Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیبیا میں سیلاب کی تباہی کے اسباب، وادی درنہ کا ڈیم

طوفان ڈینیئل سے اب تک 11 ہزار افراد ہلاک جبکہ 10 ہزار سے زائد لاپتا ہیں(فوٹو، ٹوئٹر)
لیبیا کے عوام تاحال ہولناک طوفان کے تباہ کن صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔ لیبی ہلال الاحمر کا کہنا ہے کہ طوفان ڈینیئل سے اب تک 11 ہزار افراد ہلاک جبکہ 10 ہزار سے زائد لاپتا ہیں۔
العربیہ نیوز کے مطابق گزشتہ اتوار کو آنے والے ہولناک طوفان سے ہلاکتوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ طوفان سے ہولناک تباہی کی وجہ وادی درنہ کے ڈیم کو قراردیا جا رہا ہے جس کی مرمت صرف فائلوں میں ہی دکھائی گئی تھی جبکہ حقیقت میں عملی طورپروہاں اصلاح ومرمت کا کوئی کام نہیں کیا گیا۔
لیبیا کی حکومت کے اس بیان پرعوام میں غصے کی شدید لہر پائی جاتی ہے جس میں عبدالحمید الدبیبہ کی حکومت نےکہا تھا کہ وادی درنہ کے ڈیموں کی برسوں سے مرمت نہیں کی گئی تھی ۔ اگرچہ ماضی میں علاقہ متعدد بار سیلاب کی زد میں بھی رہ چکا تھا۔ حکومتی بیان میں لوگوں نے شدید رد عمل ظاہرکرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی وسیع بنیاد پرتحقیقات کی جائیں۔
 وادی درنہ کا ڈیم :
وادی درنہ کا بند بہت بڑا نہیں تھا اس کی بلندی صرف 70 میٹرتھی جبکہ ذیلی بند مرکزی سے معمولی چھوٹا تھا جیسے ہی مرکزی بند ٹوٹا اس کے ساتھ ہی پانی کا دباو ذیلی بند کو بھی بہا کرلے گیا۔
قابل ذکر امریہ ہے کہ بڑے ڈیم کو نہ صرف شدید بارش کا سامنا تھا بلکہ دوسرے ڈیم سے آنے والی پانی کی تند وتیز لہروں کا بھی سامنا کرنا پڑرہا تھا جس کی وجہ سے وہ منہدم ہوگیا۔

وادی درنہ کے ڈیم میں پانی 30 ملین کیوبک میٹرسے زیادہ تھا(فوٹو، ٹوئٹر)

دنوں ڈیموں کو گنجائش سے کہیں زیادہ پانی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ان کی شکستہ حالت بھی اس قابل نہیں تھی کہ وہ شدید سیلاب کا سامنا کرسکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ڈیم ٹوٹا تو اس میں 30 ملین کیوبک میٹر یعنی 12000 اولمپک سوئمنگ پولز کے مساوی پانی اس میں موجود تھا۔
 ڈیم درنہ کے بارے میں تحقیقات
وادی درنہ کے ڈیم کے حوالے سے بڑے پیمانے پرتحقیقات کی جاری ہیں اس حوالے سے جو بات اب تک سامنے آئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ درنہ ڈیم مٹی اورچٹانوں کے پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جسے بڑے ٹینکوں کا سہارا بھی تھا جہاں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تھی۔
ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے تاحال جامع تفصیلات نہیں مل سکیں تاہم مذکورہ ڈیم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ معمولی اورکم درجے کے سیلاب کو روکنے کے لیے ہی تعمیر کیا گیا تھا اسی اعتبار سے اس کی گنجائش کم بھی کیونکہ اس ڈیم کو کسی بڑے سمندری طوفان کا سامنا کرنے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا۔
گلوبل سیکیورٹی ویب کے مطابق ڈیم کو 20 ویں صدر کے وسط میں اس وقت کے موسمی حالت کے مطابق ڈیزائن یا گیا تھا جو اس وقت کی ضرورت تھی۔
ماضی اورحال میں ڈیم کا کردار
عہد رفتہ میں درنہ ڈیم کی وجہ سے علاقہ  سیلاب سے کافی حد تک محفوظ رہا تھا جن میں سال 1941 ، 1956 ، 1959 ، 1968 اور1986 میں آنے والے سیلاب شامل تھے۔
لیبیا کی ’سرت‘ یونیورسٹی کی جانب سے نومبر2022 میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’وادی درنہ کے ڈیم نے ماضی میں سیلاب کے خطرات کا بہتر طورپرمقابلہ کیا ہے‘۔

 درنہ ڈیم کی دیکھ بھال و مرمت صرف سرکاری کاغذات میں ہی کی گئی( فوٹو، ٹوئٹر)

تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈیموں کی مستقل بنیاد پردیکھ بھال ضروری ہوتی ہے جبکہ وادی درنہ کا ڈیم جسے یوگوسلاو کمپنی نے تعمیر کیا تھا کی مرمت 1977 کے بعد سے نہیں کی گئی۔
۔ ڈینیال طوفان سے تباہ ہونے والا درنہ ڈیم :
ڈیم کی تعمیر کا آغاز 1973 میں کیا گیا تھا جو چار برس بعد یعنی 1977 میں مکمل ہوا۔ ڈیم دوحصوں پرمشتمل تھا جس کے بالائی حصہ میں 1.5 ملین مکعب پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تھی جبکہ ذیلی ڈیم جس کا نام ’ابومنصور‘ تھا میں 22.5 ملین مکعب میٹرپانی اسٹور کیا جاسکتا تھا۔
ڈیم کی تعمیر میں چکنی مٹی اورچٹانی پتھروں کا استعمال کیا گیا تھا۔
عوامی غصہ کی شدت میں اضافہ:
لیبیا کے سوشل میڈیا پران دنوں عوامی سطح پرشدید غصہ پایا جاتا ہے جو گزشتہ اتوار کو ہولناک طوفان ڈینیل کے بعد لوگوں میں پیدا ہوا۔ یہ غصہ بالا وجہ نہیں کیونکہ مشرقی لیبیا کے ہزاروں خاندان ایک ہی رات میں ہولناک سیلاب کی نذر ہوگئے۔

سیلابی پانی سے نعشوں کی برآمدگی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے(فوٹو، ٹوئٹر)

سیلاب سے جہاں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے وہاں بے گھر اورلاپتا ہونے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے تاحال سمندر سے نعشوں کی برآمدگی کا سلسلہ جاری ہے۔
اس حوالے سے لیبیا کے باشندوں کا مطالبہ ہے کہ  ہولناک سانحہ کے اصل حقائق عوام کے سامنے لائیں اورتباہی کی وجہ بننے والوں کا سخت سے سخت محاسبہ کیا جائے کیونکہ سرکاری فائلوں میں ڈیم کی باقاعدہ مرمت کی کارروائی تو ہوتی رہی مگر حقیقت اس کے بلکل برعکس تھی یعنی ڈیم کی کبھی صفائی ہی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اس میں مٹی بھرتی گئی اورپانی ذخیرہ کرنے کی صلاحت ختم ہوتی گئی اورنتیجہ گزشتہ اتوار کے روز سب کے سامنے ہے۔

شیئر: