Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلاب کور جو انگریزوں کے لیے دردِ سر بنی رہیں

پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد عملاً انگریزوں کی حکمرانی قائم ہو گئی تھی۔ (فائل فوٹو: سکھ نیٹ)
ہندوستان کی تاریخ کے عظیم شاعر اور سیاسی رہنما مولانا حسرت موہانی کے تخلیق کردہ نعرے ’انقلاب زندہ آباد‘ نے عوام میں آزاد ہونے کی ایک نئی امنگ جگائی تھی۔
اس نعرے نے پانچ دریاؤں کی دھرتی میں ایک ایسے انقلاب کی فضا قائم کی جس کے باعث انگریز راج کے لیے اس خطے سے رخصت ہوئے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔
پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد عملاً انگریزوں کی حکمرانی قائم ہو گئی تھی جسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کیا گیا جس کے باعث سنہ 1857 کے غدر کے بعد صوبے کے معاملات مکمل طور پر انگریزوں کی گرفت میں آ گئے۔
صوبے میں ریلوے کا نظام بچھایا گیا۔ نہری نظام پر کام ہوا اور بڑے شہروں میں اعلٰی تعلیم کی فراہمی کے لیے ادارے قائم کیے گئے۔
انگریز راج مگر پنجاب دھرتی کے عوام کے ذہنوں کے نہاں خانوں میں چھپے غلامی کے احساس کو مٹانے میں کامیاب نہ ہو سکا جس کے باعث 20 ویں صدی کے شروع میں ہی بدیسی حکمرانوں کے لیے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے، جن میں اہم ترین غدر پارٹی کا قیام تھا جو سنہ 1913 میں (کیلیفورنیا) امریکہ میں مقیم پنجابیوں نے قائم کی جس کی قیادت میں اکثریت سکھوں کی تھی۔
غدر پارٹی کی مزید تفصیل بیان کرنے سے قبل یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ انگریز دنیا بھر میں پھیلی اپنی نوآبادیات میں ہندوستان سے محنت کش لے جاتے تھے یا بہت سے لوگ بہتر مستقبل کے لیے اُن دنوں امریکہ سمیت مختلف ممالک کا رُخ کر رہے تھے۔ اس حوالے سے برطانوی وزیراعظم رشی سوناک کی مثال بھی دی جا سکتی ہے جن کے والدین نے اسی زمانے میں گوجرانوالہ سے یورپ کا رُخ کیا تھا۔
غدر پارٹی نے ہندوستان کو بہت سے انقلابی سوچ رکھنے والے نوجوان دیے جن کی جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
شاعر بے بدل جوش ملحیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے:
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
انگریز راج کے خلاف یہ نعرہ مہارانی جند کور نے بھی لگایا تھا جن کی زندگی میں انگریز حکمران ان سے خوف زدہ ہی رہے۔
گلاب کور بھی اسی پنجاب کی بیٹی تھیں جس پنجاب میں مہارانی جند کور نے جنم لیا تھا۔

گلاب کور کو غدری گلاب کور کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)

گلاب کور نے انقلاب کے لیے اپنی آنکھوں سے خواب نوچ ڈالے، اپنی امیدوں، آدرشوں کی پرواہ نہ کی اور اپنے شوہر سے بھی الگ ہو گئیں اور اپنی زندگی انقلاب کے عظیم تر مقصد کے لیے وقف کر دی۔ ان کا شمار تاریخ کے ان فراموش کردہ ہیروز میں ہوتا ہے جو انگریزوں کے لیے دردِ سر بنے رہے۔ وہ ان انقلابیوں میں سے ایک تھیں جنہوں نے کُھل کر انگریز راج کو للکارا۔
پنجاب زبان کے مصنف، مدیر، مترجم اور کارکن امرجیت سنگھ لکھتے ہیں کہ ’گلاب کور نے فلپائن میں غدر پارٹی میں شمولیت اختیار کی جہاں جگروں (بھارت کا ایک قصبہ) کے حافظ عبداللہ مقامی شاخ کے سربراہ تھے۔
سنہ 1890 میں پیدا ہونے والی گلاب کور نے 23 برس کی عمر میں فلپائن میں اپنے قیام کے دوران ہی غدر پارٹی کی فکر کو مکمل طور پر اپنا لیا تھا۔ ان کے لیے ہندوستان کی آزادی ہی ان کا وہ ادھورا خواب تھا جسے پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنا جیون تیاگ دیا۔
گلاب کور کو غدری گلاب کور کے نام سے شہرت حاصل ہوئی جو سنگرور (مشرقی پنجاب) کے گاؤں بخشی والہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی کم عمری میں ہی مان سنگھ سے کر دی گئی اور یہ جوڑا جلد ہی فلپائن کے لیے روانہ ہو گیا جہاں گلاب کور غدر پارٹی کی ایک فعال رُکن کے طور پر سرگرم رہیں۔
ان دنوں ہی مان سنگھ اور گلاب کور نے انڈیا واپس جا کر غدر پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، مان سنگھ  اپنے اس فیصلے پر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے اور انہوں نے گلاب کور سے امریکہ منتقل ہونے کی بات کی۔
گلاب کور نے صاف انکار کر دیا جس پر مان سنگھ اکیلے ہی امریکہ روانہ ہو گئے اور گلاب کور، جو اب ہر طرح کی زنجیروں سے آزاد ہو چکی تھیں، زیادہ جرات اور بہادری کے ساتھ غدر پارٹی میں اپنا کردار ادا کر سکتی تھیں۔
جان نثار اختر کے الفاظ میں ’ہر نہیں ہاں سے بڑی ہے‘، گلاب کور کا مان سنگھ کو انکار کرنا ہی اصل میں انقلاب تھا۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا دور تھا۔
گلاب کور ہندوستانی مہاجرین کو آزادی کے خواب دکھانے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے اس دوران غدر پارٹی کے اپنے 50 ساتھیوں کے ساتھ فلپائن سے انڈیا کے لیے رخت سفر باندھا۔

غدر پارٹی سنہ 1913 میں امریکہ میں مقیم پنجابیوں نے قائم کی۔ (فائل فوٹو: وکی میڈیا)

گلاب کور نے انڈیا واپس آکر برطانوی راج کے جاسوسوں اور پولیس کے تشدد سے بچنے کے لیے خود کو غدر پارٹی میں اپنے ایک ساتھی جیون سنگھ دولے والا کی بیوی ظاہر کیا مگر وہ پولیس کی نظر سے بچ نہ سکیں، جس نے انہیں حراست میں لے کر لدھیانہ کے حراستی مرکز میں ان سے تفتیش کی جہاں سے رہائی پانے کے بعد انہوں نے ایک غدری ساتھی کے گھر پناہ لی۔
گلاب کور نے اس دوران کپورتھلہ، ہوشیارپور اور جالندھر میں مسلح انقلاب کے لیے اپنے ساتھیوں کو تیار کرنا شروع کر دیا۔ گلاب کور نہ صرف آزادی کی تحریک سے متعلق مواد اپنے ساتھیوں میں تقسیم کیا کرتیں بلکہ ایک صحافی بن کر پارٹی کے پرنٹنگ پریس کے معاملات بھی دیکھتی رہیں۔
وہ عوام میں برطانوی راج کے خلاف جذبات اُبھار رہی تھیں جب کہ انہوں نے اس دوران غدر پارٹی کے ارکان میں اسلحہ بھی تقسیم کیا اور پارٹی کی تنظیم سازی میں بھی پیش پیش رہیں۔
غدر پارٹی مگر کوئی بڑی بغاوت بپا کرنے میں ناکام رہی تاہم گلاب کور نے ہمت نہ ہاری۔ وہ انگریز راج کے خلاف ایک اور منصوبہ بنا رہی تھیں۔
ایک غریب کسان کی غدری بیٹی نے انگریز آقاؤں کی راتوں کی نیندیں اُڑا دی تھیں۔
گلاب کور کو اس دوران ایک دن اچانک یہ خبر ملی کہ ان کے شوہر مان سنگھ غدر تحریک میں حصہ لینے کے لیے واپس آ رہے ہیں، یہ دراصل ان کو گرفتار کرنے کے لیے بچھایا گیا ایک جال تھا جس میں وہ پھنس گئیں اور انہیں ضلع ہوشیار پور سے گرفتار کر لیا گیا۔ گلاب کور کو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے تحت دو برس کی سزا ہوئی اور لاہور کے شاہی قلعہ میں قید کیا گیا جہاں ان پر بدترین تشدد کیا گیا۔
گلاب کور سنہ 1931 اور کچھ تاریخی حوالوں کے مطابق سنہ 1941 میں چل بسیں۔ 23 مارچ1931 کو ہی بھگت سنگھ انقلاب زندہ آباد کے نعروں کے ساتھ پھانسی کے پھندے پر چڑھ گئے۔ 
گلاب کور پر پنجابی زبان میں ایس کیسر سنگھ نے ’غدر دی دھی، گلاب کور‘ کے عنوان سے کتاب بھی لکھی ہے جس میں ان کی زندگی اور جدوجہد کا احوال بیان کیا گیا ہے۔
گلاب کور ایک جانب آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی تو دوسری جانب بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی آزاد ہندوستان کے لیے انگریز راج کو للکار رہے تھے۔

بھگت سنگھ غدر تحریک سے بہت زیادہ متاثر تھے اور وہ کرتار سنگھ سرابھا کو اپنا ہیرو مانتے تھے۔ (فائل فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

آزادی کے دنوں میں ایک زیادتی یہ ہوئی کہ ان خواتین پر بہت کم تحقیقی کام ہوا جن کے بغیر پنجاب میں انقلاب زندہ باد کے نعروں کی گونج سنائی دینا ممکن نہیں تھا جن میں ایک اہم نام درگاوتی دیوی کا بھی ہے۔
گلاب کور اور بھگت سنگھ کے درمیان ایک اور تعلق بھی تھا۔ بھگت سنگھ غدر تحریک سے بہت زیادہ متاثر تھے اور وہ کرتار سنگھ سرابھا کو اپنا ہیرو مانتے تھے جنہیں محض 19 برس کی عمر میں لاہور کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
بھگت سنگھ کی ان دنوں غدر پارٹی کے کچھ رہنمائوں بھائی سنتوکھ سنگھ، جو ماہنامہ ’کرتی‘ کے بانی اور مدیر تھے، سے ملاقات ہوئی جبکہ غدر تحریک کے کچھ رہنماؤں سے لاہور کی سینٹرل جیل میں بھی ملاقات ہوئی جن کے جواں جذبوں سے وہ متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ یہ ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ بھگت سنگھ خود ایک ایسے خاندان سے تھے جس کے تقریباً تمام ارکان غدر پارٹی سے منسلک تھے جن میں ان کے والد کشن سنگھ کے علاوہ چچا اجیت اور سواران سنگھ بھی شامل تھے۔
گلاب کور نے یہ جدوجہد ایک سکھ بھری زندگی، اپنے خوابوں اور آدرشوں کی قیمت پر کی جس کے باعث وہ پنجاب کی ان خواتین انقلابیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے پنجاب دھرتی کے عوام کو آزادی کے خواب دیکھنا سکھائے کہ انگریز راج کو اس دھرتی سے بھاگتے ہی بنی۔
لاہور میں گلاب کور کی کوئی یادگار محفوظ نہیں۔ لاہور شاہی قلعہ کا عقوبت خانہ اب بھی ان کی بے مثال جدوجہد کی یاد دلاتا ہے۔
انگریز آقاؤں کو للکارنے والی گلاب کور تاریخ کی ان ہیروز میں شامل ہیں جن کے بغیر آزادی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا تھا۔

شیئر: