Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا حماس کے ساتھ حالیہ جنگ سے اسرائیل کی معیشت پہلے سے زیادہ متاثر ہوگی؟

ماہرین کے مطابق اسرائیلی فوج کا مشن صرف عسکریت پسندوں کو نہیں بلکہ حماس کی حکمرانی کو ختم کرنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے گذشتہ ماہ خطے میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی قبولیت کو سامنے رکھتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں امن اور خوشحالی کے ایک نئے دور کی پیش گوئی کی تھی، تاہم حماس کے ساتھ جنگ کے باعث یہ ویژن پورا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی فوج کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق تین لاکھ 60 ہزار ریزرو فوجیوں کے متحرک ہونے اور ڈھائی لاکھ اسرائیلیوں کے بے گھر ہونے سے بہت سے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔
ریستوران اور دکانیں خالی ہو گئی ہیں۔ ایئر لائنز نے اسرائیل کے لیے زیادہ تر پروازیں منسوخ کر دی ہیں اور سیاح فی الحال سفر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ قدرتی گیس کی ایک اہم فیلڈ بند کر دی گئی ہے جبکہ مزدوروں کی کمی اور کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے کھیت تباہ ہو رہے ہیں جبکہ ہزاروں مزدوروں کو فارغ کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے حکمراں حماس گروپ کو کچلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، جس نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں ہونے والے حملے میں 14 سو افراد کو ہلاک اور 240 سے زیادہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں سے آٹھ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
حماس کے ساتھ پچھلی جنگوں کے بعد اسرائیل کی معیشت بحال ہو گئی تھی، لیکن یہ جنگ ممکنہ طور پر مہینوں تک چل سکتی ہے، کیونکہ اسرائیلی فوج کا مشن صرف عسکریت پسندوں کو نہیں بلکہ حماس کی حکمرانی کو ختم کرنا ہے۔
جنگ میں طوالت اسرائیل کے لیے ایک ٹھوس خطرہ ہے۔ اسرائیل پہلے ہی تین اضافی محاذوں لبنان، مغربی کنارے اور شام کے ساتھ کم درجے کی لڑائی میں مصروف ہے۔ ایک طویل اور ممکنہ طور پر کثیر محاذی تنازع معیشت کے لیے ماضی کے مقابلے میں مزید مشکل پیدا کر سکتا ہے۔
اسرائیل کی وزارت خزانہ نے اقتصادی امداد کا منصوبہ پیش کیا ہے جس میں جنگ سے متاثر ہونے والے کاروباروں کے لیے ایک ارب ڈالر کی گرانٹ شامل ہے۔

حماس کے ساتھ جنگ کے بعد اسرائیل میں کئی کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے اور انہوں نے اتحادی معاہدوں کے تحت الٹرا آرتھوڈوکس اور آبادکاری کی حمایتی جماعتوں کے منصوبوں کے لیے مختص اربوں ڈالرز میں سے کچھ کمی کا مطالبہ کیا ہے۔
رواں ہفتے 300 سرکردہ ماہرین اقتصادیات کے ایک گروپ نے نیتن یاہو اور وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کو خبردار کیا کہ وہ ’ہوش میں آجائیں!‘
انھوں نے بھیجے گئے ایک خط میں جنگ کے اخراجات میں اربوں ڈالر کے اضافے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل کو جو شدید دھچکہ لگا ہے اس کے لیے قومی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی اور جنگ کے نقصانات، متاثرین کی امداد اور معیشت کی بحالی کے لیے دوبارہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔‘
عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز، فچ ریٹنگز اور پی اینڈ ایس سبھی نے حالیہ دنوں میں خبردار کیا تھا کہ جنگ میں طوالت کے نتیجے میں اسرائیل کی قرض کی درجہ بندی میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
اسرائیل 200 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ جنگ ​​میں داخل ہوا ہے۔ مزید برآں، بائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ کانگریس اسرائیل کے لیے 14 ارب ڈالر کی ہنگامی امداد کی منظوری دے، جس میں سے زیادہ تر فوجی فنڈنگ ​​ہے۔ جبکہ امریکہ سے اسرائیل کو سالانہ 3.8 ارب ڈال کی فنڈنگ موصول ہوتی ہے۔
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے ماہر معاشیات اور تحقیق کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر مشیل سٹراوزینسکی نے کہا کہ بینک آف اسرائیل نے حساب لگایا ہے کہ غزہ میں 2014 کی جنگ سے معیشت کو مجموعی گھریلو پیداوار کا 0.4 فیصد نقصان ہوا، اور لبنان میں 2006 کی جنگ میں 0.5 فیصد کا نقصان ہوا۔
’میں 2023 کی آخری سہ ماہی میں ایک بڑے نقصان کی توقع کر رہا ہوں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنا ہوگا، لیکن مجھے حیرانی نہیں ہو گی اگر یہ سالانہ لحاظ سے 15 فیصد سکڑ جائے۔ لیکن آہستہ آہستہ، سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو جائیں گی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’اگر جنگ سے اپنے مقاصد میں کامیابی ملتی ہے تو پھر معاشی سرگرمیوں میں بہتری کی توقع ہے لیکن ایسا کب ہوگا، اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔  یہ اس بات پر بھی منحصر ہے اسرائیلی کتنے محاذوں پڑ رہا ہے۔ لیکن اہم چیز جنگ کی طوالت ہے۔‘

شیئر: