Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عام انتخابات کی تاریخ سامنے آنے پر سیاسی جماعتیں کیا کہتی ہیں؟

وسیم شہزاد نے کہا کہ ’آئین ایک بار پھر ٹوٹا ہے کیونکہ 90 روز میں انتخابات کا آئینی تقاضا پورا نہیں ہوا۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیے جانے کے بعد سیاسی جماعتیں اس بات پر تو خوش ہیں کہ ملک میں انتخابات کی تاریخ آ گئی ہے اور اب ملک سیاسی استحکام کی جانب گامزن ہوگا تاہم اس کے باجود ان کے کچھ گلے شکوے بھی ہیں۔
سینیٹ آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹرشہزاد وسیم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج ایک اچھی خبر ہے کہ انتخابات کی تاریخ سامنے آگئی ہے جو کہ خوش آئند ہے، لیکن ایک بری خبر بھی ہے کہ آئین ایک بار پھر ٹوٹا ہے کیونکہ 90 روز میں انتخابات کا آئینی تقاضا پورا نہیں ہوا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارا تو موقف تھا کہ جو بھی کام ہو وہ قانون اور آئین کے مطابق ہو۔ آئین بالادست ہے اور قانون اس کے تحت ہے۔ کوئی قانون سازی آئین سے بالاتر نہیں ہوسکتی۔ یہی بات ہم سمجھاتے تھے جو نہیں مانی گئی اور خرابیاں پیدا ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کو بھی اب جا کر یہ احساس ہوا ہے کہ انتخابات 90 دن کے اندر ہی ہو جانے چاہیے تھے۔‘
ڈاکٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ ’سابق چیف جسٹس کے دور میں پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ دی گئی تھی، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ عدالتوں کا وقار اسی میں ہے کہ وہ جو فیصلے کریں اس پر عملدرآمد بھی کروا سکیں۔‘
پی ڈی ایم کی حکومت نے صدر کی جانب سے صوبوں میں انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو تفویض کر دیا تھا۔ آج سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کرکے تاریخ اور شیڈول کا اعلان کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس حوالے سے سابق وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار تو اسی کا ہے جس کا ذکر قانون میں موجود ہے اور وہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ نے روایت کو سامنے رکھتے ہوئے صدر سے مشاورت کی ہدایت کی ہے۔‘
ماضی میں اتنخابات کی تاریخ کے حوالے سے مسلم لیگ ن واحد جماعت تھی جسے کوئی جلدی نہیں تھی اور ان پر یہ الزام آتا رہا ہے کہ وہ انتخابات نہیں چاہتے، لیکن آج سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’انتخابات کی تاریخ اس سے آگے جا نہیں سکتی تھی۔ 54 روز کے شیڈول سے بھی ایک ہفتہ آگے جانے سے فائدہ ہوگا کہ موسم بہتر ہو جائے گا اور سردی سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کے ووٹرز کو بھی آسانی ہو جائے گی۔‘

سینیٹر شہادت اعوان کا کہنا ہے کہ ’انتخابات کی تاریخ کا واحد حل ہی وہی ہے جو آئین کہتا ہے۔ 90 روز سے آگے جانا ہی غلط تھا۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن انتخابات کے لیے تیار ہے اور ہم نے پارلیمانی بورڈ تشکیل دے دیے جو امیدواروں کے ٹکٹوں کا فیصلہ کریں گے۔‘
پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے پیپلز پارٹی نے بھی اگرچہ نئی مردم شماری کی منظوری کے لیے ووٹ دیا، لیکن ان کا موقف تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر شہادت اعوان کا کہنا ہے کہ ’انتخابات کی تاریخ کا واحد حل ہی وہی ہے جو آئین کہتا ہے۔ 90 روز سے آگے جانا ہی غلط تھا۔ اب اگر صدر مملکت اس بات پر بضد ہو جائیں تو 54 روز کے شیڈول سے آگے ایک دن ہی نہیں جانا تو ڈیڈ لاک پیدا ہو جائے گا اور معاملہ ایک بار پھر واپس عدالت میں ہی چلا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’صدر نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر تاریخ نہیں دی تھی جو ان کی غلطی تھی۔ الیکشن کمیشن بھی کئی معاملات پر یو ٹرن لے چکا ہے۔ میں آج اپنی جماعت کی جانب سے تاریخ سامنے آنے پر خیرمقدم نہیں کروں گا کیونکہ یہ کل پھر یو ٹرن لے سکتے ہیں۔ واحد عمل یہی ہو سکتا تھا کہ 90 دن میں انتخابات کروا دیے جاتے اور صرف اسی کا خیرمقدم کیا جا سکتا ہے۔

شیئر: