Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہروز سبزواری پر تنقید اور مہوش حیات کی یورپ میں پروڈکشن کمپنی

تنقید کا سلسلہ بڑھا تو نتاشا حسین نے انسٹاگرام اسٹوری شیئر کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔ فائل فوٹو: سکرین گریب
اداکار بہروز سبزواری کے بیٹے شہروز سبزواری ان دنوں خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں کچھ دن قبل عیدالاضحی کے دوران وہ اپنی فلم ’بے بی لیشیئس‘ کی پروموشن میں میڈیا پر نظر آئے اور اب وہ تنقید کی زد میں ہیں۔
گزشتہ دنوں معروف ٹی وی رائٹر خلیل الرحمان قمر ایک شو میں شریک ہوئے جہاں ان سے مختلف اداکاروں کے حوالے سوال کیا گیا تاہم حد سے زیادہ پراعتماد مشہور شخصیات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے اداکار عمران اشرف اور سونیا حسین کا نام لیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسے اداکاروں کے نام بتائیں جو اپنے کام کو نہیں جانتے تو انہوں نے عفت عمر کا نام لیا تاہم شہروز سبزواری کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہروز سبزواری اچھے اداکار ہیں لیکن شہروز محبت کے معاملات میں الجھ گئے ورنہ وہ بھی اچھے اداکار بن سکتے تھے۔
اس سے قبل ماڈل و اداکارہ نتاشا حسین نے اسی پروگرام میں شرکت کی تھی، جہاں میزبان کے ایک سوال پر انہوں نے شہروز سبزواری کانام لیا اور کہا کہ میں انہیں اداکار نہیں سمجھتی۔
ان کا کہنا تھا کہ شہروز اگر اداکار بہروز سبزواری کے بیٹے نہ ہوتے تو شاید ان کو اتنے بڑے پراجیکٹس نہ ملتے لیکن ان کے والد ایک بہترین اداکار ہیں۔
پروگرام کا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے بھی میدان میں آئے، اداکارہ یشمیٰ گل نے شو کے وائرل کلپ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایسے سوال کیوں پوچھے جاتے ہیں؟ ااداکارہ لیلٰی واسطی نے بھی سوشل میڈیا پر سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے بارے میں بات کرنے اور اپنی انڈسٹری پر تنقید کرنے کے بجائے کیا ہمارے پاس بہتر مواد نہیں؟
بہرحال تنقید کا سلسلہ بڑھا تو نتاشا حسین نے انسٹاگرام اسٹوری شیئر کرتے ہوئے معافی مانگ لی اور کہا کہ میں شہروز سبزواری سے متعلق اپنے بیان پر معافی مانگتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا میرے بیان کو غلط لیا گیا، شہروز اچھے اداکار ہیں۔
گزشتہ ماہ بھی اداکار شہروز سبزواری کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب وہ اپنی آنے والی رومانوی کامیڈی فلم ’بے بی لیشیئس‘ کی پروموشن میں مصروف تھے۔ اُس وقت طلاق کے بعد سابقہ اہلیہ کے ہمراہ انٹرویوز دینے اور ملاقاتوں پر سوشل میڈیا پر اداکاروں کو تنقید کا سامنا تھا۔

طلاق کے بعد دونوں اداکاروں کے ایک ساتھ کام کرنے پر تنقید کی گئی۔ فوٹو: سکرین گریب

 اگر ان کی فلم بے بی لیشیئس کی بات کریں تو وہ بھی خاطر خواہ بزنس کرنے میں ناکام رہی۔

ساس، بہو اور رومانس پر مبنی پاکستانی ڈرامے

پاکستانی ڈراموں پر اپنے ہی فنکاروں کی جانب سے تنقید اب تو معمول کی بات ہو گئی ہے جہاں ’تیرے بن‘ جیسے ڈراموں نے حال ہی میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے وہیں انہیں تنقید کا سامنا بھی رہا۔
ہدایتکار و اداکار یاسر نواز اور ندا یاسر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگرچہ پوری دنیا میں ایک ہی طریقے سے ڈرامے بنائے جاتے ہیں اور پاکستان میں بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے لیکن یہ ڈراما ساز پر ہوتا ہے کہ وہ کہانی کو اچھے اور تخلیقی انداز میں پیش کرے۔
اس حوالے سے مثال دیتے ہوئے یاسر نواز نے کہا کہ جیسے پاکستان میں مقبول ہونے والے ڈرامے ارطغرل غازی میں بھی جنگوں سے زیادہ ساس، بہو اور رومانس کو دکھایا گیا ہے۔
جس پر ان کی اہلیہ اور میزبان ندا یاسر نے دلیل دی کہ اگر ارطغرل غازی میں صرف جنگیں دکھائی جاتیں تو وہ اتنا مقبول نہیں ہوتا، اس میں رومانس، ساس اور بہو کو دکھانے کی وجہ سے وہ کامیاب ہوا۔
یہ بات صرف ندا یاسر یا یاسر نواز نہیں کہہ رہے بلکہ ژالے سرحدی نے ایک بیان یہی کچھ کہا کہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے شائقین مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈرامے کی کہانی اب ساس بہو سے ہٹ جانی چاہیے کیونکہ ریٹنگ کی بنیاد پر ہم جو ڈرامے چلا رہے تھے وہ شائقین میں مقبول نہیں ہو رہے۔
تاہم اس حوالے سے اداکارہ اشنا شاہ کا نظریہ کچھ مخلتف ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اچھے ڈرامے بننے چاہئیں اور دوسری کہانیاں بھی آنی چاہئیں لیکن پروڈیوسرز اپنا پیسہ ڈبونا نہیں چاہتے، اس لیے وہ ایسے ڈراموں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جس سے انہیں کمائی ہو۔

ندا اور یاسر نے ارطغرل ڈرامے کی کامیابی کی وجہ ساس بہو کے معاملات بھی قرار دیے۔ فوٹو: انسٹاگرام

اداکارہ کے مطابق ایک طرح سے ایسے ڈرامے بنانا مجبوری بھی ہے کیونکہ انڈسٹری کو مضبوط اور بہتر بنانے کے لیے فی الحال ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
آج کل کسی بھی ٹی وی شو کی کامیابی کی ضمانت اس کی ریٹنگ بن گئی ہے اور اچھے مواد کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
بلکہ ایک انٹرویو میں سنیئر اداکار وسیم عباس کا کہنا تھا کہ شوبز انڈسٹری ریٹنگ کے چکر میں غلط نظریات کو ناظرین کے دماغ میں ڈال رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ایک روز میں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ ڈرامے کی ریکارڈنگ ختم ہو گئی ہے، جلد آن ایئر ہونے والا ہے، بس دعا کرو کہ جب بھی یہ ڈراما نشر ہو تو لوڈ شیڈنگ ہو جائے، یہ دیکھنے کے قابل نہیں، بہت بکواس پلے ہے، لیکن جب یہ ڈراما نشر ہوا تو اس ڈرامے نے ریٹنگ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے جس نے بہت زیادہ مایوس کیا۔‘

شائقین کیا چاہتے ہیں؟

ہم ایک بہترین اور منفرد مواد کی کمی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں وہیں ہم اچھے مواد کی قدر بھی نہیں کرتے ہیں۔ پاکستانی فلمیں ہوں یا ڈرامہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ ہم وہی گھسے پٹے مواد کو پیش کرتے ہیں اسی وجہ سے ہم بالی وڈ یا ہالی وڈ تک کبھی پہنچ ہی نہیں سکتے
ناقدین یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر ہم اچھا مواد بنائیں تو لوگ دیکھیں گے، ساتھ ’مداری‘ اور ’جون‘ جیسی فلموں کے ٹریلر کو دیکھ تعریف بھی کرتے ہیں لیکن جب تمام فلمیں سینما میں لگتی ہیں تو ان کے بزنس سے اندازہ ہوتا ہے مداری کے بجائے بھارتی پنجابی فلم ’کیری آن جٹا‘ جبکہ جون کے بجائے ’مشن امپاسبل‘ زیادہ بزنس کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔
فلم جون رواں ہفتے ہی ریلیز ہوئی اور اسی دن پاکستان میں ہالی ووڈ فلم مشن امپاسبل 7بھی ریلیز کی گئی لیکن اگر صرف پہلے دن کا بزنس دیکھا جائے تو تقریباً سنیما گھروں میں جون سے زیادہ مشن امپاسبل کے ٹکٹ فروخت ہوئے۔
فلم جون کی کہانی ایک نوجوان خاکروب کے گرد گھومتی ہے جو غلط صحبت کے باعث گینگسٹر بن جاتا ہے، اس فلم کی کاسٹ میں سلیم معراج، عاشر وجاہت اور رومیسہ خان نے اہم کردار ادا کیے ہیں۔
 رومیسہ خان کا اپنی پہلی فلم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فلم کی شوٹنگ دو سال تک ہوتی رہی تو انہیں شک ہوا کہ ان کی کوئی فلم نہیں بن رہی اور نہ ہی وہ ریلیز ہوگی۔
ڈراموں اور فلموں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رومیسہ خان نے بتایا کہ ’انہیں ذاتی طور پر فلموں میں کام کرنے میں مزہ آیا۔‘
فلم کے حوالے یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ 26 سال بعد سندھی زبان میں کوئی فلم بننے جارہی ہے، آخری بار 1997 میں سندھی زبان میں فلم ریلیز کی گئی تھی۔
پاکستانی ہدایتکار ابو علیحہ نے سندھی زبان میں فیچر فلم ’بھوپو‘ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہیں تھرپارکر کی ریکی کے دوران احساس ہوا کہ اردو یا کسی اور زبان میں یہاں کی کہانی نہیں بتائی جاسکتی۔ اسے مقامی سندھی اور تھری زبان میں ہی بتانا ہوگا۔

پاکستانی فنکار ملک کا نام روشن کرنے کے لیے پُرعزم

رواں ہفتے یہ خبر سامنے آئی کہ پاکستانی اداکارہ نمرہ بچہ پولائٹ سوسائٹی اور مس مارول کے بعد بی بی سی کی نئی تھرلر سیریز آگاتھا کریسٹی کے ناول پر مبنی فلم مڈر از ایزی کا حصہ بن گئیں ہیں۔
نمرہ اس سیریز میں مسز ہمبلبی کا کردار نبھا رہی ہیں اور فلم میں ان کے ساتھ عالمی شہرت یافتہ اداکار ڈیوڈ جانسن، مورفڈ کلارک اور پینی لوپ ولٹن سمیت دیگر شامل ہوں گے جس کی عکس بندی سکاٹ لینڈ میں شروع ہو گئی ہے۔
اس سے قبل نمرہ نے ہالی وڈ پراجیکٹ پولائٹ سوسائٹی اور مس مارول میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
مس مارول میں نہ صرف نمرہ بلکہ ثمینہ پیرزادہ، فواد خان، مہوش حیات اور پاکستانی نژاد اداکارہ ایمان ویلانی نے بھی کام کیا تھا۔ ایمان نے سیریز میں پہلی پاکستانی اور مسلم سپر ہیرو کا کردار نبھایا تھا۔
شاید اسی کو دیکھتے ہوئے اداکارہ مہوش حیات نے ہالی وڈ کی مس مارویل سیریز میں شاندار کام کرنے کے بعد مسلمانوں کی بہتر عکاسی کے لیے یورپ میں ذاتی پروڈکشن کمپنی لانچ کرنے کا اعلان کا کیا ہے۔
انسٹاگرام پر اپنی کمپنی کا اعلان کرتے ہوئے اداکارہ نے لکھا کہ وہ اپنی کمپنی کے ذریعے مغربی میڈیا میں پاکستان اور مسلمانوں کے درست تشخص کو اجاگر کریں گی۔
اداکارہ نے بتایا کہ ان کی کمپنی ’پنک لاما فلمز‘ کے ذریعے اسٹیریو ٹائپز کو چیلنج کرکے مسلم تہذیب کی پہچان کو مزید واضح کیا جائے گا۔
مہوش حیات نے لکھا کہ اگر مسلمانوں نے مغرب میں اپنے متعلق خیالات کو تبدیل کرنا ہے تو اس کے لیے انہیں خود میدان میں اتر کر کام کرنا ہوگا۔

شیئر: