Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سبسڈی ختم اور زیادہ شرح سُود، سولر سسٹم عوام کی پہنچ سے باہر

ترجمان سٹیٹ بینک کے مطابق آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد سولر سسٹم پر سبسڈی ختم کر دی گئی ہے (فائل فوٹو: گیٹی)
سلمان عالم ایک نجی ادارے میں ملازم ہیں۔ ان کی تنخواہ تقریباً دو لاکھ روپے ہے۔ وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پی ڈبلیو ڈی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتے ہیں۔
ان کے ایک بھائی ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہیں اور ان کی تنخواہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔ دونوں بھائی اپنے دادا کے خریدے گئے ایک پلاٹ پر والد کی کمائی سے بنائے گئے مکان میں مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہتے ہیں۔ 
مناسب تنخواہ ہونے کے باوجود آنے جانے، کھانے پینے اور دیگر ضروریات کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے دونوں بھائی بمشکل اپنے خاندان کے اخراجات پورے کر پاتے ہیں۔ 
 گذشتہ کچھ عرصے سے بجلی اور دیگر یوٹیلٹی سروسز کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے اب یہ مشکلات ان کے لیے مزید سخت ہو رہی ہیں۔
بالخصوص بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہو کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ گھر پر سولر انرجی سسٹم لگوا لیں تا کہ کم از کم بجلی کے بل سے چھٹکارا مل جائے۔
سولر سسٹم کا پتا کیا تو ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درکار پینلز اور دیگر آلات کی قیمت تقریباً 20 لاکھ روپے بنتی تھی جو کہ ان کے پاس یکمشت موجود نہیں تھی۔ 
انہیں کسی نے بتایا کہ ملک میں شمسی توانائی کے فروغ کے لیے حکومت نے مختلف مراعات کا اعلان کر رکھا ہے اور پاکستان میں موجود تقریباً تمام بینک سولر سسٹم کے لیے قرضہ فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک سولر کمپنی سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ بینک سے قرض کی بنیاد پر ان کے گھر پر شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا نظام لگا دیں۔ 
کمپنی نے ان کے گھر کا سروے کیا اور ضرورت کی بجلی پیدا کرنے کے لیے مکمل منصوبہ تیار کر کے ایک بینک کو قرضے کی فراہمی کے لیے دستاویزات بھجوا دیں۔
بینک نے ابتدائی درخواست منظور کرتے ہوئے سلمان کو بتایا کہ انہیں اس قرضے کے عوض سولر سسٹم کی مجموعی قیمت پر 26 فیصد سود دینا پڑے گا۔
سلمان اس پر راضی ہو گئے کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

حکام ایچ بی ایف سی کے مطابق سولر سسٹم پر قرض کی سہولت کا مستقبل غیر یقینی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

’سولر سسٹم لگوانے کے لیے دادا نہیں مار سکتے‘

لیکن مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا۔
بینک نے ابتدائی درخواست منظور کرنے کے بعد ان کے کیس کو آگے بڑھایا تو اس پر کئی قسم کے اعتراضات لگ گئے۔
پہلا اعتراض یہ لگا کہ جس سرکاری ادارے میں ان کے بھائی ملازمت کرتے تھے اس کے ملازمین کو قرضہ فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ 
سلمان اور ان کے بھائی نے کئی ہفتوں کی تگ و دو اور دفاتر کے چکر کاٹنے کے بعد یہ اعتراض دور کیا تو بینک نے ایک نیا اعتراض لگا دیا۔
بینک کا نیا اعتراض یہ تھا کہ جس گھر پر وہ سولر سسٹم لگوانا چاہ رہے ہیں وہ ان کے دادا کی ملکیت ہے اور دادا جو کہ ابھی حیات ہیں وہ قرضے کی شرائط پر پورا نہیں اُترتے۔
 لہٰذا اس گھر میں بینک کے قرضے سے سولر سسٹم لگانے کے دو طریقے ہیں، اول یہ کہ ان کے دادا جن کے نام جائیداد ہے وہ شرائط پر پورا اُتریں۔
ان شرائط میں عمر کا 75 سال سے کم ہونا اور ذاتی آمدن اتنی ہونا کہ وہ اس قرضے کی قسطیں ادا کر سکیں اور دوسرا یہ کہ ان کے فوت ہونے کے بعد یہ جائیداد اس فرد کے نام پر منتقل ہو جائے جو بینک سے یہ قرضہ لے رہا ہے اور اس کی قسطیں ادا کرنے کی سکت رکھتا ہے۔

سولر سسٹم کے لیے قرض حاصل کرنے کے خواہش مند بیشتر افراد بینکوں کی سخت شرائط پوری نہیں کر پاتے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بینک کے اس جواب پر سلمان نے سولر سسٹم لگوانے کی درخواست یہ کہہ کر واپس لے لی کہ وہ ’شمسی بجلی کے حصول کے لیے اپنے دادا کو نہیں مار سکتے۔‘
جس سولر انرجی کمپنی نے سلمان کے قرضے کے لیے بینک میں کیس بھجوایا تھا اس کمپنی کے ایک اور صارف کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوا۔
عاطف رشید ایک غیرملکی کمپنی کے ساتھ آن لائن کام کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہ  ایک ماہ کے بجائے دو ماہ بعد اکٹھی آتی ہے۔
ان کا کیس جب بینک میں گیا تو بینک نے پہلا اعتراض تو یہ لگایا کہ ان کی تنخواہ چونکہ ہر ماہ نہیں آتی، لہٰذا یہ کوالیفائی نہیں کرتے۔ 
کافی بحث مباحثے کے بعد جب بینک کے افسران کو مطمئن کر دیا گیا کہ اس سے ان کی آمدن پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو دوسرا اعتراض یہ لگا دیا گیا۔
اعتراض یہ تھا کہ ان کا پاکستان میں کوئی دفتر موجود نہیں ہے جو یہ تصدیق کر سکے کہ عاطف ان کے مستقل ملازم ہیں اور ان کی آمدن کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ بینک سولر سسٹم لگوانے کے ہر خواہش مند کو قرضہ دینے سے انکار کرتے ہیں۔ بہت سے صارفین یہ قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں اور گھر پر سولر سسٹم لگوا کر بجلی کے بل سے نجات بھی حاصل کرتے ہیں۔
 تاہم اس قرضے کا حصول بہت صبر آزما اور محنت طلب کام ہے اور کمرشل بینکوں کی جانب سے انتہائی بلند شرح سود کی وجہ سے قرضے پر لگائے گئے سسٹم بہت مہنگے پڑتے ہیں۔

بینکوں کی سخت شرائط کے باعث سولر سسٹم کے لیے قرض کا حصول انتہائی مشکل عمل ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ملازمین کے لیے پانچ سال کا تجربہ اور کاروباری افراد کے لیے تگڑا اکاؤنٹ ضرور

محمد آفتاب اسلام آباد کی ایک بڑی سولر کمپنی کے پراجیکٹ مینیجر ہیں جو روزانہ اوسطاً چار صارفین کو سولر سسٹم فراہم کرتے ہیں۔ 
وہ بتاتے ہیں کہ سولر سسٹم کی تنصیب کے لیے قرضے فراہم کرنے والے بڑے کمرشل بینکوں میں میزان بینک، بینک الفلاح، عسکری بینک، فیصل بینک اور جے ایس بینک وغیرہ شامل ہیں لیکن سب کی شرح سود 26 فیصد ہے۔
’یہ قرضہ حاصل کرنے کے لیے آپ کے پاس اپنے پیشے کا کم سے کم تین سال کا تجربہ ہونا چاہیے اور جس ادارے کے ساتھ آپ کام کر رہے ہیں اس کے ساتھ کم سے کم تین سال کی وابستگی ہونی چاہیے۔‘
ان کے مطابق ’آمدن کم سے کم ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ ہو۔ اگر آپ ذاتی کاروبار کرتے ہیں تو آپ کے بینک اکاؤنٹ میں اتنی رقم ہونی چاہیے جو کہ قرضہ دینے والے بینک کو آپ کی مضبوط مالی حیثیت سے متعلق مطمئن کر سکے۔‘
’قرضہ حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جس گھر پر سولر سسٹم لگوایا جا رہا ہے وہ قرضے کے خواہش مند شخص کے نام پر ہو اور اس کی عمر 75 سال سے کم ہو۔ تمام شرائط پوری ہونے کے بعد درخواست کی منظوری میں ایک ماہ تک کا وقت لگتا ہے۔‘
سولر سسٹم کے لیے قرضے کی منظوری ایک کامیابی ہے لیکن جس شرح پر زیادہ تر بینک ان دنوں قرضہ دے رہے ہیں اس شرح کے حساب سے اس پر خرچ کی گئی رقم اس کی اصل قیمت سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ 

ایک سولر سسٹم تقریباً 25 سے 30 لاکھ روپے میں پڑتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یعنی اگر ایک گھر یا دفتر پر لگائے گئے سولر سسٹم کی اصل قیمت 20 لاکھ روپے ہے تو قرضہ لینے کے بعد یہی سسٹم سود اور دیگر واجبات کی وجہ سے 25 سے 30 لاکھ روپے کے قریب پڑے گا۔

سبسڈی کا کیا بنا؟

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر کے مطابق سال 2022 کے وسط تک حکومت کی جانب سے سولر سسٹم کی تنصیب پر سبسڈی دی جاتی تھی جس کی وجہ سے بینکوں کو کہا گیا تھا کہ ان کے لیے دیے گئے قرضوں پر شرح سود چھ فیصد سے زیادہ نہ رکھی جائے۔‘
ترجمان سٹیٹ بینک کے مطابق آئی ایم ایف سے قرضے کے لیے کیے جانے والے نئے مذاکرات کے بعد یہ سبسڈی ختم کر دی گئی ہے کیونکہ آئی ایم ایف اس پر رضامند نہیں ہوا۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اب ہماری سبسڈی سکیم فعال نہیں رہی لہٰذا اب یہ بینکوں پر منحصر ہے کہ وہ سولر سسٹم کے لیے اپنے صارفین کو کتنی شرح سود پر قرضہ دیتے ہیں۔‘
’اب سٹیٹ بینک اس معاملے کو ریگولیٹ نہیں کر رہا کیونکہ آئی ایم ایف نے سبسڈیز کی مخالفت کی ہے اور ان کی منظوری نہیں دی۔ وہ فنانسنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔‘
سٹیٹ بینک کی طرف سے سبسڈی سکیم کے خاتمے کے باجود ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن (ایچ بی ایف سی) کی جانب سے اب تک چھ فیصد شرح سود پر سولر سسٹم کے لیے قرضے فراہم کیے جا رہے تھے۔ 

قرضہ حاصل کرنے کے لیے ادارے کے ساتھ کم سے کم تین سال کی وابستگی ضروری ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم حکام ایچ بی ایف سی کے مطابق ’اب اس مد میں اب ان کے پاس آخری ایک کروڑ روپے رہ گئے ہیں جس کے بعد اس سہولت کا مستقبل غیر یقینی ہے۔‘
ایچ بی ایف سی اسلام آباد کے ایک اعلٰی عہدیدار کے مطابق یہ ایک کروڑ روپے پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر فراہم کیے جائیں گے اور اس کے بعد نئی پالیسی آنے کے بعد ہی صورت حال واضح ہو سکے گی کہ صارفین کو مستقبل میں کتنی شرح سود پر سولر سسٹم کے لیے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔
اس سلسلے میں ایک قومی بینک کے اعلٰی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اکثر بینک اس لیے بھی قرضوں کی زیادہ تر درخواستیں مسترد کر رہے ہیں کیونکہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے اور ملکی معیشت کی خراب صورت حال میں ان کے لیے چھوٹے صارفین کو اس طرح کی سہولت فراہم کرنا زیادہ فائدہ مند نہیں ہے۔

شیئر: