Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس: جزا سزا بعد میں ہوگی اعتراف جرم تو کریں، چیف جسٹس

قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت گذشتہ ہفتے 28 ستمبر کے لیے مقرر کی گئی تھی (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں مختلف اداروں کی جانب سے نظرثانی کی درخواستیں واپس لینے پر ریمارکس دیے کہ جس فیصلے کو آپ نے غلطیوں سے بھرپور کہا وہ اچانک ٹھیک کیسے ہو گیا؟
چیف جسٹس نے کہا ’سچ بولیں کہ اس وقت فرد واحد کے کہنے پر درخواستیں دائر کی تھیں اور اب اپنی آزاد سوچ کے باعث واپس لے رہے ہیں۔‘
جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔  
عدالت نے تمام اداروں سے فیصلے پر عمل در آمد کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے فریقین سے کہا کہ وہ اگر مزید کچھ عدالت میں جمع کروانا چاہتے ہیں تو 27 اکتوبر تک کروا دیں۔  
حکومتی اداروں اور پی ٹی آئی کا درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا۔ اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اب کیوں کیس واپس لینا چاہتے ہیں؟ پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔ 
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہو گئیں؟ کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے؟ 
پیمرا کے وکیل نے بھی عدالت کو بتایا کہ میں بھی اپنی نظرثانی اپیل واپس لے رہا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں؟ 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فروری 2019 میں کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ہمت ہے تو کہیں 2017 میں کون سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا، چیف جسٹس 
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی کہا کہ نظرثانی کی درخواست واپس لے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن تب ٹھیک تھا یا اب ہے؟ کیا کوئی کنڈکٹر تھا جو یہ سب کرا رہا تھا؟ الیکشن کمیشن نے تب کس کے کہنے پر نظرثانی دائرکی؟ آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہو رہا تھا اب ہو رہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا؟ 
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں وہ چلتا ہے جو پوری دنیا میں نہیں ہوتا۔
’پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے۔ جو ہوا اس کا اعتراف تو کرلیں، جزا سزا بعد میں ہوگی۔۔۔ مان لیں کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت فرد واحد کے حوالے کیا گیا تھا۔ آج الیکشن کمیشن آزاد ہوگیا ہے۔ ہمت ہے تو کہیں تب کون سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا۔ پورے پاکستان کو منجمد کیا گیا۔ خادم رضوی مرحوم نے تو تسلیم کیا۔ آپ لوگ تو وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتے۔ کس کا ڈر ہے؟  ٹی وی پر جاکر بھی تقریریں کریں گے تو عدالت کو ہی سچ بتا دیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں 2017 میں آخر کیا معاملہ تھا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کا فیصلہ تمام حقائق بیان کر رہا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب فیصلہ درست ہے تو نظرثانی میں کیوں آئے؟ کون سا نقص تھا جو تب فیصلے میں تھا اور اب نہیں ہے؟ 
پی ٹی آئی نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کی اور وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، اس پر چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی، علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔ 
سابق چیئرمین پیمرا کو دیکھ کر چیف جسٹس کے اہم ریمارکس 
کمرہ عدالت میں سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم بھی موجود تھے جو 2017 میں دھرنے کے وقت اپنے عہدے پر موجود تھے۔ انھیں دیکھ کر چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ریگولربینچ ہے خصوصی بینچ نہیں۔ نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں مگر یہ 4 سال تک مقررنہ ہوئیں۔ فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہوچکے اس لیے اُس بینچ کے سامنے کیس نہیں لگا۔ 
’جو اتھارٹی میں رہ چکے وہ ٹی وی اور یوٹیوب پرتقاریرکرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمیں سنا نہیں گیا۔ اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں۔ آ کربتائیں، ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں۔ کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے۔ آپ طویل پروگرام کر لیں مگر ہر ادارے کو تباہ نہ کریں۔ یہاں آپ خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا۔ ہم پیمرا کی درخواست زیرالتو رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا۔‘

سنہ 2017 میں ٹی ایل پی کے 20 روزہ دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظام زندگی مفلوج ہوگیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جتھے کی طاقت کی نفی نہیں کی گئی۔ وہ آج بھی غالب ہے، سبق نہیں سیکھا ہم نے۔ جن صاحب کو بہت جمہوریت چاہیے تھی وہ کینیڈا سے واپس کیوں نہیں آتے؟ پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو رہی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان تو غلطیاں بھی تسلیم نہیں کرتا۔ مجھ سمیت احتساب سب کا ہونا چاہیے، احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں 55 لوگ مرگئے، کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہاں جو بھی ہو کہا جاتا ہے مٹی پاؤ۔ لوگ مرجائیں مٹی پاؤ؟‘
سماعت یکم نومبر تک ملتوی 
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پرعمل درآمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کریں گے لیکن عدالت وقت دے دے۔ 
عدالت نے نظرثانی درخواستوں پر سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 27 اکتوبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ 
پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن، اعجازالحق اور ایم کیو ایم نے فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جب کہ شیخ رشید کے وکیل نے مقدمے میں التوا کی درخواست دائر کررکھی ہے۔ 
نظرثانی کی درخواستیں واپس لینے کا مطلب کیا ہے؟  
قانونی ماہرین کے مطابق درخواست گزاروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر اپنی نظرثانی کی درخواست واپس لے سکتے ہیں، تاہم ریاستی اداروں کی جانب سے درخواستیں واپس لینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ادارے یا ریاست کی پالیسی میں تبدیلی آگئی ہے۔  
اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جس وقت سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا اس وقت ریاستی اداروں کی پالیسی کچھ اور تھی اور بظاہر حکومت وقت اور اداروں کی پالیسیاں ایک جیسی نہیں تھیں۔‘

آئی بی اور پیمرا نے فیض آباد دھرنا کیس پر نظرثانی کی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اب جب کہ فیصلہ سنانے والے جج چیف جسٹس بن چکے ہیں تو ریاستی ادارے اپنی اس وقت کی پالیسیوں کے بالکل برعکس کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں سیاسی حکومت بھی نہیں ہے۔‘
 ان کے مطابق ’اب انہوں نے بہتر سمجھا کہ عدلیہ کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی سے بہتر ہے کہ فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے جہاں کہیں ممکن ہو عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔‘ 
اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ’چونکہ مختلف سیاسی جماعتیں اس کیس میں فریق تھیں اور اِس وقت ان جماعتوں کی قیادت یا تو جیلوں میں ہے یا پھر روپوش ہے تو بظاہر فوری طور پر اس کیس سے کچھ نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’دو اداروں کی جانب سے اپنی درخواستیں واپس لینے کا مطلب یہ ہی ہے کہ ان اداروں نے کم سے کم اپنی حد تک فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے۔‘

شیئر: