا بھر کے مسائل پر تبادلۂ خیالات کرتے۔اور اس کی فضااتنی کاسمو پولٹن تھی کہ جن دنوں فرقہ وارانہ فسادات کا زور تھا ۔ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی جان کے لاگو تھے ۔ اور مارچ سینتالیس کے فسادات میں بعض اوقات پوری مال روڈ ویران ہوتی تھی ان دنوں بھی کافی ہاؤس  میں خوب گہما گہمی رہتی تھی۔ گپ شپ چلتی تھی۔‘
کافی ہاؤس کی لذیذ حکایت  اور بھی دراز کی جاسکتی ہے  لیکن اب دوبارہ روئیداد خان کی روداد کی طرف مڑتے ہیں جس کےبعدہم نے آگے بڑھنا ہے۔
 لاہور میں ایک دفعہ وہ  اور جمشید مارکر سائیکل پر سوار کہیں  جارہے تھے تو ٹریفک سارجنٹ نے ان کا چلان کردیا۔ جمشید مارکر کی سائیکل کے کرئیر پر گدی نہ ہونا ان کا جرم ٹھیرا۔
روئیداد خان فورمین کرسچین کالج کی ڈبیٹنگ سوسائٹی کے سیکریٹری رہے۔مس وی زیڈ سنگھ اس کی صدر تھیں ۔ٹیمپل روڈ پر ان کی رہائش گاہ تھی۔روئیداد خان کے بقول ’ان دنوں پورا لاہور ان پر( مس وی زیڈ سنگھ )  فریفتہ تھا ۔ لوگ ان سے ملنے کی خواہش میں سرگرداں رہتے۔‘
گریجویشن کے بعد انہوں نے والد کے اصرار پر علی گڑھ کا رخ کیا جہاں کی فضا لاہور کے معتدل ماحول کے مقابلے میں خاصی گرما گرم  تھی  کیونکہ اس تعلیمی ادارے کے طلبہ مطالبہ پاکستان کے لیے بہت پرجوش تھے ۔
جمشید مارکر کی ’کوائٹ ڈپلومیسی‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ روئیداد خان کے ساتھ فون پر باقاعدگی سے تبادلہ خیالات کرتے تھے۔کتاب میں ایک جگہ وہ ہمدمِ دیرینہ  کی مارگلہ ہلز کے تحفظ کے لیے  طویل عرصے سے جاری کوششوں کو بھی سراہتے ہیں۔
مارکر کے انتقال پر ڈان اخبار میں روئیداد خان کے تعزیت نامے سے خبر ملتی ہے کہ دونوں یاروں کی  فون پر قومی و بین الاقوامی امور اور تاریخ سے لے کر خاندانی مسائل پر لمبی گفتگو ہوتی۔

لاہور میں روئیداد خان کی مارکسزم سے جانکاری ہوئی۔ (سکرین گریب)

روئیداد خان کے بعد ایف سی کالج سے وابستہ لاہور کے ایک اور عاشقِ صادق کی کہانی سناتے ہیں ۔
داؤد رہبر نے ’تسلیمات‘ میں  پروفیسر ولفرڈ کینٹ ویل سمتھ کا تذکرہ کیا ہے جو  ہاروڈ یونیورسٹی میں سینٹر فار دی سٹڈی آف ورلڈ ریلیجنز کے سربراہ تھے۔ان کی پیدائش کینیڈا کی تھی لیکن دل میں لاہور کی محبت کا چراغ جلتا تھا جہاں انہوں نے ایف سی کالج میں پانچ برس تاریخ (1940_1945) پڑھائی ۔ کالج کے استاد فرزند علی سے ’مسدسِ حالی' سبقاً سبقاً پڑھی۔لاہور میں قیام کے دوران ’موڈرن اسلام آف انڈیا‘لکھی جس میں  مارکسی نقطہ نظر سے ہندی مسلمانوں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ یہ کتاب 1943میں سول اینڈ ملٹری گزٹ پریس لاہور  نے شائع کی۔ان کی اشتراکیت سے وابستگی انگریزوں کو کھٹکتی تھی اور یہی بات ایف سی کالج سے ان کی رخصتی کا باعث بنی۔یہاں سے جانا ان کے لیے باعثِ آزار ہی رہا کہ وہ یہاں بہت خوش تھے اور داؤد رہبر کے بقول ’ زندگی سے لطف اندوزی جو سمتھ صاحب کو لاہور میں پنج سالہ قیام میں حاصل ہوئی ، عمر بھروہ اسی کو ترستے رہے۔‘
1958 میں پنجاب یونیورسٹی میں انٹرنیشنل اسلامک کلوکیم  ہوا تو اس میں شرکت کے لیے پروفیسر سمتھ لاہور آئے۔یورپ اور امریکہ سے آئے سکالرز نے دیسی مٹھائیاں کھانے سے پرہیز ہی روا جانا لیکن بقول داؤد رہبر ’ آپ (سمتھ صاحب) پوری رغبت کے ساتھ دیسی مٹھائیاں کھانے کا مزہ لے رہے تھے خصوصاً رس گلے کا مزہ۔‘
تقسیم سے پہلے کا لاہور داؤد رہبر کے لیے خود بھی ایک یادگار حیثیت رکھتا تھا۔ وہ تحریروں میں بہانے بہانے سے اسے یاد کرتے تھے۔ابھی چند دن پہلے کتاب ’ آواز خزانہ ‘ (تیسری جلد)میں ان کا انٹرویو دیکھا تو اس میں لاہور کی اسی ماحول کا ذکر تھا جس نے ایک عالم کو اپنا گرویدہ کیے رکھا۔ داؤد رہبر کے بقول ’ لاہور کا زمانہ تقسیمِ ملک سے پہلے ایک نہایت درخشاں زمانہ تھا۔اس کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں خالی سیاسی سرگرمیاں نہیں بلکہ علمی اور عقلی سرگرمیاں نہایت صحت مند سرگرمیاں تھیں۔‘

موچی دروازے کا محلہ چابک سواراں اہم ادبی و سماجی شخصیات کا مسکن تھا (وکی میڈیا)

 داؤد رہبر کے نزدیک پروفیسر سمتھ کی لاہور میں کشش کی وجہ شہر میں  زندگی کا تنوع اور رنگارنگی تھی جس کی وجہ سے شہر میں میلے کا سماں رہتا۔ان کے بقول ’لاہور میں قیام کی یاد ایک متاعِ عزیز کی طرح سمتھ صاحب کے دل میں رہی۔‘
یہ تو ایک امریکی پروفیسر کی لاہور  سے لگاوٹ کا قصہ ہے۔ایک عالم فاضل لاہوریے سے امریکی پروفیسر کے متاثر ہونے کی کہانی  بھی سنیے کہ وہ بھی  بھی داؤد رہبر کے وسیلے سے ہم تک پہنچی ہے۔
ڈاکٹر محمد اجمل ممتاز ماہر نفسیات تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔امریکا میں داؤد رہبر کے ہاں کھانے کی دعوت پر ان کی نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر جڈ ہوورڈ سے ملاقات ہوئی تو وہ ان  کی گفتگو سے بے حد متاثر ہوا۔اس نے داؤد رہبر سے کہا: ’ تمہارے دوست کی وسعت نظر اور گفتگو کی جولانی میر ی زندگی کا ایک خاص تجربہ ہے، میں نے امریکا میں نفسیاتی ڈاکٹروں کے حلقوں میں ایسا چومکھی ذہن والا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔‘
داؤد رہبر کی دانست میں ڈاکٹر اجمل کی شخصیت کی اثر انگیزی  اس ماحول کی دین تھی جس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’پروفیسر ہوورڈ اور ڈاکٹر اجمل کے آفاقِ ذہنی کے تفاوت کی وجوہ میں سب سے بڑی وجہ ڈاکٹر اجمل کے تجاربِ زندگی کا تنوع ہے جو ڈاکٹر ہوورڈ کو خواب میں بھی نصیب نہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کون ہے جس کی گفتگوئیں، نانبائیوں، حلوائیوں، نائیوں، کمہاروں، پہلوانوں، کنجڑوں، سقوں، لوہاروں، موچیوں، لکڑہاروں، جولاہوں، بھٹیاروں، کوچوانوں، قلیوں، بھڑبھونجوں، بھانڈوں، میراثیوں، ہیجڑوں، درزیوں، عطاروں، طبیبوں، موذنوں اور مولویوں سے نہ رہ چکی ہوں ۔ہندوستان اور پاکستان کے مسالہ دار کھانے، آم پارٹیاں، نہاری پارٹیاں، پوشاکوں کی رنگا رنگی، پنجابی اور سندھی اور پشتو اور بلوچی اور مارواڑی اور انگریزی بولیوں کے زمزمے اور سب سے بڑھ کر وہاں کی ٹریفک کی سنسنی خیز اُودھم، زندگی کا ایسا بارونق تجربہ، اور اس پر بہترین تعلیم، ڈاکٹر اجمل کا ذہن باغ و بہار کیوں نہ ہو۔‘

روئیداد خان نے 1940 میں فورمین کرسچین کالج لاہور میں داخلہ لیا تھا (وکی میڈیا)

اس اقتباس کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں لاہور شہر سے ڈاکٹر اجمل کے تعلق کی نوعیت کو  مختصراً بیان کر دیا جائے ۔
ڈاکٹر محمد  اجمل کو لاہور سے بڑی محبت تھی۔ان کا تعلق کوچہ چابک سواراں سے تھا جہاں بڑے بڑے نامی رہے۔ ’تحقیقات چشتی‘ کے مصنف مولوی  نور احمد چشتی اس کوچے کے مکین تھے۔عظیم مصور  عبد الرحمٰن چغتائی کی سکونت بھی ادھر تھی۔ نامور صحافی اور دانش ور  عبداللہ ملک بھی یہیں کے تھے۔اس محلے میں مشہور چینیاں  والی مسجد تھی جہاں ڈاکٹر محمد  اجمل نے معروف عالم مولانا داؤد غزنوی سے درس لیا۔ خوش الحان مؤذن مولوی اسماعیل کی آواز ان کے دل پر اثر کرتی تھی۔رنگ محل مشن ہائی سکول میں مسلمان ،ہندو اور انگریز اساتذہ کی تدریس نے ذہن کو جلا بخشی ۔ بچپن میں موچی دروازے میں  عطا اللہ شاہ بخاری کی طلاقت لسانی کے کمالات دیکھے ۔گورنمنٹ کالج پہنچے تو ایک سے بڑھ کر ایک  استاد ۔ادیبوں شاعروں سے دوستی کا رشتہ استوار ہوا ۔ایک طرف تو علما و فضلا  تو دوسری طرف شعرا وادبا  کی صحبت سے فیض یابی ۔ اس پر مستزاد اندرون لاہور میں عام آدمی سے ربط ضبط اور وہ ماحول جس  کی طرف احمد مشتاق نے اشارہ کیا ہے:
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

شیئر: