Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی خواہش: ’الیکشن میں ٹکٹ وکیلوں کو دیں گے‘

عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے کئی رہنما جیل میں ہیں جبکہ متعدد پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
نو مئی کو پیش آنے والے واقعات نے پاکستان تحریک انصاف کے اکثر رہنماؤں اور مرکزی قیادت کو سیاسی منظر نامے سے غائب کر دیا ہے اور اگست میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی میں زیادہ متحرک رہنے والے بعض رہنماؤں نے وفاداریاں بدل لی ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد عوامی سطح پر پارٹی سیاست جمود کا شکار رہی۔  ابتدا میں ایسی قیاس آرائیاں ہوئیں کہ عمران خان کی بہنیں یا اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی سیاسی جانشینی کی تیاری کر رہی ہیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں۔  
بشریٰ بیگم یا عمران خان کی بہنوں نے بظاہر پارٹی سیاست میں عمل دخل سے گریز کیا لیکن اس دوران عمران خان کے خاندان سے حسان نیازی زیادہ سرگرم نظر آئے۔
عمران خان کے رشتہ دار سینیٹر سیف اللہ نیازی بھی پارٹی چھوڑ گئے۔ الغرض عمران خان کے خاندان سے کسی بھی شخص نے براہ راست  پارٹی سیاست میں مداخلت نہیں کی۔
اس دوران پی ٹی آئی کا بیانیہ وکلا نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر پیش کیا اور تمام تر پارٹی وکلا اس حوالے سے متحرک نظر آئے جس کے بعد یہ تاثر ابھرنے لگا کہ اگلے انتخابات میں وکلا کو ہی ٹکٹ دیا جائے گا۔
پاکستان میں روایت رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں مرکزی قیادت کا محور ایک ہی خاندان ہوتا ہے لیکن اس روایت کے برعکس پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان کا خاندان سیاست سے گریز کرتا نظر آیا تاہم اس دوران ان کو سیاسی بنیادوں پر مختلف مقدمات کا سامنا ضرور رہا۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے مرکزی ترجمان شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ پارٹی کے حوالے سے عمران خان کے تمام تر فیصلے میرٹ پر ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے ان کے خاندان میں سے کسی کو عہدہ نہیں دیا گیا۔
ان کے مطابق 'پارٹی کی شروعات سے آج تک عمران خان تمام تر فیصلے میرٹ پر کرتے رہے لہٰذا  اُس وقت بھی خاندان سے کوئی سیاسی عہدیدار نہیں تھا اور آج بھی عمران خان کی یہی پالیسی رہی ہے۔ آج بھی تمام فیصلے یا تو عمران خان جیل سے خود کرتے ہیں یاپھر کور کمیٹی کرتی ہے۔‘
ان کے بقول ’عمران خان روایتی اور موروثی سیاست کے قائل نہیں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمرا ن خان کی بہنیں اور ان کی بیگم تحریک انصاف کی سیاست اس لیے نہیں کرتی رہیں  کہ ’بشریٰ بی بی باپردہ خاتون ہیں اور عمران خان کی بہنیں بھی تحریکی سیاست میں  دلچسپی نہیں لیتیں۔‘ انہوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ پارٹی میں چند عناصر عمران خان کے خاندان کو پارٹی سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔

شیر افضل مروت کہتے ہیں کہ پارٹی نے کبھی عمران خان کے علاوہ کسی اور آپشن پر نہیں سوچا (فوٹو: پی ٹی آئی، سوشل میڈیا)

اس حوالے سے عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے بتایا کہ ’پارٹی میں ایسی کوئی چیز زیر بحث نہیں آئی کیونکہ آج تک ہم نے عمران خان کے علاوہ کسی آپشن پر نہیں سوچا۔‘
سینئر تجزیہ کار سلمان عابد بھی کچھ ایسی ہی رائے اپناتے ہوئے بتاتے ہیں  کہ عمران خان کی بہنیں سیاست میں حصہ نہیں لیتی رہیں لیکن ان کے جلسوں میں وہ جاتی رہی ہیں۔ البتہ عمران خان کے دو یا تین کزن سیاست میں آئے تھے، بھکر سے انعام نیازی اور حفیظ اللہ نیازی اور ایک اور کزن تھے جو اب فوت ہوگئے ہیں لیکن وہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا کیونکہ ان کے خاندان میں جانشینی کا تاثر بہت کم ہے۔
سینئر صحافی و اینکر پرسن اجمل جامی یہاں دلچسپ نکتہ بیان کرتے ہیں، ان کا کہننا ہے کہ علیمہ خان کے علاوہ ہم عمران خان کی اکثر بہنوں کو نہیں جانتے، اگر وہ اور بشریٰ بی بی  سیاسی جانشینی کا فیصلہ کرتی ہیں تو یہ عمران خان کے نظریے کے خلاف ہو گا، البتہ ان کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہے گی۔‘
 مختلف واقعات کے بعد  پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما یا تو جیل میں ہیں یا پھر  روپوش ہو گئے ہیں لیکن اس دوران پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم سے مختلف وکلا میڈیا پر پارٹی بیانیہ  زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ آج بھی پارٹی کے تمام فیصلے عمران خان اور کور کمیٹی کر رہی ہے (فوٹو: پی ٹی آئی، سوشل میڈیا)

ان وکلا میں  ایڈوکیٹ شعیب شاہین، شیر افضل مروت اور پنجوتہ برادران سمیت دیگر وکلا شامل ہیں اور آئے روز سکرینز پر نظر آتے ہیں۔
بظاہر سیاسی رہنماؤں کی روپوشی، پریس کانفرنسز اور حالیہ کریک ڈاؤن کے بعد اب وکلا نے قانونی معاونت کے علاوہ سیاسی میدان بھی سنبھال لیا ہے۔
سلمان عابد بتاتے ہیں کہ ان تمام کارروائیوں کے بعد وکلا  کو جگہ ملی تو وہ فرنٹ فٹ پر آ گئے ہیں۔
’وکلا میں عمران خان کی حمایت تو بہت ہے لیکن وہ بھی اب تک عمران خان کے حق میں کوئی بڑی تحریک نہیں چلا سکے ہیں۔‘
اجمل جامی نے وکلا کو آگے لائے جانے کو ایک بہترین حکمت عملی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ وکلا پارٹی قیادت کے برعکس کیسز میں مطلوب نہیں ہیں اور نہ وہ مبینہ طور پر دیگر واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں اس لیے پی ٹی آئی کے لیے یہ ایک محفوظ راستہ ہے کہ پارٹی کی ترجمانی انہی کے ذریعے کی جائے۔
پاکستان تحریک انصاف میں اکثر وکلا ایسے بھی ہیں جن کی پارٹی سے وابستگی بھی رہی ہے
شیر افضل مروت کہتے ہیں کہ ’میں 2017 سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ منسلک ہوں، اسی طرح اکثر وکلا کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف سے ہے جس کی بدولت وہ  خود عوام کے سامنے  پارٹی بیانیہ رکھتے ہیں اور پارٹی کا دفاع بھی کرتے ہیں۔‘

سیاسی حلقوں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن میں وکلا کو بڑی تعداد میں ٹکٹس دے گی (فوٹو: روئٹرز)

ان کے مطابق ’وکلا قانون پر گرفت رکھتے ہیں اور ایسے حالات میں کہ سیاسی قائدین کے لیے بیانیہ پیش کرنا مشکل ہو رہا ہو تو وکلا کا فرنٹ پر رہنا ضروری تھا۔‘
’وکلا میں اس حوالے سے جرات بھی زیادہ ہوتی ہے اور ان کی پشت پر بار کونسلز، بار ایسوسی ایشنز اور عدالتیں ہوتی ہیں اس لیے اس وقت عمران خان کی بات عوام کے سامنے وکیل ہی رکھ سکتے ہیں۔‘
شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ وکلا کا سامنے آنا وقت کی ضرورت ہے۔
’اس وقت ملک کو ضرورت ہے کہ آئین حقیقی معنوں میں بحال ہو، معطل شدہ بنیادی حقوق بحال ہوں، ظلم و جبر کر کے سیاسی لوگوں کی پارٹیاں تبدیل نہ کرائی جائیں۔ صاف شفاف انتخابات منعقد ہوں اور وکلا سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ  کر اس اصولی مؤقف کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’وکلا کو اتنی بڑی ذمہ داریوں کا سونپا جانا عمران خان کی ہدایت پر ہی ہو رہا ہے۔‘
سیاسی قائدین کی خاموشی کے بعد یہ تاثر پھیلنے لگا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں وکلا کی ایک بڑی تعداد انتخابات میں حصہ لے گی۔ بتایا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے  وکلا کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ اس تناظر میں کیا جا رہا ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے  مقتدر حلقوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

حالیہ دنوں میں  مختلف وکلا عمران خان سے ملاقات کرتے رہے ہیں۔ شیر افضل مروت بھی چند روز قبل عمران خان سے مل کے آئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں تمام وکلا کو تو ٹکٹ ملنے کا تاثر درست نہیں لیکن اگر ہمارے امیدواروں کو تنگ کیا گیا یا اگر ہمیں مضبوط امیدوار نہیں ملے تو عمران خان نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں وکلا کو ٹکٹس دیے جائیں۔‘
پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان شعیب شاہین بھی اس تاثر کی تصدیق کرتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ وہ بتاتے ہیں کہ فیصلہ میرٹ پر ہوگا۔ وکلا کی بھی بڑی تعداد شامل ہوگی اور باقی لیڈرشپ بھی شامل ہوگی۔
’اس حوالے سے  کوئی امتیاز نہیں رکھا جائے گا۔ مشکل وقت میں جن وکلا نے ساتھ دیا ہے ان پر بھی غور کیا جائے گا۔‘

سلمان عابد کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خاندان میں سیاسی جانشینی کا تاثر بہت کم ہے (فوٹو: ٹوئٹر، قاسم سوری)

 ان کے بقول ’یہ پارٹی کا فیصلہ ہوگا کہ کس سے کیا کام لینا ہے، اگر مناسب سمجھا گیا کہ وکیل کو ٹکٹ دیا جائے تو ہم اس طرف بھی  جا سکتے ہیں لیکن یہ بات بھی مناسب نہیں کہ صرف وکیلوں کو ہی ٹکٹ دیے جائیں گے اور کسی اور کو نہیں ملے گا۔‘
اس حوالے سے اجمل جامی بتاتے ہیں کہ وکلا کے ذریعے انتخابات میں جانا پی ٹی آئی کے لئے بہت مفید ثابت ہوگا۔
’عمرا ن خان سے ملنے والوں نے انہیں بتایا ہے کہ خان صاحب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وکلا کے ذریعے آگے بڑھنا ایک بہتر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ سیاستدان وہ ہوتا ہے کہ آخری حد تک پہنچ کر کوئی حل نکالے، بجائے اس کے کہ ہٹ دھرمی پر کھڑے ہو کر پارٹی یا ووٹر کا نقصان کرے۔ مذاکرات یا کسی اور طریقے سے تو تاحال کوئی حل نہیں ملا لہٰذا اس وقت یہ حل عمدہ ہی ہے۔‘

شیئر: